عمران خان کی تازہ بڑھک

ڈاکٹر فاروق عادل  پير 27 مارچ 2023
farooq.adilbhuta@gmail.com

[email protected]

مجھے بات اس کتاب کی کرنی ہے جسے ناصر الدین محمود نے لکھا اور نام رکھا: ’’جمہوریت ہی راستہ‘‘ لیکن بیچ میں عمران خان آ گئے ہیں۔

ویسے عمران خان جو بھی کہہ ڈالیں، حیرت نہیں ہونی چاہیے لیکن جمعے کو لاہور ہائی کورٹ میں جو کچھ انھوں نے کہا، اس میں پریشانی کی بات بہرحال موجود ہے۔

انتخابات کے التوا کے ذکر پر انھوں نے سوال کیا کہ کیا اکتوبر تک حالات درست ہو جائیں گے؟ پھر خود ہی اس سوال کا جواب دیا کہ نہیں، حالات تو مزید بگڑنے والے ہیں۔ خان صاحب کچھ بھی کہہ دیں، لوگ تعجب نہیں کرتے کیوں کہ عمومی خیال یہی ہے کہ وہ ہر کام الل ٹپ کرتے ہیں، بے سوچے سمجھے کرتے ہیں۔ نتیجہ کیا نکلتاہے، اس کی انھیں پروا نہیں ہوتی۔

ان کے دھرنے اور لاک ڈاؤن بلکہ پینتیس پنکچروں کی باتیں پرانی ہوئیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد بھی عمومی خیال یہ ہے کہ انھوں نے یہی کیا۔

صرف قومی معیشت کے ضمن میں نہیں بلکہ دفاع اور قومی سلامتی کے معاملات میں بھی۔ یہ تاثر اپنی جگہ لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ ان کی باتیں اور فیصلے الل ٹپ نہیں ہوتے، اس سب کے پیچھے سب کچھ سوچا سمجھا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر 5اگست 2019 کے واقعات۔

5 اگست محض چند ہفتے قبل بھارت میں عام انتخابات متوقع تھے۔ بھارت میںکون جیتے گا، کون ہارے گا،ایک زمانہ تھا، ہمارے یہاں اس کی بہت فکر بھی ہوا کرتی تھی اور بحث مباحثہ بھی جاری رہتا تھا لیکن کچھ عرصہ ہوتا ہے، ہمارے یہاں اعتدال آیا اور بھارت کے معاملات بھارت پر چھوڑ دینے کا رویہ پختہ ہوا۔ ہمارے چاہنے نہ چاہنے سے کیا ہوتا ہے، اسے چھوڑئے، اہم بات یہ ہے کہ یہ رویہ صحت مندانہ تھا۔

بالغ نظر قومیں باتیں کرنے اور زبانی کلامی کارنامے انجام دینے کے بجائے عمل کے میدان کچھ کر دکھاتی ہیں اور خود کو مضبوط بنا کر اپنے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں۔ جنرل ضیا کے بعد پروان چڑھنے والے زمانے میں اگر کوئی مثبت رویہ پروان چڑھا تھا تو وہ یہی تھا۔ یہ عمران خان کا اپنا دور حکومت تھا جس میں انھوں نے یہ روایت توڑی اور بھارتی انتخابات کے نتائج کے بارے میں یہ کہہ کر رائے زنی کی کہ ان انتخابات میں نریندر مودی کو کامیاب ہونا چاہیے۔

مودی کامیاب ہو گئے تو مسئلہ کشمیر حل ہو جائے گا۔ کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا جب وہ ابھی اقتدار میں نہیں آئے تھے، وہ اپنے سب سے بڑے حریف وزیر اعظم میاں نواز شریف پر پھبتی کسا کرتے تھے کہ وہ مودی کے یار ہیں اور وہ قومی مفادات کا خیال نہیں رکھتے۔ اس کا مطلب یہ تھا بزعم خود وہ قومی مفادات کا خیال رکھتے ہیں اور مودی کے یار نہیں ہیں۔

ماضی قدیم کی ایک رسم تھی جیسا کہ عرض کیا ہے کہ ہمارے حکمران کسی نہ کسی طرح بھارتی کانگریس یا اس کے کسی حریف کے حق میں کوئی نہ کوئی اشارہ کر دیتے اور بھارت کا مسلمان ووٹ فیصلہ کن کردار ادا کر دیتا۔

ایک بار ایساہو تو جاتا لیکن بعد میں بھارتی مسلمان کو اس کی قیمت مسلم کش فسادات کی صورت میں اور پاکستان کو بعض دوسری صورت میں ادا کرنی پڑتی۔ پاکستان کی بدلی ہوئی حکمت عملی کے کچھ نتائج ملے کچھ مزید مل جاتے لیکن ا س طرف پاکستان تبدیلی کا شکار ہو گیا اور عمران خان نے مودی کے حق میں ایک بار پھر وہی کردار ادا کر کے حالات کو بدل دیا۔

یہ حالات کیسے بدلے؟ سب سے پہلے تو عمران خان کی توقع کے عین مطابق مسئلہ کشمیر حل ہوا یعنی پانچ اگست کے منحوس واقعے کے ذریعے بھارت نے کشمیر کو اپنا مستقل حصہ بنالیا۔ عالمی جوڑ توڑ کی خبر رکھنے والوں کی خبر یہی تھی کہ یہ سب کچھ الل ٹپ نہیںتھا بلکہ ایک سو چے سمجھے منصوبے کا حصہ تھا جس میں عمران خان مکمل طور پر شریک تھے۔

اس تجربے کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ عمران خان اس وقت جو کچھ کہہ رہے ہیں یا کر رہے ہیں، وہ کوئی اتفاق ہے ۔ عمران خان کوئی لا ابالی شخص ہیں، اب اس تاثر سے نکل کر نہایت سنجیدگی کے ساتھ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عمران خان جو کچھ کرتے ہیں، اس کا کوئی مقصد ہوتا ہے۔

حکومت میں آ کر انھوں نے مودی کو اقتدار دلوایا، کشمیر کے معاملے میں خاموش طرز عمل اختیار کیا، اقتصادی راہ داری کا منصوبہ تباہ کیا اور سب سے بڑھ کر ملک کی معیشت کے سلسلے میں منفی طرزِ عمل اختیار کیا۔یہ سب ایک منصوبہ تھا جس کا مقصد قومی دفاع کو کمپرومائز کرنا تھا۔ اس وقت وہ پھر گڑبڑ کی بات کر رہے ہیں اور ایسی گڑبڑ کی بات کر رہے ہیں جو جنرل ضیا کے مارشل لا کی طرح گیارہ برس طویل بھی ہو سکتی ہے۔

عمران خان کی یہ بات نظر انداز کرنے والی نہیں ہے، اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ کس بحران کی نشان دہی کر رہے ہیں۔اس پس منظر میں عمران خان کو مختلف سطح پر ملنے والی سہولتیں اور رعایتیں توجہ طلب ہیں۔

یہی صورت حال ہے جس کی وجہ سے معیشت ہی نہیں بلکہ ملک کا انتظامی ڈھانچہ بھی کمزور ہوتا جا رہا ہے کیوں کہ پارلیمنٹ سے باہر کیے جانے والے آئینی و قانونی فیصلے ریاست اور معیشت دونوں کو کمزور کر رہے ہیں۔

عمران خان کا قصہ طویل ہو جانے کی وجہ سے ناصر الدین محمود اور ان کی کتاب ’’جمہوریت ہی راستہ‘‘کا تذکرہ پس منظر میں چلا گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب پاکستان کی موجودہ صورت حال کو سمجھنے اور ان مسائل کے حل کے سلسلے میں غیر معمولی راہ نمائی فراہم کرتی ہے۔ ہم نے یہاں عرض کیا ہے کہ سیاست کے ضمن میں پارلیمنٹ سے باہر ہونے والے فیصلوں سے مسائل پیچیدہ ہو رہے ہیں۔ اسی قسم کے سوالات اس کتاب میں بھی زیر بحث آئے ہیں۔

جیسا کہ کتاب کے نام سے ظاہر ہے، مصنف جمہوریت کو ہی ملک کے مسائل کا آخری حل سمجھتے ہیں لیکن عمران کو ملنے والی غیر معمولی سہولتوں اور قانونی رعائتوں کے ضمن میں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ وہ تجویز کرتے ہیں کہ ریاست کے مختلف اسٹیک ہولڈرز ذرا توقف کر کے پالیمنٹ پر اعتماد کریں، ملک کے حق میں بھی یہی بہتر ہے اور خود ان کے حق میں بھی۔

اس کتاب پر بات ابھی جاری رہے گی لیکن اب ذرا یہ جان لیں کے ناصر الدین محمود کون ہیں؟ایک زمانہ تھا، ہمارا سیاسی کارکن دانش ور بھی تھا، صحافی بھی اور سماجی کارکن بھی، پھر حالات بدلے اور انجینئرنگ اور طب کی طرح اسپیشیلائزیشن کا دور شروع ہوا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک سیاسی کارکن بقیہ صلاحیتوں سے محروم ہو کر دوسرے شعبوں میں ناکام پایا گیا۔

ایسے لوگ کسی کی راہ نمائی کرنے کے قابل تو کہاں ہوں گے، ان کی پہاڑ جیسی بلند انا اجازت دے تو خود ان کی اپنی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔

غنیمت ہے کہ اس گئے گزرے دور میں ناصر الدین محمود جیسے سیاسی کارکن ہمیں میسر آگئے ہیں جنھوں نے ان سیاسی اساتذہ کی آنکھیں دیکھ رکھی ہیں جو صرف سیاست دان نہ تھے بلکہ پوراکلاسیکل سیاسی عہد تھے۔ ان کی نگاہ فقط اپنے عہد کی سیاست پر ہی مرکوز نہ تھی بلکہ وہ تاریخ کا گہرا علم رکھنے کے علاوہ اپنے گرد و پیش یعنی خطے کے حالات اور اس میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ عالمی سیاست کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنی مستقبل کی سیاسی حکمتِ عملی مرتب کرتے تھے۔

خوش قسمتی سے ناصر ہماری سیاست کی اسی کلاسیکی روایت سے تعلق رکھتے ہیں۔ انھوں نے ان ہی قربانیاں دینے والے نظریاتی سیاسی بزرگوں سے سیاست کے نشیب و فراز سیکھے ہیں۔ اس سیاسی سفر اور متنوع تجربات سے انھوں نے جو روشنی پائی، اس کی جھلک ان کی تحریر میں نمایاں ہے۔

اس روشنی سے مستفید ہونے کے خواہش مند قاری کو میرا مشورہ ہے کہ وہ خود کو ان تحریروں اور تجزیات کے زمانے میں لے جائے اور انھیں پڑھے۔ اسے اندازہ ہو جائے گا کہ ناصر نے ہمیشہ ایسی پیشین گوئی کی جسے وقت نے بعد میں ہو بہو درست ثابت کر دیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔