کراچی پولیس آفس پر حملہ میں ملوث نیٹ ورک بے نقاب

منور خان  منگل 28 مارچ 2023
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

 کراچی:  ریاستی رٹ کمزور ہونے لگے تو دہشت گرد و دیگر جرائم پیشہ عناصر طاقت ور ہونے لگتے ہیں، جس کا عملی مظاہرہ آئے روز پاکستان کے مختلف شہروں میں نظر آتا ہے تاہم یہ انتہائی افسوسناک امر ہے، جس کا تدارک جتنا جلدی ہو گا اتنا ملک کے لئے بہتر ہیں کیوں کہ تاخیر صورت حال کو مزید گھمبیر بنا رہی ہے۔

ایسا ہی کچھ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں گزشتہ دنوں ہوا۔ شہر قائدؒ میں شارع فیصل ایف ٹی سی فلائی اوور صدر تھانے سے متصل کراچی پولیس آفس پر گزشتہ ماہ 17 فروری 2023ء کو 3 دہشت گردوں نے پولیس کے سکیورٹی اقدامات کے فقدان کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حملہ کیا اور فائرنگ کرتے ہوئے انتہائی حساس عمارت میں داخل ہوگئے۔

اس اطلاع پر پولیس اور رینجرز نے فوری اور منہ توڑ جواب دیتے ہوئے دہشت گردوں کا بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا اور شدید فائرنگ کے تبادلے میں 2 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا جبکہ ایک دہشت گرد نے کراچی پولیس چیف کے دفتر کے قریب خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔

کراچی پولیس آفس پر حملے میں رینجرز افسر اور 3 پولیس اہلکاروں سمیت 5 افراد شہید جبکہ 19 افراد زخمی ہوگئے۔

دہشت گردوں کے اس حملے کے بعد سکیورٹی پر کئی سوال بھی اٹھائے گئے اور اس کے ساتھ ساتھ کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) اور اسپیشل برانچ کے خفیہ سراغ رسانی کے نیٹ ورک پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا کہ دہشت گرد نہ صرف کئی روز تک کراچی پولیس آفس کی ریکی کرتے رہے بلکہ حملہ آور ہو کر اس میں داخل ہونے میں بھی کامیاب ہوگئے جبکہ دوسری طرف کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے کراچی پولیس آفس پر حملے کی باقاعدہ ذمہ داری بھی قبول کی گئی ہے۔

کراچی پولیس آفس پر دہشت گردوں کے حملے میں ہلاک ہونے والے 2 دہشت گردوں کی شناخت زالہ نور اور کفایت اللہ کے نام سے کی گئی جبکہ تیسرے دہشت گرد جس نے خود کو دھماکے سے اڑایا تھا، اس کی شناخت بعدازاں یاسر کے نام سے کی گئی اور اس کا تعلق افغانستان سے بتایا گیا ہے اور اسی وجہ سے تفتیشی حکام کو اس کی شناخت میں ابتدائی طور پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیوں کہ شناختی کارڈ نہ ہونے کی وجہ سے اس کا ریکارڈ سامنے نہیں آرہا تھا۔

مارے جانے والے دہشت گردوں کے زیر استعمال کار بھی پولیس نے برآمد کرلی اور اس کے مالک کی تلاش کے ساتھ ساتھ جن راستوں سے دہشت گرد کراچی پولیس آفس پہنچے، ان کی بھی سی سی ٹی وی فوٹیجز حاصل کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا جبکہ واقعہ کے بعد پولیس، رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے مارے جانے والے دہشت گردوں کے نیٹ ورک میں جڑے دیگر کرداروں کی تلاش میں سرگرم ہوگئے، اور تقریباً 23 روز سخت جدوجہد اور خفیہ کڑی نگرانی کے بعد اہم کامیابی حاصل کرتے ہوئے کراچی پولیس آفس پر حملے کے ماسٹر مائنڈ کا سراغ لگا لیا گیا۔

12 اور 13 مارچ 2023ء کی درمیانی شب منگھوپیر کے علاقے مائی گاڑی کے مقام پر سی ٹی ڈی نے مقابلے کے دوران 2 دہشت گردوں کو ہلاک کر کے دیگر 2 ساتھیوں کو گرفتار کر لیا اور اس حوالے وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے سی ٹی ڈی آفس میں ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی عمران یعقوب منہاس سمیت دیگر افسران کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مقابلے سے متعلق تفصیلات سے آگاہ کیا۔

اس موقع پر انھوں نے کراچی پولیس آفس پر حملے کے ماسٹر مائنڈ کو ساتھی سمیت ہلاک کرنے اور دیگر 2 ساتھیوں کو گرفتار کرنے پر پولیس، رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کاوشوں کو سراہا اور ایک پھر اپنے عزم کا دہراتے ہوئے کہا کہ آخری دہشت گرد کو انجام تک پہنچانے تک جنگ جاری رہے گی اور کسی بھی قمیت پر قیام امن کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے دینے والے پولیس ، رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران اور جوانوں کی قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا۔

وزیر سندھ شرجیل انعام میمن نے بتایا کہ کراچی پولیس آفس پر حملے کے بعد اس نیٹ ورک کا قلع قمع کرنے کے لیے سی ٹی ڈی ، وفاقی حساس اداروں اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں پر مشتمل ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی گئی تھی، جس نے اس نیٹ ورک کا کامیابی سے سراغ لگایا۔

جس کے بارے میں معلومات حاصل ہوئیں کہ دہشت گردوں کا یہ نیٹ ورک کراچی اور بلوچستان کے سرحدی علاقے کے درمیان میں روپوش تھا، جس نے کراچی پولیس آفس پر حملہ اور خودکش دھماکا کرنے والے والوں کی مدد، منصوبہ بندی اور ریکی کا کام سرانجام دیا تھا۔

جس پر سی ٹی ڈی اور حساس اداروں نے مذکورہ گروہ کے خلاف جاسوسی کا نیٹ ورک مضبوط کیا اور خفیہ ذریعے سے اطلاع ملی کہ اس نیٹ ورک کے مزید دہشت گرد کراچی میں حب کے کچے کے راستوں سے داخل ہوں گے۔

جس کے بعد حب کچے کے راستوں سے 2 موٹر سائیکلوں پر سوار 4 دہشت گرد داخل ہوئے تو منگھوپیر مائی گاڑی کے مقام پر سی ٹی ڈی کی ٹیم نے انھیں رکنے کا اشارہ کیا تو دہشت گردوں نے پولیس پر فائرنگ شروع کر دی تاہم جوابی فائرنگ کے تبادلے میں 2 دہشت گرد مارے گئے جبکہ 2 کو گرفتار کرلیا گیا۔

پولیس کے ساتھ مڈبھیڑ میں مارے جانے والے دہشت گردوں کی شناخت آریاد اللہ عرف حسن اور وحید اللہ عرف خالد عرف حذیفہ کے نام سے کی گئی، جو کہ کراچی پولیس آفس پر حملے کے ماسٹر مائنڈ تھے جبکہ گرفتار دہشت گردوں کی شناخت عبدالعزیز اور مہران علی کے نام سے کی گئی جو کہ شہرِ قائد میں ایک اور بڑی دہشت گردی کی واردات کی منصوبہ بندی کے لیے اپنے آقاؤں کے اشارے کے منتظر تھے۔

مقابلے میں مارے جانے والے دہشت گرد سپر ہائی وے کے قریب احسن آباد کے رہائشی ہیں اور گرفتار دہشت گرد گلشن حدید فیز ٹو اور شاہ لطیف ٹاؤن کے رہائشی ہیں، جو کہ کراچی پولیس آفس پر حملے کے بعد بلوچستان جا کر روپوش ہوگئے تھے جبکہ گرفتار دہشت گردوں نے دوران تفتیش انکشاف کیا ہے کہ ان کا اور مارے جانے والے دہشت گردوں کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے ہے اور اس حملے میں استعمال کی جانے والی گاڑی حملے سے ایک روز قبل حب چوکی کے ایک شوروم سے 10 لاکھ روپے میں خریدی گئی تھی جبکہ گاڑی خریدنے کے لیے رقم پولیس مقابلے میں مارے جانے والے دہشت گرد آریاد اللہ اور عبدالوحید نے فراہم کی تھی۔

کراچی پولیس آفس میں حملہ کرنے والے دہشت گرد ایک ہفتہ قبل بسوں کے ذریعے کراچی آئے تھے اور ہلاک ہونے والے دہشت گرد عبدالعزیز کے گھر احسن آباد میں روپوش رہے جبکہ حملے میں استعمال کیا جانے والا اسلحہ، جیکٹیس اور دیگر اسلحہ ٹرک کے ذریعے خیبرپختونخوا کے علاقے ٹانک سے کراچی پہنچایا گیا تھا۔

کراچی پولیس آفس پر حملہ کرنے والے اور اس حملے کے ماسٹر مائنڈ تو اپنے منطقی انجام تک پہنچ گئے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ پولیس کو اپنے خفیہ سراغ رسانی کے نیٹ ورک کو بہتر بنانے میں سنجیدہ کوششیں کرنا ہوں گی تاکہ اسی نیٹ ورک کی بدولت دہشت گردوں کے ناپاک عزائم کو قبل از وقت ناکام بنایا جا سکے۔

وطن عزیز میں سکیورٹی کے مخدوش حالات میں پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سرجوڑ کر بیٹھنا ہو گا اور دہشت گردوں سمیت دیگر جرائم پیشہ عناصر کے خلاف زیروٹالرنس کے ساتھ گرینڈ آپریشن کرنا ہو گا تاکہ یہ ملک اور اس کے باسی سکون کی نیند لے سکیں اور تجارتی سرگرمیاں بلاخوف و خطر فروغ پا سکیں کیوں کہ یہی وہ راستہ ہے، جس پر چل کر نہ صرف ملک میں مکمل و پائیدار امن کے قیام کے خواب کو تعبیر مل سکتی ہے بلکہ معاشی افراتفری پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔