ایران سعودی عرب تعلقات کی بحالی... عالم اسلام کیلئے مژدہ جانفزا

محمد فیصل سلہریا  پير 27 مارچ 2023
1980ء میں عراق کی ایران پر چڑھائی کے وقت سعودیہ نے عراق کو 25 ارب ڈالر کی امداد دینے کا وعدہ کیا  ۔ فوٹو : فائل

1980ء میں عراق کی ایران پر چڑھائی کے وقت سعودیہ نے عراق کو 25 ارب ڈالر کی امداد دینے کا وعدہ کیا ۔ فوٹو : فائل

اکتوبر 2022ء میں چین کی حکمران کیمونسٹ پارٹی کی 20 ویں قومی کانگریس میں جب شی جن پنگ کی بطور صدر تیسری مدت کی منظوری دی گئی تو اس وقت انہیں دنیا بھر میں جدید چین کے معمار چیئرمین ماؤزے تنگ کے بعد دوسرے بڑے طاقتور رہنما کے طور پر دیکھا گیا۔

جن سیاسی نظریات کی بنا پر چینی صدر نے یہ اثر و رسوخ حاصل کیا ،ان میں چین کے عالمی کردار کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، چین کی ثالثی میں ایران سعودیہ سفارتی تعلقات کی بحالی ان نظریات کو عملی جامہ پہنانے کی شروعات ہے۔

کرہ ارض پر مایوسیوں کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بسنے والے مسلمانوں کیلئے یہ کسی مژدہ جانفزا سے کم نہیں ،گو چین کا یہ اقدام اتحاد بین المسلمین کے جذبے کے زیراثر نہیں بلکہ اس کا محرک خطے میں امریکی اجارہ داری کا خاتمہ اور معاشی غلبہ ہے۔

تاہم پاکستان سمیت عالم اسلام پر بلاشبہ اس کے مثبت اثرات مرتب ہونگے، یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کے علاوہ تمام ممالک نے چین کی ثالثی میں طے پانے والے تاریخی معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے ۔

ایرانی اعلیٰ قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹری علی شمخانی 6 مارچ کو سعودی وفد کے ساتھ بات چیت شروع کرنے کیلیے بیجنگ پہنچے، جہاں ان کی سعودی ہم منصب کے ساتھ کئی دنوں تک جاری رہنے والے گفت و شنید کے بعد جمعہ 10 مارچ کو ایک معاہدہ طے پایا جس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بحال کرنا ہے۔

اس دوران اسلامی جمہوریہ ایران، سعودی عرب اور چین کی جانب سے جمعہ کو ایک سرکاری تقریب میں مشترکہ بیان جاری کیا گیا، جس کے مطابق ایران اور سعودی عرب نے دو ماہ کے اندر سفارتی تعلقات بحال کرنے اور دونوں ممالک میں سفارت خانے اور ایجنسیاں دوبارہ کھولنے پر اتفاق کیا ہے۔

دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ اس فیصلے پر عملدرآمد اور سفیروں کے تبادلے کے لیے ضروری انتظامات کرنے کے لیے بات چیت کریں گے۔ دونوں ممالک نے خودمختاری کے احترام اور ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت ، 17 اپریل 2001 کو طے پانے والے سکیورٹی تعاون کے معاہدے اور 27 مئی 1998 کے معاہدے پر بھی اتفاق کیا۔

جس کا مقصد اقتصادی، تجارتی، سرمایہ کاری، تکنیکی، سائنسی، ثقافتی، کھیلوں اور امور نوجوانان میں تعلقات کو فروغ دینا تھا ۔ چین،ایران اور سعودی عرب نے علاقائی اور بین الاقوامی امن و سلامتی کے استحکام کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔

2016 میں سعودی عرب میں ایک ممتاز ایرانی عالم کو پھانسی دیے جانے کے بعد تہران میں سعودی سفارت خانے پر کچھ مشتعل ایرانی شہریوں نے دھاوا بول دیا، اس واقعہ کے بعد سعودی عرب نے ایران کے ساتھ تعلقات منقطع کر لیے تھے ۔

ایران اور سعودی عرب کے درمیان طے پانے والے معاہدے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان دونوں اسلامی ممالک کے درمیان اختلافات کو ہوا دینے میں غیر ملکی مداخلت کارگر ہے، یہ معاہدہ سیاسی ترقی اور دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون اور خطے کے تمام ممالک کے فائدے کا آغاز ہے، ایرانی سیاسی قیادت کے مطابق ایران کی پالیسی یہ ہے کہ خطے اور خلیج فارس میں غیر ملکی مداخلت کے بغیر استحکام اور سلامتی کو برقرار رکھا جائے اور مذکورہ معاہدہ نے ظاہر کیا ہے کہ خطے میں تصادم کی اصل وجہ یہی قوتیں ہیں۔

دو اہم اور ہمسایہ ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی سے یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے درمیان سیاسی اور اقتصادی تعاون کی ترقی کا آغاز ہو گا، کیونکہ یہ دونوں ملکوں اور خطے کے تمام ممالک کے مفاد میں ہے، اس تعاون کی ترقی کی پیشگی شرط اچھی ہمسائیگی کی پابندی اور باہمی اعتماد پیدا کرنا ہے، امید ہے سعودی عرب اسلام دشمن ناجائز صیہونی ریاست کے حوالے سے احتیاط سے کام لے گا۔

ایران اور سعودی عرب نے چین، عمان اور عراق سمیت ان مذاکرات میں مثبت کردار ادا کرنے والے ممالک کا شکریہ ادا کیا، اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مشن نے کہا کہ سعودی عرب اور اسلامی جمہوریہ ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی سے یمن میں جنگ بندی میں تیزی آسکتی ہے، دونوں ممالک کے درمیان سیاسی تعلقات کی بحالی مغربی ایشیا اور عالم اسلام سمیت تینوں سطح پر مثبت ہو گی ۔

سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی سے جنگ بندی میں تیزی آئے گی ، قومی مذاکرات شروع کرنے میں مدد ملے گی اور یمن میں ایک جامع قومی حکومت کی تشکیل ہو گی۔

ایران کی وزارت خارجہ نے ہفتہ کو سعودی عرب کے ساتھ سات سال بعد تعلقات کی بحالی پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام ایرانی قوم کے ساتھ ساتھ خطے کے دوست ممالک کے مفادات کے تحفظ کے لیے اسلامی جمہوریہ ایران کے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔

پاکستان کے سیاسی مبصرین نے ایران اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات کی بحالی کو مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات کیلئے بڑا دھچکا قرار دیا ہے، ان کے مطابق یہ معاہدہ چین میں ہونا اس بات کا اظہار ہے کہ خطے میں طاقت کا توازن کس طرف ہے۔

اقوام متحدہ میں پاکستان کی سابق سفیر ملیحہ لودھی نے بھی ایران سعودیہ معاہدے کو امریکہ کے ساتھ ساتھ اسرائیل کیلئے بھی دھچکا قرار دیا ہے، ایران کو تنہا کرنے کی امریکی کوششیں ناکام ہوگئی ہیں، سیاسی ماہرین نے چین کو خطے کی اہم طاقت اور امن و استحکام کی علامت قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ سعودی حکومت کی اس پالیسی کا اظہار ہے کہ اب ایران اور سعودی عرب اتحادی کے طور پر آگے بڑھیں گے ۔

سعودیہ خطے میں مغربی ممالک کا ایک اہم اتحادی ہے ۔ خلیج فارس کے ممالک میں ایک اہم ملک ہونے کی وجہ سے سعودیہ خطے کے دیگر ممالک کی خارجہ اور داخلہ پالیسیوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ سعودیہ سے تعلقات کی تعطلی کے بعد ایران کے خلیجی ممالک سے روابط زیادہ دوستانہ نہ رہے ۔ خلیجی ممالک کے ایران سے روابط میں تناو ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد سے جاری ہے، عرب دنیا کی لاکھ کوشش کے باوجود ایران نے لبنان، فلسطین، یمن، مصر اور دیگر عرب و افریقی ممالک میں جڑیں پیدا کیں ۔

ایران اور عرب دنیا کے مابین امریکہ و مغرب دوستی بھی ایک اہم وجہ نزاع رہی، ایران چونکہ اپنے مغرب و امریکہ مخالف بیانیہ کی وجہ سے دنیا میں معروف ہے ، لہذا مغرب کے اہم عرب اتحادیوں نے ایران کے ساتھ خدا واسطے کا بیر بنا لیا ۔

مغرب نے بھی اس دشمنی کو استعمال کرتے ہوئے خوب فائدہ اٹھایا ، دفاع اور سکیورٹی کے نام پر عرب دنیا کو اربوں ڈالر کا اسلحہ اور جنگی ساز و سامان فروخت کیا، عرب دنیا کے وسائل سے خوب استفادہ کیا ۔ منہ پھٹ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عرب دنیا کو دودھ دینے والی گائے قرار دے کر اپنے ان ممالک سے روابط کی قلعی خود ہی کھول دی تھی ۔

1980ء میں عراق کی ایران پر چڑھائی کے وقت سعودیہ نے عراق کو 25 ارب ڈالر کی امداد دینے کا وعدہ کیا ، باوجود اس کے کہ عراق اور سعودیہ کے روابط اتنے مضبوط نہ تھے، سعودی عرب نے اس جنگ میں خلیجی ریاستوں کویت، قطر، عرب امارات اور بحرین کو بھی عراق کی مالی امداد کرنے پر اکسایا ، 1987ء میں حج کے موقع پر ایرانی حجاج پر سعودی فورسز کی اندھا دھند فائرنگ اور تشدد کا اندوہناک واقعہ دونوں ممالک کے روابط میں مزید تناو کا باعث بنا ۔

1990ء میں کویت پر عراق کے حملے کی ایران نے مخالفت کی، حتی کہ عراق کے خلاف اقوام متحدہ میں ووٹ بھی دیا ، جس کے سبب عرب دنیا سے ایران کے روابط میں بہتری آنا شروع ہوئی ، تاہم یہ روابط ہمیشہ کی طرح کبھی بھی گرمجوشی پر مبنی نہ رہے۔

یمن کا مسئلہ بھی ایران اور خلیجی ممالک کے روابط میں بہتری لانے میں ایک اہم رکاوٹ رہا ۔ سعودیہ اور دیگر خلیجی ریاستوں کا ہمیشہ دعویٰ رہا کہ ایران یمن کے حوثیوں کی عسکری اور دیگر میدانوں میں مدد کر رہا ہے۔

یہ بات سب کے علم میں ہو گی کہ عراق حکومت ایک عرصے سے ایران اور سعودیہ کے مابین تعلقات کی بحالی کے لیے سرگرم عمل تھی، اس سلسلے میں عراق میں متعدد سفارتی سطح کی بیٹھکیں ہوئیں، تاہم کوئی اعلیٰ سطح ملاقات ہوئی نہ مذاکرات کے حوالے سے تاحال خاطر خواہ پیش رفت سامنے آئی تھی، کہا جاتا ہے کہ ایرانی کمانڈر قاسم سلیمانی اسی منصوبے پر کام کر رہے تھے ۔

ایران نے خلیج کے بعض ممالک کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ روابط کی بحالی کو عالم اسلام سے غداری گردانا، سعودی عرب وہ واحد اسلامی ملک تھا جو پانچ بڑی طاقتوں اور ایران کے مابین ہونے والے ایٹمی معاہدے کا مخالف تھا اور اس نے اس حوالے سے کھل کر اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا۔ ایسے میں اچانک چین سے ایک ویڈیو جاری ہوئی، جس میں دکھایا گیا کہ ایران اور سعودیہ نے روابط کی بحالی پر اتفاق کر لیا ہے۔

اس تقریب میں ایران کی نمائندگی علی شامخانی، سعودیہ کی نمائندگی قومی سکیورٹی کے مشیر مسعود بن محمد الایبان اور چین کے سینیئر ترین سفارتکار وانگ یی موجود تھے۔

وانگ یی نے تقریب میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کی دانشمندی لائق تحسین ہے اور چین اس معاہدے کا مکمل حامی ہے۔ انھوں نے کہا کہ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے اقتدار اعلیٰ کے احترام اور داخلی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ اسی طرح دونوں ممالک نے 2001ء میں دستخط کردہ سکیورٹی کے معاملات میں تعاون کے معاہدے کے احیا پر اتفاق کیا ۔

ایران کے روحانی پیشوا سید علی خامنہ ای کے سکیورٹی ایڈوائزر ایڈمیرل علی شمخانی نے بتایا کہ یہ مذاکرات صاف، شفاف، تفصیلی اور تعمیری تھے، ایران اور سعودیہ کے مابین غلط فہمیوں کا خاتمہ نیز مستقبل کو مدنظر رکھ کر روابط کا فروغ خطے میں استحکام اور سالمیت لائے گا، اس سے خلیجی ممالک اور مسلم دنیا کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے میں آسانی ہوگی۔

یہ تو وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ چین سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کی بحالی کیلے کب سے کوشش کر رہا تھا، چین کا عموماً یہی وطیرہ رہا ہے کہ وہ اپنے منصوبوں کو ہمیشہ خفیہ رکھتا ہے، حال ہی میں ایرانی صدر کے دورہ چین کے حوالے سے بھی تفصیلات کو سامنے نہیں لایا گیا، اجمالی طور پر بتایا گیا کہ اس دورے سے چین اور ایران کے پچیس سالہ تعاون کے معاہدے کو تقویت ملے گی۔

وائٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کے ترجمان نے کہا کہ واشنگٹن کو معاہدے کی اطلاعات پر تشویش ہے، لیکن وہ یمن میں جنگ کے خاتمے اور مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کو کم کرنے کے لیے کسی بھی کوشش کا خیر مقدم کرتا ہے، یہ تو واضح ہے کہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کا مفاد خطے میں بے امنی اور خلفشار سے وابستہ ہے، وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ خلیج میں امن ہو اور اسلامی دنیا کے دو اہم ممالک ایک دوسرے کے قریب آئیں، اس کے برعکس چین کو خطے میں اپنا مفاد آگے بڑھانے کے لیے استحکام اور امن درکار ہے۔

اس سلسلے میں چین کی کاوش کامیاب ہوئی ہے، تاہم دیکھنا یہ ہے کہ عالمی معرکے میں مغرب کہاں تک اس کاوش کو کامیاب رہنے دیتا ہے۔

جہاں اختلاف کی بنیادیں بہت گہری ہوں، وہاں مشترکات پر لانا نہایت مشکل ہوتا ہے، اس کے لیے ہر فریق کو کچھ نہ کچھ قربانی دینی پڑتی ہے، تاہم اس عنوان سے ترجیحات کا طے کرنا بھی انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ اگر خطے کے استحکام، امن و امان کو ترجیح سمجھا جائے تو یہ برا فیصلہ نہیں ہے، اس کے یقیناً مثبت اور دور رس اثرات مرتب ہوں گے، یمن کا دیرینہ مسئلہ حل ہوگا، عالم اسلام کے اہم ممالک کے مایبن تجارت و روابط کو فروغ ملے گا اور اتحاد بین المسلمین کی فضا قائم ہو گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔