- نیدرلینڈز میں قرآن پاک کی بےحرمتی، پاکستان کی شدید الفاظ میں مذمت
- بابراعظم کے بعد امام الحق کا بھی ٹریفک چالان
- بی جے پی کے دور حکومت میں سب سے زیادہ مسلم مخالف جرائم پیش آئے، بلومبرگ
- مریضوں کی بینائی جانے کے بعد سندھ میں بھی ایواسٹن انجکشن پر پابندی عائد
- الیکشن سے پہلے دما دم مست قلندر ہوگا، بعض باہر تو کچھ جیل میں ہونگے، منظوروسان
- نادرا نے خواجہ سراؤں کی رجسٹریشن کا عمل دوبارہ شروع کردیا
- پاکستان ویٹرنز کرکٹ ٹورنامنٹ کے سیمی فائنل میں پہنچ گیا
- 2000 سال پرانا بچے کا جوتا بندھے ہوئے فیتوں کے ساتھ دریافت
- پی ایس ایل کے نویں ایڈیشن میں کسی ٹیم کا اضافہ نہیں ہوگا
- کرکٹربابراعظم کو لائسنس نہ ہونے پر 2 ہزار روپے جرمانہ
- شرح مبادلہ کو ایکسچینج کمپنیوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا، یونس ڈھاگا
- طالبان کا داعش کی نگرانی کیلئے امریکی منصوبے کو اپنانے کا فیصلہ
- کراچی میں تیزاب گردی کا واقعہ؛ ’ذاتی دشمنی‘ پر ملزم نے خاتون کو نشانہ بنایا، پولیس
- بھارت نے پاکستان کرکٹ ٹیم کو ویزے جاری کردیے
- الیکشن کمیشن نے سندھ میں ضمنی بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری کردیا
- بھارتی انتہاپسندوں کے مظالم کا شکار ہونے والے مسلمان باپ بیٹا کراچی پہنچ گئے
- اسرائیلی پولیس کی سرپرستی میں یہودی آباد کاروں نے مسجد اقصیٰ پر حملہ کر دیا
- نیند میں کمی قلبی صحت پر منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے
- ڈالر کی گراوٹ کا رجحان جاری، انٹربینک میں مزید سستا ہوگیا
- نگراں وزیراعلیٰ کی یقین دہانی پر جامعہ کراچی کے اساتذہ کی ہڑتال ختم
جانورغائب گوشت حاضر، میمتھ کے ڈی این اے سے گوشت کا گولہ تیار

آسٹریلوی کمپنی نے ہزاروں برس قبل معدوم ہونے والے میمتھ کے ڈی این اے سے گوشت تیار کیا ہے۔ فوٹو: اے پی
ایمسٹر ڈیم، ہالینڈ: ایک عرصے قبل ناپید ہونے والے ہاتھی ’میمتھ‘ کے ڈی این اے کی جینیاتی تدوین کے بعد اس سے گوشت کا ایک بڑا کوفتے نما گولہ بنا لیا گیا ہے۔
آسٹریلوی کمپنی نے ایک نوجوان میمتھ کے ڈی این اے سے جو گوشت اخذ کیا ہے، فی الحال وہ ناقابل تناول ہے تاہم اس سے ایک نئی عوامی بحث چھڑ چکی ہے کہ آیا گوشت تجربہ گاہ میں بنایا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اسٹارٹ اپ کمپنی ’واؤ‘ کے سربراہ نے بتایا کہ یہ اپریل فول کا لطیفہ نہیں بلکہ حقیقی اختراع ہے جس کی تقریبِ رونمائی ایمسٹرڈیم کے ایک میوزیئم میں کی گئی ہے۔
کمپنی کے بانی ٹِم نواک اسمتھ کے مطابق اسے ’خلیات سے اخذ کردہ گوشت‘ کہا جاسکتا ہے کیونکہ اسے تجربہ گاہ میں کلچر کیا گیا ہے۔ اس کے لیے کسی جانور کو مارا نہیں گیا ہے کیونکہ یہ عمل ماحول اور خود جانور کے لیے بہت مفید ہوسکتا ہے۔
میمتھ کی جینیاتی معلومات حاصل کرکے باقی معلومات کو اس کے قریبی جانور سے لیا گیا جو افریقی ہاتھی ہے۔ پھر اس ڈی این اے کو بھیڑ کے خلئے میں شامل کیا گیا۔ تجربہ گاہ میں مناسب ماحول کے بعد خلیات (سیلز)بڑھنے لگے اور بڑھتے بڑھتے گوشت کا ٹکڑا بن گئے۔
تاہم اب بھی یہ کمرشل گوشت کا مرحلہ بہت دور ہے کیونکہ یہ عمل اس وقت بھی بہت مہنگا ہے۔ فی الحال سنگاپور دنیا کا واحد ملک ہے جس نے خلیات سے گوشت بنانے اور بیچنے کی اجازت دیدی ہے۔
کمپنی نے اسے گوشت کا ماحول دوست مستقبل قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق اس کے لیے بڑے بڑے فارم اور بے تحاشہ جانوروں کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ جانوروں کے خلیات سے ہی گوشت بنایا جاسکے گا۔ اس سےقبل ماہرین خلیات سے تیار گوشت کا کباب بنا کر پیش کرچکے ہیں۔
چونکہ میمتھ کی لاشیں برف میں منجمند ملی ہیں تو اسی وجہ سے ان میں خون اور ڈی این اے کے نمونے بہتر حالت میں ہوتے ہیں اور انہی سے ڈی این اے نکالا جاتا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔