قبل از وقت الیکشن اور ممکنہ نتائج

ڈاکٹر منصور نورانی  پير 27 مارچ 2023
mnoorani08@hotmail.com

[email protected]

عدلیہ کا کام ملک کے آئین و دستور کی حفاظت کرنا اور اس پر عملدرآمد کرانا ہوتا ہے ، وہ مقدمات میں یہی دیکھتی ہے کہ اس کے بارے میں قانون اور آئین کیا کہتا ہے اور اسی کے مطابق فیصلے کرتی ہے ، وہ صرف دستور اور قانون کی تشریح کرتی ہے۔

ہماری سپریم کورٹ نے از خود نوٹس کیس میں پچھلے ماہ ایک فیصلہ صادر فرمایا کہ پنجاب اور سندھ میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات تین ماہ کی مقررہ آئینی مدت میں ہی ہونے چاہئیں۔

یہ فیصلہ چونکہ عدالت عظمیٰ کا ہے، لہٰذا اس کے بارے میں تو ہم کچھ نہیں کہیں گے البتہ دو صوبوں میں قومی الیکشن سے چند ماہ قبل الیکشن کرانے سے کیا کیا مسائل پیدا ہوسکتے ہیں، ان پر بات ہوسکتی ہے۔

پنجاب اور خیبر پختون خوا میں آئین کے مطابق عبوری حکومتیں قائم ہیں۔ ان نگران حکومتوں کے تحت اگر آج الیکشن کرا دیے جاتے ہیں اور چھ ماہ بعد قومی اسمبلی اورباقی دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوں گے تو کیا دو صوبوں میں برسراقتدار حکومتیں ان انتخابات پر اثر انداز نہیں ہوںگی۔

یہ تو ہو نہیں سکتا کہ اُن نئی حکومتوں کو کچھ دنوں کے لیے ہٹا کر ایک غیر جانبدار عبوری سیٹ قائم کردیا جائے۔

ایک پہلو یہ ہے کہ پنجاب اور خیبر پختون خوا حکومتوں کی آئینی مدت ہر بار قومی انتخابات، سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں کے الیکشن سے چھ ماہ قبل ہی ختم ہوجائے گی اور ہر بار وہاں ایسے ہی الیکشن کرانے پڑیں گے۔ یہ سلسلہ لامتناہی رہے گا اور پاکستان ہمیشہ کے لیے سیاسی لڑائی کا میدان بن جائے گاجس کا نتیجہ سوائے تباہی کے کچھ نہیں ہوگا، یہ ایسے پہلو ہیںجن پر غور ہونا چاہیے تھا۔

الیکشن کمیشن نے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی کے طے شدہ انتخابات ملتوی کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں یہ پہلو سامنے نہیں رکھا حالانکہ یہ انتہائی اہم اور غور طلب مسئلہ ہے۔

الیکشن کمیشن نے یہ تو ضرور کہا کہ سیکیورٹی ایجنسیاں اُسے صاف اور شفاف الیکشن کرانے کے لیے سیکیورٹی فراہم نہیں کر رہی ہیں اور وزارت خزانہ بھی الیکشن کے لیے مطلوبہ فنڈز نہیں دے رہی ہے، اس لیے وہ یہ الیکشن کرانے سے معذرت خواہ ہے ، حالانکہ مذکورہ بالا دو اہم وجوہات بھی شامل کردی جاتیں تو شاید بہتر ہوتا۔ اب معاملہ ایک بار پھر ہماری اعلیٰ عدلیہ کے سامنے جارہا ہے۔

اب مسائل مزید پیچیدہ اور گنجلک ہوگئے ہیں۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے الیکشن باقی ماندہ چھ ماہ کی آئینی مدت پوری کرنے کے لیے ہوتے تو اس فیصلے میں کوئی خرابی نہ تھی لیکن یہ پورے پانچ سال کی مدت کے لیے الیکشن ہونا ہے۔

ایسی صورتحال میں دو صوبوں میں ہر پانچ سال بعد یہی مشکل کھڑی ہوگی کہ پہلے منتخب ہوجانے والی صوبائی حکومتیں قومی انتخابات میں بھر پور طریقے سے اثر انداز ہونے کی کوششیں کریں گی۔ قبل از انتخابات افسروں کے تبادلے اور تعیناتیاں ہوا کریں گی اور کوئی عدالت انھیں روک بھی نہیں سکے گی۔

الیکشن میں ہار جانے والا فریق الیکشن کے نتائج کو ماننے سے انکار کرے گا اور اگر وہ خان صاحب خود ہوںگے تو پھر آپ سوچ سکتے ہیں کہ احتجاج کتنا پرتشدد اور گھیراؤ کے ساتھ ہوگا۔ ملک افراتفری کی سیاست کی بھیٹ چڑھ جائے گا اور معاشی بحران سے پھر کبھی باہر نہیں نکل پائے گا۔

چار حلقے کھلوانے کے بہانے اگر 126 دنوں تک دھرنا دے کر اسلام آباد کو جام کیا جاسکتا ہے، پارلیمنٹ اور وفاقی حکومت کو کام کرنے سے روکا جاسکتا ہے، چین کے وزیراعظم کا دورہ پاکستان منسوخ کرایا جاسکتا ہے تو پھر آپ سوچ سکتے ہیں کہ قومی اسمبلی، سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں کے الیکشن کوہی مشکوک، دھاندلی زدہ اور ناقابل قبول قرار دے کر کیا کچھ نہیں کیا جاسکتا۔

ہمیں اچھی طرح یاد ہے جب جنرل ضیاء الحق نے وزیراعظم محمد خان جونیجو کی آئینی حکومت کو اچانک معزول کر دیا تھا تو سپریم کورٹ نے فیصلہ کرتے ہوئے، اس مسئلہ کو سامنے رکھا تھا اور اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ جونیجو صاحب کی حکومت غیرآئینی طور پر تحلیل کی گئی ہے لیکن چونکہ اب ملک میں عام انتخابات کے ہونے جا رہے ہیں، اس لیے ہم وہ پرانی اسمبلی بحال نہیں کرسکتے ہیں۔

عدلیہ نے فیصلہ کرتے ہوئے یہ نہیں دیکھا کہ ملک کا آئین اور دستور کیا کہتا ہے۔ حالات اور زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے اس نے ایسا فیصلہ سنا دیا جسے سب نے قبول بھی کر لیا۔ اب بھی ایسا ہی فیصلہ دیا جاتاکہ چونکہ عام انتخابات عنقریب ہونے والے ہیں تو بہتر ہے کہ کچھ انتظار کر لیا جائے۔

سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف پٹیشن سنتے ہوئے اس اہم پہلو کو ضرور مد نظر رکھے اور ملک کے موجودہ مالی اور اقتصادی بحران کو بھی سامنے رکھے کہ قوم بار بار الیکشنوں میں اربوں روپے ضایع نہیں کر سکتی ہے۔ ایسے الیکشن جن سے مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید گھمبیر ہوجائے۔

سوال یہ بھی ہے کہ دو صوبائی اسمبلیاں توڑی ہی کیوں گئیں؟ پنجاب اور کے پی اسمبلیوں کی آئینی مدت پوری نہیں ہوئی تھی، کے پی حکومت کو تو کوئی خطرہ بھی نہیں تھا، پنجاب میں بھی کوئی خطرہ نہیں تھا، اگر مقصد قومی انتخابات کے لیے راہ ہموار کرنا تھا تو پھر بہتر یہی تھا کہ تمام فریق کو عام انتخابات کے لیے مجبور کیا جاتا اور کوئی ایسا درمیانہ راستہ چنا جاتا جن پر سارے فریق راضی اور رضا مند ہوتے۔

موجودہ صورتحال میں الیکشن کرانے سے پی ٹی آئی کی مخالف جماعتیں جیت جاتی ہیں تو کیا خان صاحب نتائج تسلیم کرلیں گے۔ ہرگز نہیں۔ یہ بات کوئی ازراہ تفنن نہیں کی جارہی ہے بلکہ خان صاحب کی سیاست اور اُن کے احتجاجی مزاج کو دیکھتے ہوئے کی جا رہی ہے۔

خان صاحب کئی بار کہہ چکے ہیں کہ انھوں نے ہار تسلیم کرنا سیکھا ہی نہیں ہے۔ 2014 ء میں تو وہ اتنے مقبول بھی نہیں تھے، جتنے کہ آج ہیں لیکن انھوں نے جو ادھم مچا رکھا تھا وہ ہم سب کو آج بھی یاد ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔