مغرب کی رگ جاں پنجۂ یہود میں ہے

رئیس فاطمہ  بدھ 16 اپريل 2014
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

امریکا کے شہرہ آفاق صنعت کار اور مصنف ہنری فورڈ نے ایک امریکی اخبار میں مضامین تحریر کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا جو یہودیوں کے یکسر خلاف تھے۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ کاروں کے اس صنعت کارکا یہ کہنا اور ماننا تھا کہ امریکی حکومت کو کسی بھی ریاست میں یہودیوں کے داخلے پر پابندی عاید کر دینی چاہیے کیونکہ ہنری فورڈ کا دعویٰ تھا کہ وہ یہودیوں کی نفسیات، عالمی عزائم اور اپنے مقاصد کے حصول کی کوششوں سے بخوبی آگاہ ہے۔ اسی لیے اس نے یہودیوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی عاید کرنے کی پرزور سفارش کی تھی۔ ہنری فورڈ نے 1920 میں اخبار کے لیے لکھے گئے ان مضامین کو کتابی شکل میں شایع کردیا تھا۔ اس کتاب کا عنوان تھا “The International Jew”یہودیوں نے اس کتاب کا پہلا ایڈیشن خرید کر نذر آتش کردیا تھا۔ بعدازاں اس کتاب پر بھی پابندی عاید کردی گئی تھی۔

تاہم المیہ یہ ہے کہ کسی بھی آنے والی امریکی حکومت نے ہنری فورڈ کے خدشات اور شکوک پرکان دھرنے کی زحمت گوارا نہیں کی اور یہی سبب ہے کہ آج دانش ور افراد امریکا کو ایک ’’عیسائی ریاست‘‘ کا درجہ دینے کے بجائے اسے ’’یہودی ریاست‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ آج امریکا کی تمام بڑی اور اہم تجارتی کمپنیوں پر یہودیوں کا قبضہ ہے۔ پوری امریکی معیشت یہودیوں کے ہاتھ میں ہے جو امریکا کے عام انتخابات کے دوران اپنا اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں۔ کسی امریکی صدارتی امیدوار اور اس کے جماعتی ساتھیوں کی یہ مجال نہیں کہ وہ یہودیوں کی مخالفت میں لفظ تو کجا ایک حرف ہی کہہ سکے۔آج شاعر مشرق علامہ اقبال کے بقول مغرب کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے واضح رہے کہ اقبال اپنی وفات اپریل 1938 سے پہلے ہی اس نتیجے تک پہنچ چکے تھے۔ ’’دی انٹرنیشنل جیو‘‘ ایک قابل مطالعہ کتاب ہے جس میں یہودیوں کی اجتماعی اور قومی نفسیات، خواہشات اور آیندہ سیاسی عزائم کی بھرپور تصویر کشی کی گئی ہے۔

امریکی حکومت ہو یا یورپ کی کوئی حکومت۔ کینیڈا ہو یا آسٹریلیا کسی نے بھی اس بات کو سننے کی زحمت تک گوارا نہیں کی جو ایک عیسائی ہنری فورڈ ان سے کہنا چاہتا تھا۔ ان سب براعظموں اور ممالک نے یہودیوں کے لیے اپنے در دل وا کردیے ہیں ۔ایک جانب امریکا اور دوسرے یورپی ممالک ہیں جنھوں نے ایک معزز عیسائی کی جانب سے ظاہر کیے جانے والے خدشات کو یکسر نظرانداز کردیا اور یہودیوں کی فوج ظفر موج ان ممالک میں آباد ہوتی چلی گئی۔دوسری جانب ہمارے نام نہاد برادر اسلامی ممالک ہیں جو ہم مسلمانوں کو نہ تو قومیت دیتے ہیں اور نہ ہی جائیداد خریدنے کی اجازت۔ تقریباً تمام ہی اسلامی ممالک فی الوقت امریکی کیمپ میں شامل ہیں اور وہی کرتے ہیں جو امریکا کی خواہشات اور عزائم کے عین مطابق ہوتا ہے۔ بہت کم لوگ اس حقیقت سے آگاہ ہوں گے کہ 1948 میں سابق امریکی صدر فرینکلن روز ویلٹ، سعودی عرب گئے تھے اور وہاں کی شاہی حکومت سے ایک معاہدہ کیا تھا جس کی رو سے سعودی عرب امریکا کو ہمیشہ تیل کی فراہمی جاری رکھے گا جس کے جواب میں امریکا کی کوئی بھی حکومت سعودی عرب کے ’’بادشاہی نظام‘‘ میں کبھی مداخلت نہیں کرے گی۔

قارئین بخوبی جانتے ہیں کہ امریکی صنعتوں کو رواں دواں رکھنے کی غرض سے امریکا کو تیل کی اشد ضرورت رہتی ہے۔ اس کی ایک اور مثال بھی سامنے رکھیے کہ جب روسی افواج، افغانستان میں داخل ہوئیں تو امریکا نے فوراً اپنے ردعمل کا اظہار کردیا اور آخر کار روسی افواج کو افغانستان سے نکال باہر کرکے ہی دم لیا کیونکہ اسے یہ خدشہ لاحق تھا کہ افغانستان پر، روسی فوج کشی کا مطلب ہے بلوچستان تک پہنچ کر آبنائے ہرمز سے تیل بردار جہازوں کی ناکہ بندی کرنا تاکہ یہ تیل امریکا تک نہ پہنچ سکے۔ اس خدشے کی بنا پر امریکا اور اس کے حواری ممالک نے ایک عشرے تک پاکستان کے ذریعے افغانستان میں پراکسی جنگ لڑی اور بالآخر روسی افواج کو افغانستان سے بے نیل و مرام جانا پڑا۔ امریکا کے پیٹ میں جمہوریت کے قیام کی خاطر مروڑ اٹھتے ہی رہتے ہیں لیکن وہ کبھی بھول کر بھی سعودی عرب کے شہنشاہی اور بادشاہی نظام کی مخالفت نہیں کرتا تو اس کا سبب بھی وہی ہے یعنی تیل کی مسلسل فراہمی تاکہ امریکا کی صنعتوں کا پہیہ یوں ہی چلتا رہے۔

گزشتہ دنوں میں جرمنی کے نازی ڈکٹیٹر ایڈولف ہٹلر کی سوانح عمری ’’میری جدوجہد‘‘ پڑھ رہی تھی جس کے ہر صفحے پر یہودیوں سے دلی نفرت اور تعصب کا اظہار کیا گیا ہے صرف اور محض اس لیے کہ جرمنی کی معیشت پر اس وقت بھی یہودی قابض تھے اور یہ بات جرمنی کے نازی ڈکٹیٹر کو پسند نہ تھی۔اس نے اقتدار میں آکر ان یہودیوں کو گیس چیمبرز میں بٹھا کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ برسوں پہلے کراچی کے پیلس سینما میں ہالی ووڈ کی فلم “Judgement at Nuremberg” دیکھی تھی جس میں ایک دستاویزی فلم کے ذریعے بے شمار یہودیوں کو ننگ دھڑنگ قطار میں کھڑے ہوئے گیس چیمبرز میں جانے کا منتظر دکھایا گیا تھا۔ بہت سے لوگ اس فلم یعنی ’’ججمنٹ ایٹ نیورمبرگ‘‘ کو امریکی پراپیگنڈہ کہہ کر مسترد کردیتے ہیں لیکن اس دستاویزی فلم کا کیا، جس میں بے شمار ننگ دھڑنگ یہودیوں کی قطاریں دکھائی گئی ہیں یادش بخیر ! کبھی کراچی میں بھی یہودیوں کا فری میسن لاج ہوا کرتا تھا۔ اردو میں اپنی طرز کے ایک موجد اور خاتم ممتاز شاعر  بھی اسی فری میسن لاج سے وابستہ تھے۔

میں یہودیوں کے قومی اور اجتماعی سیاسی عزائم کے بارے میں کوئی بات کرنا نہیں چاہتی۔ ان کے عالمی عزائم کیا ہیں؟ ان کا مقصود اور منشا کیا ہے؟ ان سب سے قطعاً کوئی دلچسپی نہیں ہے لیکن ایک بات ذہن میں رکھنے کی ضرور ہے اور وہ یہ کہ قرآن مجید کی بیشتر آیات ’’بنی اسرائیل‘‘ یعنی یہودیوں کو مخاطب کرنے سے متعلق ہیں۔ انھیں ’’اللہ تعالیٰ کی گم شدہ بھیڑیں‘‘ بھی کہا گیا ہے۔ دراصل ہنری فورڈ کو جس بات کا خدشہ تھا وہ یہ تھا کہ اس قوم میں اتحاد، یگانگت اور یک جہتی کے جذبات کوٹ کوٹ کر بھرے ہیں۔ یہ لوگ کردار کی اعلیٰ ترین سطح پر زندگی گزارتے ہیں ان میں خود اعتمادی اور مستقبل پر بھروسے کی خصوصیات موجود ہیں۔ اپنی کتاب میں ہنری فورڈ نے یہودیوں کی ان ہی خصوصیات پر توجہ مرکوز کی ہے۔ پاکستانی قوم کے افراد، اس کے برعکس اخلاقی پستی کے جس تحت الثریٰ میں گرے ہوئے ہیں اس کا اندازہ روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ کے 10 اپریل 2014 کے ایک شمارے میں شایع شدہ اس مراسلے کو پڑھ کر بخوبی ہوجاتا ہے۔

مراسلہ نگار لکھتے ہیں ’’مکرمی! وہ لمحہ کبھی نہ بھول پاؤں گا، پاپوش نگر کے قبرستان میں گھپ اندھیرے، لحد میں موت کی آغوش میں میٹھی نیند لیے، بے حس و حرکت جسم والی دوشیزہ کی میت سے، قبر میں اتر کر، اسی قبرستان کے گورکنوں نے وحشیانہ بدسلوکی کی۔‘‘ صرف اسی ایک واقعے پر منحصر نہیں اخلاقی پستی اور زبوں حالی کا یہ احوال۔ مزار قائد کی جس طرح پامالی اور بے حرمتی کی جا رہی ہے اس سے تمام قارئین بخوبی واقف ہیں۔ اس کے علاوہ حج اسکینڈل، مضاربہ اسکینڈل، صفورہ گوٹھ میں ایک ہفتے تک بینک کا قیام اور پیسے لے کر چمپت ہونے والا واقعہ۔ گلستان جوہر کے ایک بینک کے اے ٹی ایم کو گاڑی کے ذریعے کھینچ کر باہر نکالنے کا واقعہ، نیپا چورنگی پر بھی ایک بینک کے اے ٹی ایم کو باہر نکال دینے کی کوشش۔ بھتہ مافیا، منشیات مافیا، لینڈ مافیا، اغوا برائے تاوان اور ایسی بیشتر کوششیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہم بطور قوم اخلاقی پستیوں کی تنزلی اور تحت الثریٰ میں پہنچ چکے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔