سارے رنگ

رضوان طاہر مبین  پير 27 مارچ 2023
فوٹو :فائل

فوٹو :فائل

ہمارے پرانے محلّے کا ایک معصوم کردار

خانہ پُری

ر ۔ ط ۔ م

ہمیں آج بھی یاد ہے کہ ہم نے انھیں پہلی بار اپنی پچھلی گلی کے نکڑ پر واقع ’چھوٹی مسجد‘ میں دیکھا تھا، نئے رنگ و روغن، ستھری در ودیوار اور آنکھوں کو خیرہ کرتے ہوئے ہیروں اور قیمتی جواہرات جیسے شفاف موتیوں سے مرصع دیو ہیکل فانوس کے ساتھ چَم چَم کرتی ہوئی نوتعمیر شدہ ’چھوٹی مسجد‘ کی پہلی منزل پر وہ نماز میں دوزانو ہونے کے بہ جائے داہنی ٹانگ کھڑی کر کے بیٹھے ہوئے تھے اور اس پر داہنہ ہاتھ رکھے ہوئے تھے۔

ان کا یہ مختلف طریقہ ہی شاید ان پر توجہ مرکوز ہونے کی وجہ بنا تھا۔۔۔ نگاہیں چار ہوں، تو اس پر معصومانہ مسکراہٹ، گندمی رنگت اور چہرے پر چگی داڑھی۔۔۔

یہ ہمارے بہت بچپن کی یادیں ہیں، یہ تو ہمیں بعد میں خبر ہوئی کہ یہ ہمارے محلے کے ’بھائی گُلو‘ ہیں۔ جنھیں لڑکے بالے ’بھائی‘ کے سابقے کے ساتھ اور بڑی عمر کے آدمی بغیر کسی تکلف کے ’گلّو‘ کہہ کر بلاتے ہیں۔

اصلی نام محمد احمد تو ہمیں اب بھی مشکل سے یاد آیا، جو کبھی کسی نے پوچھا بھی تھا کہ آپ کا اصلی نام کیا ہے۔ اب محمد احمد کو کون جانتا، لیکن اگر ’بھائی گلو‘ کہو تو عالَم یہ ہے کہ ہمارے اَگلے محلے میں بھی کچھ نہ کچھ لوگ پہچان ہی جائیں گے۔

’بھائی گلو‘ ذہنی طور پر تھوڑے سے کم زور تھے، اس لیے ان کی زندگی میں بس ہلکی پھلکی سی مصروفیات ہی رہتی تھیں، وہ باقاعدہ کوئی کام کاج کرنے کی سکت نہیں رکھتے تھے۔۔۔ اُن کا ایک چھوٹا بھائی ذہنی طور پر کچھ زیادہ متاثر تھا۔

ہماری کالونی کی اگلی گلیوں سے نکل کر کبھی وہ ہمارے گھروں کی طرف بھی چلا آتا تھا۔ کبھی اِدھر کسی گھر کے تھلّے پر بیٹھ گیا اور کبھی اُدھر گلی کے کنارے پر زمین ہی پر بیٹھ گیا۔ کبھی کبھی بچے اسے تنگ بھی کرتے تھے، تو وہ اس پر کافی برہم ہوتا، لیکن کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچایا، پھر وہ زیادہ تر محلے کی بارہویں، تیرھویں لائن میں اپنے گھر ہی کے باہر بیٹھا رہتا۔ آنے جانے والوں کے فقرے سُن کر بیٹھے بیٹھے اپنے آپ اُسے دُہراتا رہتا، کبھی اٹّھنی یا چونّی سے کھیلتا اور ’پیسے، پیسے‘ کی آواز لگا کر کے خوش ہوتا۔۔۔ کبھی وہ چُھپن چُپھائی کھیلتے ہوئے بچوں کو دیکھ کر خود ہی ایک، دو، تین کر کے گنتی گنتا اور پوچھتا کہ ’آجاؤں۔۔۔؟‘ مٹی میں اٹے ہوئے کپڑوں کے ساتھ کبھی اٹھ کر گھر سے کچھ دور تک جاتا اور پھر اپنے گھر کے باہر ہی آکر بیٹھ جاتا۔۔۔

’بھائی گلو‘ اپنے چھوٹے بھائی کے مقابلے میں تو خاصی بہتر ذہنی حالت میں تھے، اپنی صفائی ستھرائی کا خیال رکھتے، ہلکی پھلکی سمجھ داری کی گفتگو بھی کرلیتے، لیکن کوئی کام کرنے کی استعداد نہیں تھی، پنج وقتہ نمازی اور رمضان کے روزوں کے بڑے پابند۔ صاف لباس اور وقت سے پہلے نمازوں میں پہنچنے والے۔۔۔ کبھی دوسروں کو نماز کے لیے بلانے کے لیے اپنے مخصوص انداز میں آواز بھی لگاتے ہوئے جاتے ’’بھئی، چلو بھئی۔۔۔ بھئی، ٹائم ہو گیا بھئی۔۔۔!‘‘

بالخصوص فجر کے وقت بزرگوں کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ مسجد کو جاتے ہوئے ’’چلیے نماز کو!‘‘ کی صدائیں لگاتے ہوئے جاتے تھے۔۔۔ ایسے میں ایک الگ سی آواز بھی ہم نے اکثر سنی ’چلیے نماز کو، اٹھ جاؤ بھائی اٹھ جاؤ۔۔۔!‘ جو بعد میں معلوم چلا کہ ایک سانس میں پورا فقرہ تیزی سے کہنے والی یہ آواز ’بھائی گلّو‘ کی ہے۔

وہ بات کرتے ہوئے دھیمے دھیمے سے ہکلاتے، کئی بار لفظ دہرانے پڑتے، کبھی کوئی جملہ بہ مشکل مکمل ہو پاتا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی خاص دل چسپی رمضانوں میں ’ختم القرآن‘ کی محفلیں ہوتیں۔ ہم بچپن سے دیکھتے آرہے ہیں کہ جب بچوں کی ٹولیاں پہلے عشرے کے اختتام سے روزانہ باقاعدہ طور پر ’نمازِ تراویح‘ کے ایسے مقام ’نشان زد‘ کرتے پھرتے تھے، تاکہ وہاں بٹنے والی شیرینی سے محروم نہ رہ جائیں، تو ہم بھی جب کبھی محلے کے کسی کونے کھدرے کے گھر وغیرہ تک میں گئے۔

بھائی گلو وہاں بھی پائے گئے۔ ہم کئی بار حیران ہوئے کہ ایک شخص کی کوئی باقاعدہ سماجی بیٹھک اور ایسا حلقہ نہیں، لیکن اسے ہمیشہ اس موقعے کی خبر ضرور ہو جاتی ہے کہ فلاں جگہ پر فلاں مسجد کی فلاں منزل پر فلانی شب کو ختم ہوگا۔

لڑکے بالے ’بھائی گلّو‘ کے ہر ’ختم‘ پر پہنچنے کی ادا پر انھیں ’مفتا‘ کہہ کر چھیڑتے بھی تھے، ایسے ہی بچپن میں ایک بار ہم نے بھی ان کے سامنے یہی بات کہہ دی تھی، تو انھوں نے ہم سے اپنے مخصوص انداز میں ناپسنددیدگی کا اظہارکیا کہ بدتمیزی نہ کرو! الغرض ہم لڑکوں بالوں کی طرح ’بھائی گلو‘ بھی ’رمضان شریف‘ کا خاص ’اہتمام‘ کرتے، عبادات میں بھی پہلے سے زیادہ وقت دیتے، تمام روزوں کا خیال کرتے، افطار بھی اکثر مسجد میں کرتے، کبھی مسجد کے دسترخوان لگانے میں بھی ہاتھ بٹا لیا کرتے۔۔۔ اسی طرح محلے میں قائم چھوٹے شادی ہالوں میں کبھی کوئی تقریب ہوتی، تو بھائی گلو وہاں بھی موجود ہوتے۔

اس کے ساتھ ساتھ ’بھائی گلّو‘ محلے میں انتقال کر جانے والوں کے جنازوں میں بھی لازماً شرکت کرتے تھے، جنازے کے ساتھ چلنا اور کبھی آگے آگے چلتے ہوئے سامنے سے آنے والی گاڑیوں کو روکنے کے لیے اپنے تئیں ’کردار‘ ادا کرنا، ان کا خاصہ ہوتا تھا۔

پھر وقت گزرا، ہم بھی بچے نہ رہے۔۔۔ ادھر ’بھائی گلّو‘ کی بھی پہلی جیسی جسمانی فعالیت نہ رہی، جسمانی وزن وغیرہ بڑھ گیا۔ والدہ اور بھائی وغیرہ بھی دنیا سے چلے گئے، نہ جانے پھر کیسے گزر بسر رہی۔ اب وہ محلے میں بھی بہت کم کم دکھائی دینے لگے، ایک دو بار انھیں محلے کی ایک بند دکان کے تھلّے پر سوتا ہوا دیکھا، تو بہت افسوس ہوا۔۔۔!

اب کون ان کا خیال کرے، اور کیسے کرے۔۔۔ لوگوں میں وہ پہلے جیسا احساس ہی نہ رہا اور نہ ہی وہ طور طریقے زندہ رہ سکے۔

پھر اب ہمارے سارے محلے کا ’نقشہ‘ بھی تو بدل گیا تھا۔۔۔ پرانے لوگ آسائش اور سہولت دیکھ کر شہر کی مزید اچھی کالونیوں اور سوسائٹیوں میں منتقل ہوتے گئے، اُن کے کھلے کھلے، روشن دانوں اور انگنائی والے گھر سرنگوں ہوئے اور اس پر چڑھ کر عمارتوں نے پہلے پانچ اور چھے اور پھر آٹھ سے دس منزلہ قد نکالنا شروع کر دیا۔۔۔! جہاں محلے کی گلیاں ہوتی تھیں، اور صحیح معنوں میں ’محلے داری‘ روا ہوتی تھی، ڈیوڑھیوں کے کواڑ کھلے رہتے تھے، آپس داریوں میں پاس پڑوس والے پردہ اٹھا کر بے دھڑک ایک دوسرے کے گھر میں چلے جایا کرتے تھے۔

رمضان، عید، بقرعید اور دعوت کے بغیر بھی ہم سایوں کو اپنا ’نمک‘ چکھانا واجب سمجھا جاتا تھا۔۔۔ وقت میں برکت تھی اور ہم بچے شام کے چند لمحوں میں گویا ایک پوری زندگی جی لیا کرتے تھے۔۔۔ اب نہ ہماری وہ عمر رہی، نہ وہ پرانے لوگ اور وہ گلیاں۔ وہ گلیاں بھی اب ’خود غرض‘ ہو کر ’تجارت پیشہ‘ بن گئیں، گھروں کے کواڑ کی جگہ سمع خراش آہنی شٹروں نے لے لی، ڈیوڑھیوں کی جگہ کئی دکانوں کو راستہ دیتی مارکیٹیں نکل آئیں۔

اب صاحب، بازاروں میں تو سراسر نفعے اور نقصان کے سودے ہوتے ہیں ناں۔ ’زندگی‘ اور اس کی ’حلاوت‘ یہاں ذرا کم ہی سفر کر پاتی ہے۔ سو، افراتفری بڑھتی چلی گئی، تیوہار پھیکے پڑے، تو وہ عید اور بقرعید جس کے لیے ہم بچے لوگ پورے ایک سال کا صدیوں جیسا انتظار کرتے تھے، اب ہوا کے گھوڑے پر سوار جلدی جلدی آنے جانے لگیں۔

محلے کے رمضانوں میں بھی تو کچھ پہلے کی سی بات نہیں رہی تھی، ایک ہم کیا آج کے بچے بھی نئے دور کی طرح اس کو مناتے ہیں، خیر، کچھ عرصے منظر نامے سے غائب رہنے کے بعد دو سال پہلے ’کورونا‘ کی وبائی بندشوں کے دوران ایک دن اطلاع ملی کہ ہمارے محلے کے ’بھائی گلو‘ کا انتقال ہوگیا ہے۔۔۔!

اللہ کا ایک معصوم بندہ اس کے حضور پیش ہوگیا، جس میں عقل اور سمجھ اتنی تھی ہی نہیں کہ وہ ہم عام انسانوں کی طرح کسی کو کوئی ہوشیاری دکھاتا، کسی کو دانستہ یا غیر دانستہ طور پر نقصان پہنچاتا اور ’وغیرہ وغیرہ‘ یا کسی شیطانی جذبات وخیالات کا شکار ہوتا، جس کے ہم عام لوگ ہوئے جاتے ہیں۔

ہمیں گمان ہے کہ اُن کے رب کو بھی اپنے بندے کی معصومیت پر پیار آیا ہوگا اور وہ اس کی بساط بھر لگن اور سچائی پر واری گیا ہوگا۔۔۔ بس دنیا سے اُن کا جسد نمازِ جنازہ کے لیے لے جایا گیا، شاید بہتیرے جنازہ پڑھنے والوں کے کانوں میں ایک مانوس سی آواز کا دھوکا بھی ہوا ہوگا کہ کوئی کاندھا دینے والوں کے ساتھ آگے آگے چل کر جنازے کے لیے راستہ بنا رہا ہے، اور کسی فرض نماز کے بہ جائے، خود اپنے جنازے کے لیے شرکا کو پکار رہا ہے کہ ’’بھئی چلو بھئی، بھئی ٹائم ہوگیا بھئی۔۔۔!‘‘

۔۔۔

مجھے عادت ہے لکھنے کی۔۔۔

مریم شہزاد، کراچی

بہت دن سے کچھ لکھنے کو دل چاہ رہا تھا ، مگر کیا؟ یہ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا، پھر یہ سوچا کہ چلو موبائل اٹھاتی ہوں۔ کچھ شروع تو کروں، کچھ نہ کچھ سمجھ میں آ ہی جائے گا۔

’’موبائل اٹھاؤں۔۔۔؟‘‘

کتنی عجیب بات ہے ناں، بہ جائے اس کے کہ میں قلم، پین یا پینسل لیتی، لیکن اب تو ایسا لگتا ہے کہ ان سب سے ہمارا ناتا ٹوٹتا جا رہا ہے۔ پہلے تو باورچی خانے میں کام کرتے کرتے کاؤنٹر پر کاپی پین رکھ لیا کرتی تھی، جہاں کچھ خیال آیا وہیں جلدی جلدی مختصراً لکھ ڈالا اور پھر بعد میں اس کو فرصت سے حتمی شکل دے دی،کتنے ہی افسانے، کہانیاں، نظمیں اسی طرح لکھ ڈالے، مگر اب تو سستی سی آتی ہے کہ کون پہلے کاپی پر لکھے اور پھر اس کو ٹائپ کرے، اس لیے براہ راست موبائل ہی پر لکھ لیتی ہوں۔

لیکن کتنی عجیب بات ہے وہ روانی اب ختم ہوتی جا رہی ہے، کیوں کہ جس رفتار سے دماغ میں ’خیالات‘ آتے تھے، اسی تیزی سے قلم چلتا رہتا تھا اب ٹائپ کرنے بیٹھیے، تو لگتا ہے کہ ایک حرف یہاں سے پکڑو، تو ایک وہاں سے پکڑو، جو قلم کی روانی کی بات ہے وہ اس ٹائپنگ میں کہاں!

مگر جس طرح زندہ رہنے کے لیے کھانا پانی ضروری ہے، اسی طرح لکھنے والوں کے لیے لکھنا ضروری ہے، اب چاہے وہ جس طرح بھی لکھیں۔ پہلے لوگ لکڑی کے قلم تراش کر پھر اس کو سیاہی میں ڈبو کر لکھتے تھے، پھر پینسل، انک پین، بال پین، ٹائپ رائٹر اور پھر پوائنٹر، جیل پین، مارکر، کٹ مارکر اور اب سب کے ساتھ ترقی کی ایک نئی شکل موبائل، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور ٹیبلٹ وغیرہ کے ذریعے اپنی بات پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں، بس جس کو پڑھنا ہے، وہ ہر جگہ پڑھنے کے لیے کچھ نہ کچھ تلاش کرے گا۔

اسی طرح لکھنے والے بھی اپنے ذہن میں آئے ہوئے خیالات کو صفحہ قرطاس پر بکھیرتے جائیں گے، قاری اور ادیب کا یہ رشتہ نہ جانے کتنے زمانے سے قائم ہے اور اب بھی اس کی شکلیں بدلتی رہیں گی کبھی تختی سے کاغذ پر آئے تھے اور اب کاغذ سے الیکٹرانک میڈیا پر، اب نہ جانے آگے والی نسلوں کو پڑھنے کے لیے کیا نئی ٹیکنالوجی ملے گی، جو شاید اس سے بھی بہتر ہو، لیکن جو لوگ کبھی لیٹ کر تو کبھی نیم دراز ہو کر، کبھی بیٹھ کر اور کبھی کورس کی کتابوں میں چھپا کر افسانے اور ناول پڑھتے تھے۔

وہ آج بھی اس کی تشنگی محسوس کرتے ہیں اور شاید جب تک زندہ ہیں ہمیشہ یہی کوشش کریں گے کہ کتاب ہاتھ میں لے کر سکون سے پڑھیں اور ان کے دم سے ہی جب تک کتابیں، مطبوعہ کاغذ، قلم اور یہ ’پرنٹ میڈیا‘ چل رہا ہے تو چل رہا ہے اور دیکھیے کب تک اس کی سانسیں باقی ہیں ورنہ یہ اسمارٹ سا موبائل تو بہت کچھ ہضم کر چکا مگر پھر بھی اسمارٹ ترین ہوتا جا رہا ہے۔

۔۔۔

مہنگائی
کرن صدیقی، کراچی

کمشنر صاحب آج بازاروں کے دورے پر نکلے ہو تھے تاکہ خریدوفروخت کی صورت حال کا صحیح جا ئزہ لے سکیں۔ بازار کے ایک اسٹال پر انھیں ایک جانی پہچانی صورت نظر ائیٓ ۔ کمشنر صاحب اس طرف بڑھے اور بولے ’’تم انور۔۔۔ انور ہی ہو ناں؟‘‘

’’ہاں میں انور ہوں۔‘‘ اس نے جواب دیا۔

’’تم یہاں کہاں؟ اسکول کے بعد تمھارا کوئی اتا پتا ہی نہیں رہا۔‘‘

’’میں نے میٹرک کے بعد ہی گھر کے حالات کے سبب اسکول میں پڑھانا شروع کر دیا تھا، لیکن مہنگائی اتنی ہے کہ اب گزارہ کرنا مشکل ہے، سو اسکول کے بعد یہاں اسٹال لگاتا ہوں، وہاں سے زیادہ آمدنی ہو جاتی ہے، یوں زندگی کی گاڑی چل رہی ہے۔‘‘

انور نے ایک تلخ سی مسکراہٹ سے جواب دیا۔

’’ہاں یار مہنگائی تو واقعی بہت ہوگئی ہے۔‘‘ کمشنر صاحب نے یہ کہتے کہتے اپنے ماتھے سے پسینا پونچھا۔ انھیں صبح کا منظر یاد آگیا۔ جب بیوی کے کہنے پر انھوں نے اس کو شاپنگ کے لیے دو لاکھ روپے دیے، لیکن وہ اسے کم لگی اور اس بات پر دونوں کی جھڑپ ہوگئی۔

۔۔۔

افسانچہ
تمھیں رسوا نہ کریں گے
محمد عثمان جامعی
’’میرے ہی نصیب میں لکھا تھا یہ سالا ہیجڑا۔۔۔۔‘‘
برسوں پہلے باپ کے کہی گئے الفاظ اِس وقت بھی اُس کے کانوں میں گونج رہے تھے جب وہ زخمی حالت میں اسپتال کی راہ داری میں پڑا آخری سانسیں لے رہا تھا۔
وہ گھاؤ ان گولیوں سے لگے سب زخموں سے بہت گہرا تھا جو آج ’’ ساتھ چلنے‘‘ سے انکار پر برسی تھیں۔ وہ آخری تھپڑ ان لمحوں میں رخسار پر سلگ رہا تھا، زور سے پڑنے والی لات کھا کر کھلے دروازے سے گلی میں جا گرنے تک کاسارا درد نس نس میں دوڑ رہا تھا۔
’’ نام‘‘
’’ روزی‘‘
پولیس والے کے پوچھنے پر کراہ سی ابھری۔
’’ باپ کا نام‘‘
’’ چھوڑیں جی۔۔۔۔ ان ۔۔۔۔ کی ۔۔۔۔ بدنامی ہوگی‘‘ ٹوٹتی سانسوں نے جواب دیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔