- پاکستان سے آزاد تجارت کا معاہدہ آخری مرحلے میں ہے،تھائی لینڈ سفیر
- سابق چیف جسٹس اور جسٹس اعجاز کیخلاف مس کنڈکٹ کی شکایات بے بنیاد قرار
- پولیس کی جانب سے ذاتی مقاصد اور پیسوں کیلیے شہریوں کا کالز ریکارڈ نکلوانے کا انکشاف
- وکلا کیخلاف کرپشن مقدمات پر لاہور بار کا احتجاج، عدالتوں کو تالے لگادیے
- ٹی ٹی پی کیلیے بھتہ لینے والا سرگرم گروہ گرفتار، تفتیش میں ہوشربا انکشافات
- وال اسٹریٹ جرنل کی کینیڈا میں بھارتی دہشتگردی کی تصدیق
- راولپنڈی میں جعلی پارکنگ رسیدیں بناکر فیس لینے والے 5 ملزمان گرفتار
- کفایت شعاری کا مشورہ؟
- بحیرہ روم کی غذائیں دماغی کمزوری کے خطرات میں کمی لاسکتی ہیں، تحقیق
- بیٹریوں اور شمسی خلیوں کی کارکردگی بہتر کرنے والا نینو ربن
- دبئی میں دنیا کی پہلی زیرآب مسجد کی تعمیر
- لاہور میں طوفانی بارش سے نشیبی علاقے زیرِ آب آگئے
- کوشش ہے یو اے ای پاکستان سے گوشت درآمد روکنے کا فیصلہ واپس لے، ٹی ڈی اے پی
- لکی مروت میں ڈاکوؤں کی مسافر بس پر فائرنگ سے ایک شخص جاں بحق
- شہری پوسٹ آفسز پر نادرا سہولیات سے لاعلم نکلے
- کراچی میں پولیس مقابلوں کے دوران 6 ڈاکو زخمی
- کینیڈا میں سکھ رہنما کے قتل میں بھارت ملوث ہے، عالمی خفیہ ایجنسی کی تصدیق
- بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری ترجیح ہے، فواد حسن فواد
- ریونیو جنریشن اسٹرٹیجی اور ایف بی آر کی تنظیم نو کا فیصلہ
- سائفر کیس میں عمران خان کی درخواست ضمانت سماعت کیلیے مقرر
پی ٹی آئی کا مقدمات اور کارکنوں کی گرفتاری کا معاملہ عالمی سطح پر اٹھانے کا فیصلہ

(فوٹو : فائل)
اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف نے قیادت کے خلاف درج مقدمات اور کارکنان کی گرفتاریوں کا معاملہ عالمی سطح پر اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
اسلام آباد میں فواد چوہدری کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈاکٹر شیری مزاری نے کہا کہ دس اپریل 2023ء سے 21 مارچ تک ہونے والی ’انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں‘ کو ہم نے ایک ڈاکومینٹ کی صورت میں تیار کیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ دستاویزات تین حصوں پر مشتمل ہیں، پہلے سیکشن میں پی ٹی آئی اور اتحادیوں کا سیاسی استحصال کا ذکر کیا گیا ہے جس میں زمان پارک آپریشن بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کا مخالفین کے ساتھ رویہ اور عمران خان پر ہونے والے قاتلانہ حملے اور اُن کی سیاسی پابندیوں کا ذکر ہے۔
شیری مزاری کا کہنا تھا کہ دستاویز میں پی ٹی آئی چیئرمین اور قیادت کے خلاف ملک بھر میں درج مقدمات کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔ دوسرے حصے میں آزادی اظہار رائے کی پابندیوں اور صحافیوں کی زباں بندی کے واقعات کو اجاگر کیا گیا ہے جبکہ مخالفین کو میڈیا کے ذریعے نشانہ بنانے کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تیسرے حصے میں ہم نے آڈیو اور ویڈیو لیکس کے معاملے کو بھی شامل کیا ہے کیونکہ یہ سوال اٹھتا ہے کہ وزیراعظم کی ٹیلی فون لائن کس نے ریکارڈ کیں اور اس کے پیچھے کیا مقاصد تھے جبکہ یہ قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔
ڈاکٹر شیریں مزاری پی ٹی آئی کے خلاف اس موجودہ حکومت کے فاشسٹ اور غیر انسانی رویے کو بے نقاب کر رہی ہیں۔#PakistanUnderFascism @ShireenMazari1 pic.twitter.com/oYWxtwPesK
— PTI (@PTIofficial) March 28, 2023
شیری مزاری نے کہا کہ ہم نے اس دستاویز میں آئینی آرٹیکل کا تذکرہ بھی کیا ہے تاکہ عالمی سطح پر معلوم ہوسکے کہ حکومت کس طرح ملکی قوانین اور انسانی حقوق اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کررہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’آرٹیکل 13 کے تحت کسی بھی ایک کیس کا مقدمہ دو بار درج نہیں ہوسکتا مگر حکومت ہمارے خلاف یہ حربہ استعمال کررہی ہے‘۔ شیری مزاری نے کہا کہ ہم نے اس کے اینکزر بی میں اُن 7 انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزیوں کا ذکر کیا ہے جس میں پاکستان عالمی دنیا کا شراکت دار ہے۔
شیری مزاری نے کہا کہ ہمارے اب سوشل میڈیا کے کارکنان کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے، اظہر مشوانی کو لاپتہ ہوئے پانچ روز گزر گئے مگر کوئی بھی اس کی ذمہ داری یا گرفتاری ظاہر نہیں کررہا، اسلام آباد میں بھی نامعلوم افراد نے پی ٹی آئی کارکنان اور عمران خان کے فوٹو گرافر کو گرفتار کیا۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’یہ ہماری طرف سے آغاز ہے اور دستاویز کو انگریزی میں اس لیے چھاپا گیا ہے تاکہ ہم عالمی دنیا کو مظالم کے حوالے سے آگاہ کریں کیونکہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور ظلم کیخلاف آواز اٹھاتے ہیں‘۔
پاکستان تحریک انصاف کے سینئر نائب صدر فواد چوہدری نے کہا کہ ’حسان نیازی بیرسٹر تھا باہر رہ جاتا تو اچھا تھا، کیا ہمارے پاکستانیوں کے کوئی حقوق نہیں؟ حسان نیازی کو واقعہ گیارہ بجے ڈالا گیا جبکہ وہ اس وقت عدالت میں تھا، عمران خان کے خلاف 15 پرچے ایک دن میں کئے گئے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’21 مارچ تک ہمارے 1060 افراد کو گرفتار کیا گیا جبکہ 1100 گرفتاریوں کی فہرست مزید بنا رہے ہیں، پنجاب کی کرمنل کابینہ محسن نقوی کی قیادت میں کام کررہی ہے‘۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔