معاشرہ اور عدم برداشت

ضیا الرحمٰن ضیا  ہفتہ 19 اگست 2023
عدم برداشت کی خامی گھروں سے ایوانوں تک ہر جگہ پھیل چکی ہے۔ (فوٹو: فائل)

عدم برداشت کی خامی گھروں سے ایوانوں تک ہر جگہ پھیل چکی ہے۔ (فوٹو: فائل)

ہمارے معاشرے میں عدم برداشت خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے۔ گھروں سے لے کر اقتدار کے ایوانوں تک رواداری کا شدید بحران پایا جاتا ہے۔ گھروں میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے سے لڑنا جھگڑنا معمول بن چکا ہے۔ معمولی باتوں پر خاندان ایک دوسرے سے جدا ہوجاتے ہیں اور برسوں ایک دوسرے کی صورت دیکھنا پسند نہیں کرتے۔

اسی طرح اگر ٹریفک کے حالات دیکھیں وہاں بھی عدم برداشت بہت زیادہ ہے۔ جہاں ذرا سی بریک لگانے پر بھی لوگ اچھا خاصا تنازع کھڑا کر دیتے ہیں۔ کسی مزاحیہ اداکار نے کہا تھا کہ ’پاکستان میں دو گاڑیوں سے بھی ٹریفک جام ہوجاتی ہے، کسی گلی میں دونوں آمنے سامنے آجائیں تو دونوں ایک دوسرے کی ضد میں کھڑے ہوجاتے ہیں اور ہر ایک دوسرے سے گاڑی ہٹانے کا مطالبہ کرتا رہتا ہے، یوں ٹریفک جام ہوجاتی ہے‘۔ پھر اگر کسی کی گاڑی دوسرے کی گاڑی سے ذرا سی ٹکرا جائے تو تب جو لڑائی ہوتی ہے وہ قابل دید ہوتی ہے۔ ہر ایک دوسرے پر سارا الزام لگا کر خود بری الذمہ ہونے کی کوشش کرتا ہے، یوں جھگڑا طول پکڑ جاتا ہے۔ کسی تنگ جگہ میں گاڑی یا موٹر سائیکل داخل کرنا ہو تو وہاں جس طرح ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کی جاتی ہے وہ بھی خاص طور پر دیدنی ہوتی ہے۔

ہماری سیاست میں جو عدم برداشت ہے اس کی تو مثال نہیں ملتی۔ سیاستدانوں نے سیاست میں عدم برداشت کے کلچر کو اس قدر فروغ دیا ہے کہ لوگوں نے سیاست دانوں کی باتوں میں آکر ایک دوسرے سے گفتگو تک ترک کردی ہے۔ سیاسی اختلافات کو لوگ گھروں تک لے آئے ہیں، جس کی وجہ سے رشتوں میں دراڑیں پڑ گئی ہیں۔

سوشل میڈیا کو سیاسی کارکنوں نے سیاسی اکھاڑا بنا رکھا ہے جس نے معاشرے میں خانہ جنگی کی سی کیفیت پیدا کر رکھی ہے۔ سوشل میڈیا کی کوئی بھی ویب سائٹ دیکھ لیجئے وہاں سیاسی جھگڑوں کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ سیاسی کارکن ایک دوسرے کو گالیں دیتے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف نہایت غلیظ زبان استعمال کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے علاوہ بھی کسی محفل یا مجلس میں بیٹھے ہوں تو وہاں بھی سیاسی گفتگو چھیڑ لیتے ہیں۔ معلومات تو کسی کے پاس ہوتی نہیں، بس جو کچھ ادھر ادھر سے سنا صرف اس کی بنیاد پر آپس میں جھگڑتے رہتے ہیں۔ پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ خود تو دوسروں کے رہنماؤں کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں لیکن جب کوئی دوسرا ان کے لیڈرز کے بارے میں کچھ کہہ دے تو یہ لڑ پڑتے ہیں، ان سے اپنے لیڈروں کی گستاخی برداشت نہیں ہوتی خود چاہے دوسروں کو کچھ بھی کہتے رہیں۔

اسمبلیوں میں سیاستدانوں نے عدم برداشت کو بہت زیادہ فروغ دیا ہے۔ وہاں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے بس ایک دوسرے کی مخالفت کا ہی حلف لیا ہوا ہے۔ ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا، دوسروں پر تنقید کرنا ان کا وتیرہ بن چکا ہے۔ مخالفین کو اسمبلیوں میں دیکھنا تک گوارا نہیں کرتے، ایک دوسرے سے بات کرنا اور ہاتھ ملانا تو بہت دور کی بات ہے۔ مخالفین پر حملے کرانا اور تنقید کرنے والوں پر تشدد کرنے کی بھی ہمارے معاشرے میں ایک روایت موجود ہے جو عدم برداشت کی بدترین مثال ہے۔ پھر یہی عدم برداشت کا کلچر معاشرے میں سرائیت کرتا جارہا ہے، جس نے نوجوانوں پر نہایت منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔

معاشرے میں امن و امان اور پرسکون زندگی کےلیے صبر و تحمل اور رواداری کے کلچر کو فروغ دینا ہوگا۔ اس کےلیے سیاستدانوں کی طرف دیکھنے کے بجائے معاشرے کے اہم طبقات کو خود ہی آگے بڑھنا ہوگا، جن میں علما اور اساتذہ سب سے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ علمائے کرام منبر سے عوام کو اچھے اخلاق اور صبر و تحمل کا درس دیں اور اساتذہ کرام طلبا کو اخلاقیات کا درس دیں اور انہیں یہ باور کرائیں کہ معاشرہ کسی بھی طرح کے فتنے اور فسادات کا متحمل نہیں ہوسکتا، لہٰذا کسی بھی سیاسی لیڈر کی باتوں میں آکر آپس کے تعلقات خراب مت کریں۔ اس میں یہ خیال رکھا جائے کہ اساتذہ اور علمائے کرام کسی ایک سیاسی رہنما کا نام نہ لیں بلکہ سب کا برابری کی سطح پر تذکرہ کریں۔ اسی طرح معاشرے کے پڑھے لکھے نوجوان خود بھی تھوڑا سا سوچیں اور سیاسی رہنماؤں کی باتوں میں آنے کے بجائے خود ہی ہر چیز کا بغور جائزہ لے کر حقائق کے مطابق چلیں اور کسی بھی سیاسی رہنما کی اس حد تک تقلید مت کریں کہ اس کی ہر غلط بات بھی درست معلوم ہونے لگے۔ یوں معاشرے میں پائی جانے والی بے چینی اور عدم برداشت کا خود خاتمہ کر سکتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔