پیٹ کے کیڑے

سعد اللہ جان برق  جمعرات 30 مارچ 2023
barq@email.com

[email protected]

ادبی لطائف میں ایک لطیفہ ہے کہ ایک مرتبہ حفیظ جالندھری بیمارہوگئے تو ایک جاننے والے حکیم کے پاس گئے، اس حکیم کا نام اب یاد نہیں آرہا ہے لیکن وہ بھی شاید شاعر وادیب تھے۔

حفیظ صاحب نے اپنی تکلیف بتا دی اورحکیم نے معانئے کے بعد دوا دی اور دواکے ساتھ پرہیز بھی بتادیا کہ کوئی دماغی کام مت کرو۔ حفیظ صاحب نے کہا کہ میں تو آج کل ’’شاہنامہ اسلام‘‘ لکھ رہا ہوں۔

اس پر حکیم نے کہا ، خیر وہ کرو لیکن دماغی کام مت کرو۔یہ لطیفہ دراصل نیا نہیں ہے، حکیم بقراط یا لقمان کے پاس بھی ایسا ہی مریض آیا تھا، حکیم نے دوا دے کر یہی پرہیز بتادیا کہ دماغی کام مت کرو۔ شاعرنے کہا میں شاعری کرتا ہوں۔ حکیم نے کہا وہ خیر ہے کرو لیکن دماغی کام مت کرو۔

ایک روزکچھ دیہاتی لوگ ایک بچے کو لے آئے، عجیب وغریب بچہ تھا ،لواحقین نے اس کی عمر بیس سال بتائی ،حالانکہ وہ چھ سات سال کابچہ دکھائی دیتاتھا ،چھوٹا سا چہرہ جس پر معصومیت نہیں معمر پن زیادہ تھا آنکھیں دورکہیں چلی گئی تھیں۔

کاغذی ناک اورکان ۔ پتلے پتلے ہاتھ پاؤں اور سرسوں کے پھول جیسا زرد چہرہ البتہ پیٹ اتنا تھا کہ گلے سے لے کر ناف تک پیٹ ہی پیٹ تھا ۔ حکیم نے اس کا معائنہ کیا،حالات سنے اور پھر مسکرا کر بولا ۔یہ تو پورا پاکستان ہے ، نہ ہم سمجھے نہ مریض کے لواحقین ۔پوچھا کیسا پاکستان ؟ حکیم صاحب بولے، وہ اس طرح کہ اس کے پیٹ میں باقاعدہ کیڑوں کی کالونی آباد ہے اور اندر ہی اس کا خون چوس رہے ہیں۔

لواحقین نے بھی تصدیق کی کہ کھاتا بہت ہے، ہروقت کچھ نہ کچھ کھاتا رہتاہے لیکن پھر بھی اس کے جسم کو نہیں لگتا۔حکیم صاحب نے کہا لگے گا بھی نہیں۔ لواحقین نے بتایا کہ ہم نے اسے علاج کے لیے بہت پھرایا اورکئی کئی بار اسے کیڑوں کی دوائیں بھی دے چکے ہیں لیکن کوئی اثر نہیں ہوتا۔ حکیم صاحب بولے ہوگا بھی نہیں، کیوں کہ اس کے پیٹ کے کیڑے اب بلاخور بھی ہوچکے ہیں جو دوا اسے کیڑے مارنے کے لیے دی جاتی ہے وہ دوا بھی یہ کیڑے ہڑپ کر لیتے ہیں ۔تو اب اس کاعلاج کیسے ہوگا۔

آپ کے پاس کوئی نسخہ ہے ؟ حکیم صاحب نے کہا ،اب اس کاعلاج میں تو کیا ،حکیم ’’لقمہ خان‘‘ بھی نہیں کرسکتا اب اس کا واحد علاج آپریشن ہے کوئی ماہرسرجن ہی اس کے پیٹ کے کیڑے نکال لے اور دور پھینک دے تو افاقہ ممکن ہے ورنہ ۔

ہاتھ دھو دل سے یہی اگر شکم میں ہیں

آبگینہ تندی صہبا سے پگھلا جائے ہے

یہ بد بخت کیڑے اس کی جان لے کر رہیں گے کیوں کہ اب یہ پاکستان بن چکا ہے۔لواحقین میں سے ایک بزرگ نے کہا ،ضرور یہی بات ہوگی جب یہ پید ا ہوا تو اچھا بھلا تھا لیکن چند سال ہی میں یہ اپنے والدین کو کھا گیا، اس کے بعد یہ بڑھتا رہا، ماں باپ کا کمایا ہوا اندوختہ کھا گیا، ساری جائیداد ہڑپ کر گیا اور اب قرض لے کر ہڑپ رہا ہے ،قرضہ اور سود بڑھ رہاہے اس کا پیٹ پھول رہاہے اور رنگ پیلا پڑ رہا ہے ۔

اب کیا ہوگا ؟ ایک شخص نے کہا ،حکیم صاحب ہم آپ کے پاس آئے ہیں کچھ تو دوا دارو بتائیں ۔حکیم نے کہا لیکن فائدہ کیا؟ وہ دوا دارو بھی اس کے پیٹ کے کیڑے ہڑپ کرلیں گے اور مزید طاقتور ہوجائیں گے ۔ مایوس ہوکر مریض کو لواحقین لے گئے ، نہ جانے کہاں، اوراب وہ کس حال میں ہوگا ،یہ پتہ نہیں چلا ،کہ اس کا کیا بنا ؟ لیکن کیڑوں کا سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے کہ جب تک دنیا میں پیٹ رہیں گے تب تک پیٹ کے کیڑے بھی رہیں گے۔

بچپن میں ہمارے والد صاحب کی اتنی استطاعت تو نہیں تھی کہ بھینس خرید سکیں چنانچہ انھوں نے کٹڑی خریدی کہ اسے پالیں گے اور ایک دن بھینس بن جائے گی ،گھر کے چھوٹے بڑے سب اس مستقبل کی بھینس کو پالنے لگے، جہاں اس کے کھانے کی کوئی چیز ہاتھ لگتی فوراً لاکر اس کے آگے ڈال دیتے ،چھان بورا ارد گرد کے گھروں والے بھی دینے لگے ،بچی ہوئی روٹی بھی اسے خوب کھلائے جانے لگی اور مستقبل کی وہ بھینس بھی اپنی اتنی خاطر مدارات دیکھ کر بلاخور ہوگئی جو بھی ملتا چٹ کرجاتی۔

کچھ عرصہ بعد ہم نے محسوس کیا کہ مستقبل کی وہ بھینس نہ فربہ ہورہی ہے ،نہ بڑھ رہی ہے ،ہم اور زیادہ کھلانے لگے اور وہ زیادہ بسیار خور ہوگئی لیکن جتنی تھی اس سے آگے ایک بوٹی بھی بڑھ کرنہیں دے رہی تھی ،البتہ اس کا پیٹ پھولتے پھولتے زمین سے جالگا تھا ۔

گاؤں میں ایک شخص جانوروں کے علاج معالجے میں مشہور تھا ، والد صاحب نے ان کو دکھایا تو انھوں نے دیکھتے ہی بتا دیا کہ اس کے پیٹ میں تو کیڑے ہیں اور یہ بھی بتا دیا کہ کوئی بھی جانورہوچھ مہینے میں اسے ایک مرتبہ کیڑوں کی دوا دینی چاہیے ، اورجب کٹڑی کو اس کا دیا ہوا نسخہ کھلایا تو دوسرے دن اس کے گوبر میں گوبر کم اورکیڑے زیادہ تھے ۔آپس میں گتھے ہوئے کیڑوں کے گولے نکلنے لگے اور پھر کچھ ہی دنوں میں وہ کٹڑی بہ فربہ اندام بھینس بن گئی۔

لیکن یہ سامنے جو مریض ہے اور جس کے پیٹ میں کیڑوں کی کالونیاں آباد ہیں اس کا علاج ممکن نہیں، اس لیے ٹھیک نہیں ہو رہا ہے کہ ایک تو گاؤں میں کوئی اچھا سلوتری ہے اور نہ کوئی کیڑے مار دوا۔ اوراب اتنی مدت گزرگئی ہے کہ اس کے پیٹ کے کیڑے ’’ریزسٹ‘‘ ہوگئے ہیں کوئی عام دوا تو اس پر اثر ہی نہیں کرتی اورکوئی خاص دوا کوئی دے نہیں رہا ہے ۔

’’مریض وارم‘‘پررحمت خداکی

مرض بڑھتاگیا جوں جوں دواکی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔