پارلیمان کی قرارداد اور مجوزہ قانون سازی

مزمل سہروردی  جمعرات 30 مارچ 2023
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ پارلیمان نے عدلیہ کے حوالے سے قرار داد منظور کر لی ہے۔ میں گزشتہ کئی دن سے یہ بات لکھ رہا ہوں کہ اگر حالات کو کنٹرول نہ کیا گیا تو پارلیمان اور عدلیہ کے درمیان تنازعہ محاذ آرائی میں بدل جائے گا۔

پارلیمان کی کارروائی کو ایک خاص قانونی اور آئینی تحفظ حاصل ہے۔ اس لیے اگر پارلیمان عدلیہ کے خلاف بھی قرارداد منظور کر لے تب بھی عدلیہ پارلیمان یا پارلیمان کے کسی رکن کو توہین عدالت کا نوٹس نہیں دے سکتی۔

اسی لیے ہم نے پارلیمان میں عدلیہ مخالف تقاریر سنی ہیں۔ ارکان پارلیمنٹ نے بھی عدلیہ کے خلاف تقاریر کی ہیں۔ لیکن عدلیہ ان تقاریر پر توہین عدالت کی کارروائی نہیں کر سکتی۔ اس لیے پارلیمان میں کی جانیوالی گفتگو کواس طرح نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی پارلیمان میں عدلیہ کے کردار کے حوالے سے خطاب کیا ہے۔ ان کے خطاب سے حکومت کی پالیسی واضح ہو گئی۔ قرار داد اس کے بعد آئی۔ شہباز شریف ویسے تو مفاہمت کی پالیسی کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔

وہ نظریاتی طور پر محاذ آرائی کی سیاست کے حامی نہیں ہیں، وہ سب کے ساتھ ملکر چلنے کے داعی ہیں۔ لیکن ان کے خطاب میں بھی اب محاذ آرائی غالب نظر آئی ہے۔ انھوں نے جہاں عمران خان سے کسی بھی قسم کی بات چیت کے امکان کو مسترد کیا۔ وہاں انھوں نے عدلیہ کے حوالے سے تحفظات کا بھی کھل کر اظہار کیا۔

انھوں نے جیوڈیشل ایکٹوزم کی بھی بات کی۔ حال ہی میں منظر عام پر آنے والی ججز کی آڈیوز پر بھی کارروائی کا چیف جسٹس سے مطالبہ اس خطاب میں شامل تھا۔ شہباز شریف نے کہا کہ جب وہ اکیلے کوئی فیصلہ نہیں لے سکتے اور انھیں فیصلوں کے لیے کابینہ کی منظوری درکار ہوتی ہے تو پھر اداروں میں ایک فرد کے فیصلے کیسے چل سکتے ہیں۔ انھیں بھی اپنی کابینہ کی منظوری کا پابند ہونا چاہیے۔

پارلیمان کی قرارداد اور وزیر اعظم کے خطاب میں جسٹس منصور علی شاہ اور ان کے ساتھی جج کے اختلافی نوٹ کا بھی بار بار ذکر کیا گیا۔ قرار داد میں تو یہ بھی کہا گیا ہے کہ پارلیمان سمجھتا ہے کہ سوموٹو کا فیصلہ چار تین سے تھا۔

اب جب پارلیمان کی قرارداد میں اس بات کی توثیق کی گئی ہے کہ سوموٹو کے خلاف فیصلہ چار تین سے تھا تو اب چیف جسٹس کے پاس کیا آپشن ہیں۔ کیا پارلیمان کی قرارداد کو یکسر نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ کیا عدلیہ کو پارلیمان کی قرارداد کو نظر انداز کر دینا چاہیے۔

میں نہیں سمجھتا ایسا ہونا چاہیے۔ عدلیہ کو سمجھنا چاہیے کہ پارلیمان کی بھی ایک مقدس حیثیت ہے، عدلیہ کی بھی ایک مقدس حیثیت ہے۔لیکن دونوں ایک دوسرے کی مقدس حیثیت کو چیلنج کریں توکیا ہوگا۔یہ طے کرنا مشکل ہے کہ دونوں میں زیادہ مقدس کون ہے۔ بہر حال دونوں کو ایک دوسرے کی مقدس حیثیت کا احترام کرنا چاہیے۔ جو نظر نہیں آرہا۔ یہ ٹھیک نہیں ہے۔

سوموٹو کے حوالے سے پارلیمان میں قانون سازی بھی شروع ہو گئی ہے۔ اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں کہ سوموٹو کے اختیار کو سپریم کورٹ میں بہت غلط استعمال کیا گیا۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر سو موٹو لیا گیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ سو موٹو کا اختیار استعمال کرنے میں بہت غیر ذمے داری کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔

اس لیے اب ایک ماحول بن گیا ہے کہ اس اختیار کے لیے نئے قواعد بنائے جائیں۔ حکومت کی مجوزہ قانون سازی میں اب یہ تجویز کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دو ساتھی سینئر ترین ججز کے ساتھ ملکر یہ اختیار استعمال کریں، میں نہیں سمجھتا کہ یہ کوئی بری بات ہے۔ اس سے عدلیہ کی آزادی پر کوئی بھی حرف نہیں ہے۔ یہ اختیار کوئی عدلیہ سے واپس نہیں لیا جا رہا بلکہ اس کو ریگولیٹ کیا جا رہا ہے۔

ویسے تواختلافی نوٹ میں بھی سوموٹو اختیار کو ریگولیٹ کرنے کی بات کی گئی ہے۔ یہ درست ہے کہ اس کا بہترین فورم فل کورٹ ہی ہے۔ لیکن سپریم کورٹ میں تین سال سے فل کورٹ کی کوئی روایت ہی نہیں ہے۔

اگر سپریم کورٹ کا فل کورٹ اجلاس ہی تین سال نہیں ہوگا تو کیا کسی اور کو بھی کام کرنے کی اجازت نہیں۔ یہ بحث بھی اہم ہے کہ کیا پارلیمان سپریم ہے کہ نہیں۔ اگر پارلیمان سپریم ہے تو پارلیمان کو قانون سازی کرنے کا حق ہونا چاہیے۔

عدلیہ پارلیمان کا یہ حق کیسے چھین سکتی ہے۔ اگر پارلیمان کوئی قانون بنائے جس سے عدلیہ کی آزادی پر کوئی حرف نہ آئے تو ایسے قانون میں کیا برائی ہے۔ بلکہ عدلیہ کو ایسی قانون سازی کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے ۔ اگر عدلیہ خود اصلاحات نہیں کرے گی تو پارلیمان کو بھی اصلاحات کرنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے۔

سوموٹو کے حوالے سے قانون سازی عدلیہ کی آزادی پر حملہ نہیں۔ اس سے ججز کو آزادانہ فیصلوں سے کسی بھی طرح نہیں روکا جا رہا ہے۔ بلکہ اس سے آزاد حیثیت مضبوط ہوگی۔ جب تمام اختیارات فرد واحد کے ہاتھ میں چلے جائیں تو آزادی محدود ہو جاتی ہے۔

اس لیے جب اختیارات اجتماعی ہو جائیں گے تو ان کے استعمال میں زیادہ شفافیت ہو گی۔ یہ ضد کیوں ہے کہ چیف جسٹس اکیلے ہی سوموٹو کا اختیار استعمال کریں۔ اگر تین جج ملکر استعمال کریں گے تو کیا حرج ہے۔ میری رائے میں سپریم کورٹ کو اس قانون سازی کو خوش آیند قرار دیکر اسے فوری قبول کرنا چاہیے۔

اس میں نظام انصاف کی بہتری ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ بنچ فکسنگ پر بھی اگر سپریم کورٹ نے از خود کوئی اصلاحات نہ کیں تو اس پر بھی پارلیمان سے قانون سازی سامنے آسکتی ہے۔

یہ سوال موجود ہے کہ سینئر ججز کو اہم کیسز کے بنچز سے باہر کیوں رکھا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ سے انتخابات کے معاملے پر فل کورٹ بنانے کی درخواست کی جا رہی ہے۔ اس سے انکار نا قابل فہم ہے۔ لیکن انکار بحران کو بڑھا رہا ہے۔

یہ سوال بھی اہم ہے کہ اگر سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ آئین کے خلاف ہو تو پھر کیا کیا جائے۔ ماضی میں ایسے فیصلے سامنے آئے ہیں جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس میں آئین کو دوبارہ لکھ دیا گیا۔

آئین کو دوبارہ لکھنے کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس نہیں ہے۔ لیکن اس کا حل ابھی کسی کے پاس نہیں ہے، لیکن اگر سپریم کورٹ اس کا حل نہیں نکالتی۔ تو پھر پارلیمان سے اس کا حل سامنے آئے گا۔ پھر کہا جائے گا پارلیمان عدلیہ کے معاملات میں مداخلت کر رہی ہے۔ لیکن جب عدلیہ خود مسائل حل نہیں کرے گی تو پھر کسی کو تو حل کرنا ہیں۔

میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ سپریم کورٹ کو فوری اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اس میں تاخیر ملک میں بحران کی بنیادی وجہ ہے۔ یکساں نظام انصاف کو سیاسی مقدمات میں بھی قائم رکھنا زیادہ ضروری ہے۔ اگر سیاسی معاملات میں یکساں انصاف نہیںہو گا تو پھر پلڑے کے برابر نہ ہونے کی بات ہوگی، جو آجکل ہو بھی رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔