جمہوریت اور غریب عوام

ظہیر اختر بیدری  بدھ 29 مارچ 2023
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

پاکستان ایک جمہوری ملک ہے، جمہوریت کا مطلب عوام کی حکومت۔ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ملک کی ستر فیصد سے زائد آبادی غریب اور نادار لوگوں پر مشتمل ہے اور مٹھی بھر لوگ صنعت کار، جاگیردار طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ایسی بستیوں میں رہتے ہیں جہاں ان کا رہن سہن، بود و باش خوابوں جیسی ہوتی ہے۔

خواب تو مغلیہ دور کے بعد ختم ہوگئے لیکن ان جعلی نوابوں نے ان کی جگہ لے لی، میں نے ابتدا میں جمہوریت کا ذکر کیا تھا ، کیونکہ آج ساری دنیا میں جمہوریت کے چرچے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان پوش بستیوں میں صرف اور صرف امرا بستے ہیں۔

ان کا رہن سہن بود و باش مغلوں کے زمانے کے نوابوں سے الگ نہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب جب جمہوریت کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو بلا تعصب عوام ذہن میں آتے ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ نواب، جاگیردار، سرمایہ دار ہی اصل عوام بن گئے بس ، اور ریاست پر انھی کا کنٹرول ہے۔

جمہوریت جس کا نام وہ ہمارے ملک میں کتابوں کی زینت بنی رہتی ہے، جمہوریت کا مطلب عوام کی حکومت ہوتا ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ عوام سے پانچ سال میں ایک بار ووٹ ڈالنے کا کام لیا جاتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ جمہوری ملکوں میں عوام ہی حکمران ہوتے ہیں، پاکستان کو بنے ہوئے لگ بھگ پون صدی ہونے والی ہے، اس طویل دور میں بدقسمتی سے ایسی کوئی حکومت نہیں دیکھی جسے جمہوری کہا جائے۔

ہر ملک میں صحافی ہوتے ہیں، دانشور ہوتے ہیں، ادیب اور شاعر ہوتے ہیں جو ملک کی نظریاتی رہبری کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے اس ملک میں عوام و خواص سب ایک ہی سمت میں دوڑے جا رہے ہیں اور وہ سمت ہے پیسہ کمانے کی، کی ایسے ملک میں جمہوریت کا پودا پنپ سکتا ہے؟ پاکستان کو ایک نظریاتی ریاست کہا جاتا ہے لیکن اس بدقسمتی کو کیا کہیے نظریات پر بھی ایلیٹ کا قبضہ ہے، وہ بھی عوام کی نظریاتی سمت کا تعین کرتی ہے۔

نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا حال یہ ہے کہ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم، نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے ۔آج ایک عرصے سے ملک میں انتخابات کا چرچہ ہو رہا ہے، عوام حیران ہے کہ بہت شور سنتے تھے دل میں کہ جمہوریت آ رہی ہے۔ جدید دور ہے، سائنس نے اتنی ترقی کی ہے کہ وہ اجرام فلکی کے فاصلوں سے واقف ہوگیا ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں اجرام اور فلکی ایک ایسے نام ہیں جن سے عوام واقف ہی نہیں۔ بے چارہ غریب اندھیرے منہ اٹھتا ہے اور دیہاڑی کے لیے نکل جاتا ہے۔

اس کو نہ اجرام فلکی کا پتا ہے اور نہ چاند اور سورج کے بارے میں کچھ جاننا ہے، سوائے اس کے کہ اللہ نے انسانوں کو روشنی مہیا کرنے کے لیے چاند اور سورج پیدا کیے ہیں۔ ہمارے ملک کی آبادی کا لگ بھگ 90 فیصد حصہ غریبوں، مزدوروں، کسانوں وغیرہ پر مشتمل ہے۔

بدقسمتی یہ ہے کہ بجلی قوم کی ضروریات سے بہت کم ہے ہرچند کہ ہماری حکومتوں نے بجلی کو عوام تک پہنچانے کی بہت کوشش کی لیکن بدقسمتی سے اب تک کامیابی نہ مل سکی، ایک تو بجلی ہماری قومی ضروریات سے بہت کم پیدا ہوتی ہے اور ستم یہ ہے کہ اس کی تقسیم میں اتنی خرابیاں ہیں کہ اس کو ٹھیک کرنے میں صدیاں لگ جائیں گی۔

بات صرف بجلی کی ہی نہیں ہے بلکہ پانی جیسی بنیادی ضرورت سے بھی عوام کی ایک بڑی تعداد محروم ہے۔دنیا میں جب سے سرمایہ دارانہ نظام آ رہا ہے انسان نہ صرف یہ کہ غریب سے غریب تر ہوتا گیا ہے بلکہ لاکھوں انسان روٹی تک سے محروم ہوگئے ہیں۔

ہمارے ملک میں غریبوں کو ریلیف دینے کی جو کوششیں کی جاتی ہیں اس سے غربت تو دور نہیں ہوتی بلکہ غربت میں اضافہ ہو جاتا ہے ایسا کیوں؟ اس کا جواب کون دے گا؟ہمارا ملک جمہوری ہے ملک میں ساڑھے چھ کروڑ مزدور رہتے ہیں دیہی علاقوں میں رہنے والے زندگی کی تمام ضرورتوں سے محروم ہیں، معلوم ہوا ہے کہ موجودہ حکومت عوام کی غربت دور کرنے کی کوششیں کر رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔