پاکستان کے خلاف نئی بھارتی واردات

تنویر قیصر شاہد  پير 27 مارچ 2023
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

نیٹ فلکس (Netflix) امریکی انٹرٹینمنٹ ادارہ ہے ۔ تقریباً 28سال قبل امریکی ریاست، کیلی فورنیا، میں اِس کی بنیادیں رکھی گئیں ۔رِیڈ ہیشٹنگیز اور مارک رینڈولف اِس ادارے کے بانیان ہیں۔

جدید موضوعات پر وڈیو گیمز اور فلمیں بنانے میںاِس ادارے نے چند ہی برسوں میں عالمی شہرت اختیار کر لی ہے ۔’’نیٹ فلکس‘‘ دراصل ا مریکی فلمساز ادارے ،ہالی وُڈ، کے مقابلے میں ، ایک زبردست متبادل کے طور پر، سامنے آیاہے۔کہا جاتا ہے کہ دُنیا کے190ممالک میں20کروڑ سے زائد افراد اِس ادارے کے ممبرز بن چکے ہیں جو ڈالروں میں فیس ادا کرکے اِس کے بنائے گئے ڈرامے، فلمیں اور وڈیو گیمز دیکھتے ہیں ۔

یہ بھی کہا جاتا ہے یہ امریکی ادارہ’’آن ڈیمانڈ‘‘ بھی فلمیں بناتا ہے۔ ایسی فلمیں کئی ممالک اور اداروں کے خلاف منفی پروپیگنڈے پھیلانے میں معاون ثابت ہو رہی ہیں۔

بھارت کے فلم پروڈیوسر نے ’’نیٹ فلکس‘‘ کے ساتھ مل کر ایک نئی پاکستان مخالف فلم بنائی ہے۔ بالی وُڈ، اِس سے قبل بھی پاکستان کے خلاف کئی فلمیں بنا چکی ہے۔اب بھارت نے ’’نیٹ فلکس‘‘ سے مل کر ایک نئے رُخ سے واردات ڈالنے کی ناکام کوشش کی ہے۔

اس فلم میں جنرل ضیاء الحق ، پاکستان میں مارشل لا، محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور پاکستان کے جوہری پروگرام کے خلاف نہائت زہریلا پروپیگنڈہ کیا گیا ہے۔ اشواتھ بھٹ نے جنرل ضیاء الحق کا کردار ادا کیا ہے، مگر بُری طرح ناکام ہُوا ہے ۔فلم مذکور میںاس کی شکل نہ تو جنرل ضیاء الحق سے ملتی ہے نہ اس کا لہجہ پاکستان کے سابق آمر حکمران سے مشابہ ہے ۔

وہ اپنی بھنووں کو حرکت دے کر جس اسلوب میں مکالمے ادا کرتا ہے، کردار کا یہ عنصر جنرل ضیاء الحق میں سرے سے پایا نہیں جاتا تھا۔ فلم میں ڈاکٹر قدیر خان کا کردار جس اداکار کو دیا گیا ہے، وہ بھی نہائت فضول ہے۔ اِس لحاظ سے یہ فلم پروپیگنڈہ مشن سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی، لیکن جو زبان استعمال کی گئی ہے، ناقابلِ برداشت ہے ۔

سدہارتھ ملہوترا نے اِس فلم میں بطورِجاسوس مرکزی کردار ادا کیا ہے ۔ کہانی کے مطابق: وہ بھیس بدل کر پاکستان آتا ہے اور پاکستان کے جوہری پروگرام کے راز حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے ، یہ کردار بھی فلاپ ہی ہے۔ اِس کے باوجود بھارت نے ’’نیٹ فلکس‘‘ کے تعاون سے،اور کروڑوں کے فنڈ خرچ کرکے، پاکستان کے خلاف منفی مہم چلانے کی کوشش کی ہے ۔

بھارت نے ہمیشہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی مخالفت کرنے اور اِسے نقصان پہنچانے کی ہمیشہ کوششیں کی ہیں لیکن ہر بار منہ کی کھائی ہے ۔

حالیہ فلم بھی دراصل اِسی ضمن کی ایک بھونڈی مگر نئی کوشش ہے۔ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں وزیر اعظم نواز شریف کے دوسرے دَور میں پاکستان نے بھی ایٹمی دھماکے کیے اور خود کو دُنیا کی ایٹمی قوتوں میں باقاعدہ شامل کیا تو تب بھی بھارت کو پاکستان کے اِس جری اقدام پر بے حد تکلیف ہُوئی تھی ۔

تب بھی مبینہ طور پر بھارت نے، اسرائیل کے ساتھ مل کر، پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنانے کا پروگرام بنایا تھا،لیکن پاکستان کو الرٹ پا کر بھارتی بنیا دُم دبا کر بھاگ گیا تھا۔مذکورہ فلم میں بھی بھارتی و اسرائیلی اِس گٹھ جوڑ کو دکھایا گیا ہے۔

اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان کا جوہری پروگرام اور ایٹمی اثاثے دُنیا کے محفوظ ترین پروگراموں میں شامل ہیں۔ پاکستان کے جوہری پروگرام بارے عالمی نگران ایٹمی ادارے (IAEA) کو بھی کبھی کوئی شکائت موصول نہیں ہُوئی ۔

جب کہ بھارت کے غیر محفوظ ایٹمی پروگرام بارے اِسی عالمی نگران ایٹمی ادارے کو بار بار شکایات موصول ہو چکی ہیں۔ پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام بھارتی بنئے کی آنکھ میں خارِ مغیلاں کی طرح کھٹکتا رہتا ہے ۔ بھارت کو مگر بخوبی معلوم ہے کہ جب بھی اُس نے اِس میدان میں کوئی گندی حرکت کی، پاکستان ترنت اِس کا برابر جواب دے گا۔

اِس کا ثبوت سابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو(Mike Pompeo) کی تازہ ترین کتابNever Give An Inch میں سامنے آیا ہے ۔ مائیک پومپیؤ لکھتا ہے :’’فروری 2019میں پاکستان اور بھارت ایٹمی حملے کرنے کے لیے ایک دوسرے کے سامنے آ کھڑے ہُوئے تھے ۔

بھارت نے پاکستان کے بالا کوٹ پر ( بلا جواز) حملہ کیا تھا اور پاکستان جواب دینے کے لیے پر تول رہا تھا۔ مَیں 28فروری کو ہنوئی (ویت نام) میں تھا کہ رات گئے بھارتی وزیر خارجہ ، سشما سوراج، کا فون آیا۔ وہ گھبرائے لہجے میں کہہ رہی تھیں کہ بالا کوٹ حملے کا جواب دینے کے لیے پاکستان ہم پر ایٹمی حملے کی تیاری کررہا ہے اور ہم بھی جواباً تیاری کررہے ہیں ۔‘‘

سابق امریکی وزیر خارجہ کا یہ تاریخی بیان بھی شہادت دے رہا ہے کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیتوں نے بھارت کی ناک میں نکیل ڈال رکھی ہے۔ وہ پاکستان کے خلاف کوئی بھی مذموم اور بزدلانہ کارروائی سے قبل سو بار سوچنے پر مجبور ہے۔

کیا ایسے پاکستان مخالف ملک، بھارت، پر اعتبار کیا جا سکتا ہے ؟وزیر اعظم ، جناب شہباز شریف، نے گزشتہ روز ایک عرب میڈیا کو انٹرویو دیتے ہُوئے بھارت کو صلح، امن اور جیو اور جینے دو کا پیغام دیا تھا۔ اِس سے قبل سابق آرمی چیف، جنرل قمر جاوید باجوہ ، نے بھی بین السطور بھارت کو امن اور تجارت کا پیغام دیا تھا۔

یہ مستحسن اقدامات اور امن سے محبت کا اظہار ہے لیکن بھارت کے خبثِ باطن کا کیا علاج ہے؟ پاکستان متنازع مسئلہ کشمیر کے حل کا خواہشمند ہے ، لیکن بھارت اِس خواہش کے سامنے آئے روز رکاوٹیں ڈالتا ہے۔

بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر بالی وُڈ نے کشمیری عوام ، سرزمینِ کشمیر اور کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی کے خلاف ایک دل شکن اور زہریلی فلم بنا کر کشمیریوں اور پاکستان کا دل دکھایا ہے۔ کیا ایسے ہمسائے کے سامنے دوستی اور امن کے لیے بانہیں پھیلائی جا سکتی ہیں؟

بھارتی اسٹیبلشمنٹ پاکستان اور مقبوضہ کشمیر کے خلاف مسلسل فلمیں بنا کر دل آزاری کی دانستہ حرکات کا مرتکب ہوتا ہے لیکن جب بھارتی اسٹیبلشمنٹ ، بھارتی حکمرانوں اور بھارتی سیاستدانوں کو اُن کے سیاہ کرتوت دکھانے کے لیے کوئی عالمی ادارہ فلم بناتا ہے تو بھارت کو بڑی تکلیف پہنچتی ہے ۔

اِس کی تازہ ترین مثال بی بی سی کی تیار کردہ دستاویزی فلمThe Modi Question ہے ۔اِس فلم میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور اُن کے ساتھیوں کا وہ بھیانک اور سیاہ چہرہ دکھایا گیا ہے جب نریندر مودی کی زیر نگرانی سیکڑوں گجراتی مسلمان ذبح کر دیے گئے تھے اور بی جے پی کے غنڈوں نے سیکڑوں گجراتی مسلمان خواتین کا ریپ کیا تھا۔

ابھی اِس فلم کا پہلا حصہ ہی سامنے آیا ہے تو بھارتی حکومت نے اِس پر فوراً پابندی عائد کر دی ہے ۔فلم کے ذریعے دوسروں کے خلاف وارادتیں ڈالنے والا بھارت بی بی سی کی دستاویزی فلم سے ڈر کر بھاگ گیا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔