اختلافی نوٹ کے بعد

مزمل سہروردی  بدھ 29 مارچ 2023
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

ملک میں عدالتی بحران دن بدن بڑھ رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے معزز ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے اختلافی نوٹ نے اس بحران کو مزید شدید کر دیا ہے۔

دونوں معزز ججز نے اپنے ا ختلافی نوٹ میں یہ تحریر کیا ہے کہ پنجاب اور کے پی کے انتخابات کے لیے چیف جسٹس کا لیا گیا سوموٹو چار تین سے مسترد ہو گیا تھا۔ اس اختلافی نوٹ کے بعد ملک کے سیاسی منظر نامہ میں ایک طوفان آگیا کہ کیا واقعی سوموٹو چار تین سے مسترد ہو گیا تھا۔ اگر سوموٹو چار تین سے مسترد ہو گیا تھا تو پھر تحریک انصاف کی موجودہ درخواست کا کیاا سٹیٹس رہ گیا ہے۔

دوسری طرف پارلیمان میں بھی اس ساری صورتحال پر بحث جاری ہے۔ پارلیمان کی تقاریر بھی اس بحران کی شدت میں اضافہ کر رہی ہیں۔

میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ پارلیمان اور عدلیہ کے آمنے سامنے کی صورتحال کو بھی کوئی خوش آیند قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پارلیمان سے قرار داد اور قانون سازی کو بھی خارج ا ز امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ جیسے سماعت آگے بڑھے گی درجہ حرات بھی آگے بڑھے گا۔ اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ صورتحال ٹھیک ہے۔

دو معزز ججز کے اختلافی نوٹ کے بعد بھی چیف جسٹس نے اپنے پانچ رکنی بنچ کے ساتھ سماعت جاری رکھی۔ انھوں نے اس اختلافی نوٹ کا کوئی اثر نہیں لیا۔

جب عدالت میںیہ معاملہ اٹھانے کی کوشش کی گئی تو یہ کہا گیا کہ اگر کسی کو یہ وضاحت چاہیے کہ فیصلہ دو تین سے ہے یا چار تین سے تو وہ الگ درخواست دائر کرے۔

موجودہ کیس میں اس معاملہ کو بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں بنچ کا یہ بھی موقف سامنے آیا ہے کہ یہ ایک نئی درخواست ہے اس لیے اس کا گزشتہ معاملات سے کوئی تعلق نہیں۔

چیف جسٹس کے مطابق صرف اس نقطہ کو طے کرنا ہے کہ الیکشن کمیشن صدر مملکت کی دی گئی تاریخ کو آگے کر سکتا ہے یا نہیں۔ اس سے آگے نہیں جانا چاہتے۔چیف جسٹس سوموٹو کے فیصلے میں اختلاف کے پنڈورا بکس کو بند کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن شاید یہ درست حکمت عملی نہیں ہے۔

دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ف) نے بھی فریق بننے کی درخواست دی ہے، تا ہم اس معاملہ پر بھی یہ ریمارکس سامنے آئے ہیں کہ اس معاملہ کو بھی بعد میں دیکھیں گے۔ میری رائے میں الیکشن کا معاملہ ہے سیاسی جماعتوں کو موقف دینے کا یکساں موقع حاصل ہونا چاہیے۔ صرف تحریک انصاف کو سن کر تو فیصلہ درست نہیں۔ اگر باقی سیاسی جماعتوں کو فریق بننے کا موقع ہی نہیں دیا جائے گا تو کھیل اور خراب ہوگا۔

تحریک انصاف الیکشن میں اکیلی فریق کیسے ہو سکتی ہے۔ سپریم کو رٹ کو سب کو یکساں سننا چاہیے۔ یہی انصاف کا تقاضہ ہے۔

ایک سیاسی جماعت کا موقف سن کر فیصلہ کون مانے گا۔ نئے اٹارنی جنرل منصور اعوان نے بھی سماعت میں فل کورٹ بنانے کی درخواست کی ہے۔لیکن ان کی درخواست منظور نہیں ہوئی۔ سپریم کورٹ میں انتخابات اور دیگر اہم آئینی معاملات کے لیے فل کورٹ بنانے کی درخواست اور مطالبہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔

جب پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا معاملہ بھی زیر سماعت تھا تب بھی فل کورٹ بنانے کی استدعا کی گئی تھی لیکن منظور نہیں کی گئی تھی۔ بعد ازاں جب پنجاب اور کے پی میں انتخابات کے لیے سوموٹو لیا گیا تب بھی فل کورٹ کا مطالبہ سامنے آیا لیکن تب بھی مانا نہیں گیا۔

اب بھی وفاقی حکومت فل کورٹ بنانے کی استد عا کر رہی ہے۔ لیکن منظور نہیں ہو رہی۔ یہ سوال سب کے ذہن میں ہے کہ آخر فل کورٹ بنانے میں قباحت کیا ہے۔ کیا رکاوٹ ہے۔ اب تو اختلافی نوٹ میں بھی فل کورٹ کی بات کی گئی ہے۔ لیکن پھر بھی رکاوٹ ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ فل کورٹ نہ بنانے سے عدلیہ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ عدلیہ کا نقصان ہی ہوگا، تنازعہ مزید شدت اختیار کرے گا۔ سیاسی میدان میں عدلیہ مزید ایک فریق بن کر ابھرے گی۔ ججز مزید متنازعہ ہوں گے۔

سیاسی جلسوں میں عدلیہ کو مزید متنازعہ بنایا جائے گا۔ ایک سیاسی جماعت اگر عدلیہ کے گن گائے تو دوسری کو عدلیہ سے گلہ ہو گا۔ عدلیہ کو اس تنازعہ سے دور رہنا چاہیے۔بہر حال فل کورٹ سے اجتناب سیاسی میدان میں ایک تنازعہ بن چکا ہے، اس کے سیاسی محرکات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

چیف جسٹس نے خود اپنے ریمارکس میں اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ اس وقت ملک میں تشدد اور عدم برداشت بہت بڑھ گیا ہے۔انھوں نے سیاسی جماعتوں سے یقین دہانی مانگی کہ الیکشن میں امن و امان قائم رہے گا۔

میں سمجھتا ہوں کہ سپریم کورٹ اس وقت ایسی یقین دہانی لینے کی پوزیشن میں نہیں ہے، اگر تحریک انصاف دے بھی دے تو باقی جماعتیں جنھیں اس وقت سپریم کورٹ پر شدید تحفظات ہیں وہ اس سپریم کورٹ کو کوئی یقین دہانی کیوں دیں گی۔

میں نہیں سمجھتا سپریم کورٹ اس وقت کسی مصالحت کی پوزیشن میں ہے۔ عدلیہ کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ ملک کے بڑے اسٹیک ہولڈرز اس وقت ملک میں انتخابات کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس میں مقتدر حلقہ بھی شامل ہیں۔ ایسے میں عدلیہ ایک سیاسی جماعت کے لیے کس حد تک جا سکتی ہے، عدلیہ جتنا آگے جائے گی تنازعہ اتنا ہی بڑھے گا۔

بہر حال دو معزز ججز کے اختلافی نوٹ کو اتنی آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ نوٹ کسی سیاسی جماعت کا نہیں ہے۔ یہ کوئی سیاسی تقریر نہیں ہے۔ بلکہ ایک عدالتی فیصلہ ہے۔ چیف جسٹس پاکستان اس کو نظر انداز کیسے کر سکتے ہیں۔ انھیں اس کے تدارک کے لیے اقدمات کرنا ہوںگے۔ اس معاملہ کو جتنا نظر اندازکیا جائے گا بحران اتنا ہی بڑھے گا۔

میں اب بھی سمجھتا ہوں ملک میں ایک ہی دن انتخابات ہی سیاسی مفاد ہے، اگر ایک دن میں انتخاب نہیں ہونا تو نگران حکومتوں کا تصور ہی ختم ہو جاتا ہے۔

اس لیے سپریم کورٹ کو سیاسی زمینی حالات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ سپریم کورٹ کو ملک میں ایک دن انتخابات کی طرف ہی جانا چاہیے۔ ایک سیاسی جماعت کی خاطر ملک کا سیاسی منظر نامہ تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔

یہ سوال اپنی جگہ موجو دہے کہ اگر سپریم کورٹ انتخابات کا کہہ بھی دے تو کیا ہوجائیں گے، پہلے بھی کہا گیا ہے لیکن نہیں ہوئے۔ اس لیے ایسے فیصلے جو قابل قبول نہ ہوں ان کو دوبارہ دیکھنا ہوگا۔ ان پر سخت موقف کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

دونوں طرف لچک دکھانا ہوگی۔ عدلیہ کو بھی لچک دکھانا ہوگی۔ بنچ فکسنگ پر لچک دکھانا ہوگی۔ فل کورٹ پر لچک دکھانا ہوگی، اسی سے درجہ حرات نیچے آئے گا۔ ورنہ بڑھتا جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔