مفاہمت کے امکانات پیدا کرنے ہونگے

سلمان عابد  منگل 28 مارچ 2023
salmanabidpk@gmail.com

[email protected]

پاکستان کی سیاست ایک مشکل اور سنگین نوعیت کے بحران میں کھڑی ہے ۔ ماضی کے مقابلے میں آج ہماری داخلی، علاقائی اور خارجی سطح کی صورتحال نے ہمیں کافی تنہا کردیا ہے۔ ہم سب ہی فریق تنہائی سے نکلنا چاہتے ہیں اور کوشش ہے کہ کوئی ایسے راستے کی تلاش کو ممکن بنایا جائے جو ہمیں محفوظ راستہ کی طرف لے جاسکے ۔

حکومت ہو یا حزب اختلاف یا ریاستی سطح کے تمام ادارے ’’ ردعمل کی سیاست‘‘ کا شکار ہوگئے ہیں اور یہ کیفیت مفاہمت کے بجائے ’’ردعمل یا بدلا لینے کی سیاست ‘‘ کو فروغ دینے کا سبب بنتی ہے ۔مفاہمت کے امکانات بھی وہیں پیدا ہوتے ہیں جہاں فریق ایک دوسرے کے سیاسی قد کاٹھ یا سیاسی وجود کو قبول کرتے ہیں۔

سیاسی معاملات میں مختلف نقطہ نظر کا ہونا یا تنقید کے پہلو کا موجود ہونا سیاسی و جمہوری روایات کا حصہ ہوتے ہیں۔ لیکن اگر سیاسی تنقید یا مختلف نقطہ نظر سیاسی دشمنی یا عدم قبولیت میں تبدیلی کی شکل اختیار کرلیں تو مفاہمت کا پہلو پیچھے رہ جاتاہے ۔مفاہمت کے لیے تمام فریقوں کو سازگار ماحول پیدا کرنا ہوتا ہے کیونکہ سیاسی سازگار ماحول ہی ایک دوسرے کے لیے سیاسی جگہ یا قبولیت کو فراہم کرنے کا سبب بنتا ہے۔

لیکن فی الحال ایسا لگتا ہے کہ ہم محض سیاسی جنگ نہیں جیتنا چاہتے بلکہ اپنے سیاسی مخالف کے وجود کو ہی ختم کرنا چاہتے ہیں ۔ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے بقول اب ہم رہیں گے یا عمران خان رہیں گے اور ہمیں عمران خان کو ختم کرنے کے لیے ہر وہ حربہ اختیار کرنا ہے جو جائز ہو یا ناجائز یا جمہوری ہو یا غیر جمہوری ہم گریز نہیں کریں گے ۔کچھ اسی طرح کی شدت پسندی ہمیں عمران خان کے حامیوں میں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں ۔

ایک طرف سیاسی محاذ پر سیاسی قیادتیں ایک دوسرے کے خلاف محاذ بنائے ہوئی ہیں تو دوسری طرف ہمیں سیاسی جماعتوں اور اداروں کے درمیان بھی ٹکراؤ کا ماحول غالب نظر آتا ہے ۔

انتخابات کے تناظر میں ایک بڑا بحران سر پر کھڑا ہے ۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے باوجود حکمران اتحاد دو صوبوں کی سطح پر انتخابات سے واضح انکاری ہے ۔ الیکشن کمیشن نے انتخابات کو ملتوی کردیا ہے اور اب یہ معاملہ سپریم کورٹ کی جیب میں ہے اور دیکھنا ہوگا کہ وہ کیا ردعمل دیتی ہے ۔

فیصلہ کچھ بھی ہو کیا اس سے سیاسی استحکام ممکن ہوسکے گا، خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے ۔ جو سیاسی فیصلے سیاسی قیادتوں کو سیاسی فورمز پر کرنے تھے وہ اہل سیاست اپنی نااہلی کی وجہ سے عدالتوںمیں لے آئے ہیں ۔ عدالتوں سے اپنی مرضی کے فیصلہ چاہتے ہیں اور اگر فیصلے حق میں نہیں آتے تو پھر عدالتوںپر تنقید میں شدت پیدا کرکے ماحول کو اور زیادہ خراب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔

پچھلے دنوں سابق وزیر خارجہ اور بین القوامی امور کے ماہر دانشور اور سیاست دان خورشید قصوری کی سربراہی میں ’’ پاکستان فورم ‘‘ کا موجودہ ملکی صورتحال کے پیش نظر اہم اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں مجیب الرحمن شامی ، سجاد میر، احمد بلال محبوب،بریگیڈئر فاروق حمید خان ، تنویرشہزاد کرنل زیڈ آئی فرخ، توفیق بٹ،  میاں سیف الرحمن ، میجر ارج زکریا، قیوم نظامی، عبداللہ ملک ، سلمان غنی اورمہناز رفیع شامل تھے۔

موضوع تھا ’’پاکستان کی داخلی سیاست اور اس حالیہ بحران سے باہر نکلنے کا راستہ‘‘ کیا ہونا چاہیے ۔میاں خورشید قصوری کے بقول اگر اس وقت ہماری سیاست قیادت نے مفاہمت کا کوئی راستہ نہ نکالا تو اس کے نتیجے میں ایک بڑا سیاسی اور آئینی بحران پیدا ہوگا جو کسی سے نہیں سنبھل سکے گا۔

فورم کے بقول بنیادی نقطہ کیسے سیاسی قیادت کو بٹھایا جائے کیونکہ اس وقت دونوں اطراف میں موجود سیاسی بداعتمادی و ٹکراو کا ماحول سیاسی مفاہمت میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔

ایک تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ عمران خان مفاہمت نہیں چاہتے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ملک میں حکمران اتحاد چاہتا ہے کہ مفاہمت ہو۔کیونکہ مفاہمت جو بھی ہوگی اس کا ایک عملی نتیجہ انتخابات کا ہونا ہے ۔حکومت اپنی مرضی و منشا و وقت کے مطابق انتخاب کا انعقاد چاہتی ہے جب کہ عمران خان فوری انتخابات کے حامی ہیں ۔

خورشید قصوری کے بقول جو بھی راستہ نکلنا ہے وہ آئین کا ہی راستہ ہے اور اس سے انحراف نئی انارکی سمیت جمہوری عمل کو کمزور کرنے یا اس میں تعطل پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔اس لیے جو بھی حالات ہیں اور جیسے بھی حالات ہیں ہمیں معاملات کو بند دروازے کے بجائے مفاہمت پر ہی زور دینا ہے۔

اس کے لیے سازگار ماحول کو پیدا کرنا ہی بنیادی ترجیح ہونی چاہیے۔ ان کے بقول جو سیاسی تقسیم میںشدت پیدا ہوئی ہے اس کو کم کرنا بھی ہماری ترجیح ہونی چاہیے۔یہ عمل صرف اور صرف بات چیت ، مکالمے اور مفاہمت کے ساتھ ہی ہوسکے گا۔

کیونکہ اس سے انحراف کی پالیسی نے سیاست ، جمہوریت ، معیشت اور سیکیورٹی کے عمل کو کمزور کردیا ہے۔لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام فریقین کو سب سے پہلے ’’ اعتماد کی بحالی پر مبنی اقدامات‘‘ کو بنیادی نقطہ بنانا ہوگا۔اس کی ایک شرط یہ بھی ہوسکتی ہے کہ فوری طور پر جو مقدمات سیاسی کارکنوں کے خلاف بن رہے ہیں یا سیاسی قیادتوں پر دہشت گردی کے مقدمات کو طاقت دی جارہی ہے۔

اس کو ختم کیا جائے۔ بدقسمتی سے یہاں اب ’’ دہشت گردی پرمبنی مقدمات کو بطور ہتھیار‘‘ کے طور پر استعمال کیاجارہا ہے جو بلاوجہ حالات میں کشیدگی پیدا کررہا ہے۔یہ ممکن ہوگا کہ ایک طرف مفاہمت کی بات کی جائے اور دوسری طرف سیاسی مخالفین پر شدت کے ساتھ دہشت گردی یا ریاستی بغاوت پر مبنی مقدمات بنیں گے تو معاملات میں بہتری نہیں اور کشیدگی پیدا ہوگی ۔

بنیادی بات انتخابات سے انحراف یا اس میں تاخیری حربے کی ہے اس سے جتنی دور بھاگا جائے گا ہمارے مسائل اور زیادہ بڑھ جائیں گے لیکن انتخابات سے پہلے سیاسی کشیدگی کا خاتمہ ہونا چاہیے ۔

یہ ’’ اعتماد پر مبنی ماحول کو پیدا کرنا ‘‘ کی ذمے داری محض سیاسی جماعتوں پر ہی نہیں بلکہ سول سوسائٹی ، وکلا تنظیمیں ، میڈیا سمیت اہل دانش یا علمی و فکری انفرادی یا ادارہ جاتی سطح کے لوگوں سمیت سب کو اجتماعی طور پر اس بحث کو آگے بڑھانا ہے۔

سیاسی قیادتوں پر دباؤ ڈالنا ہوگا کہ وہ مفاہمت کا راستہ اختیار کریں اور ملک کو ایسی جگہ پر نہ لے کر جائیں جہاں سے سب کے لیے واپسی کا راستہ ممکن نہ ہوسکے ۔اب دیکھنا یہ ہوگا کہ اس میں کون پہل کرتا ہے اور کون بلی کے گلے میں گھنٹی باندھتا ہے کیونکہ یہ ہی قومی مفاد کا تقاضہ ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔