روح پرور نعتیں اور فلمی گلوکار و گلوکارائیں

یونس ہمدم  جمعـء 31 مارچ 2023
فوٹو: روزنامہ ایکسپریس 
hamdam.younus@gmail.com

فوٹو: روزنامہ ایکسپریس [email protected]

مجھے امریکا آئے ہوئے بیس سال سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے، سب سے اچھی بات یہاں پر یہ ہے کہ یہاں پر انسان کے بنیادی حقوق کی حفاظت کی جاتی ہے اور سب کو یہاں مذہبی آزادی حاصل ہے، یہاں جتنے مذاہب کے لوگ بستے ہیں وہ اپنے مذہبی تہوار بڑی دھوم دھام سے مناتے ہیں۔

عیسائیوں کے علاوہ ہندو، سکھ اور مسلم اپنی اپنی عبادت گاہوں میں پابندی سے جاتے ہیں اور ان کی عبادت گاہوں کو بڑے اچھے انداز سے سیکیورٹی بھی فراہم کی جاتی ہے۔ یہاں امریکا میں ماہ رمضان شروع ہوتے ہی صارفین کے لیے سستے بازار بھی لگائے جاتے ہیں اور اسٹورز اور گروسری کی دکانوں میں رعایتی نرخ پر خاص طور پر مذہبی تہواروں کے مواقع پر اشیا فروخت کی جاتی ہیں۔

ان سب سہولتوں کے باوجود ہمیں اپنے وطن کے تہوار شدت سے یاد آتے ہیں، خاص طور پر رمضان کا مہینہ تو بہت ہی یاد آتا ہے، جب ہم بچپن میں اپنے سر پر ٹوپی رکھے والد صاحب کے ساتھ تراویح پڑھنے محلے کی مسجد میں جایا کرتے تھے۔

ہماری والدہ ہمیں کبھی کبھی ایک طشت میں افطاری سجا کے دیتیں اور کہتی تھیں جاؤ مسجد میں جا کر دے آؤ۔ پھر جیسے ہی رمضان کا چاند نظر آتا تھا، گلیوں اور بازاروں میں چہل پہل شروع ہو جاتی تھی، گھر میں ہمارے ایک بہت پرانا ریڈیو تھا، جس پر گھر کے لوگ پروگرام سنا کرتے تھے اور جیسے ہی رمضان کا آغاز ہوتا تھا والد صاحب کا نادر شاہی حکم صادر ہوتا تھا، آج سے ریڈیو پر صرف نعتیں اور قوالیاں ہی سنی جائیں گی، خبردار جو کسی نے دن میں گانے اور رات میں ڈرامے لگائے اور پھر اس حکم پر پابندی کے ساتھ سارے مہینے عمل کیا جاتا تھا۔

آس پاس کے سارے گھروں میں ریڈیو سے نعتیں اورگانے بھی نشر ہوتے رہتے تھے۔ رمضان میں آل انڈیا سے بھی ریڈیو پر نعتیں بھی نشر ہوتی تھیں، جیسے ہی کسی گھر سے شمشاد بیگم کی آواز میں ایک مشہور نعت جو اکثر و بیشتر ریڈیو پر آتی تھی وہ نعت شروع ہوتے ہی ہماری والدہ ہم سے کہتی تھیں ارے یونس! جلدی سے یہ نعت لگا، یہ انڈیا کے ریڈیو سے آ رہی ہے اور میں ان کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے آل انڈیا ریڈیو لگا دیتا تھا، پھر وہ نعت ہماری والدہ بڑے خشوع و خضوع سے سنا کرتی تھیں۔ اس نعت کے بول تھے:

پیغام صبا لائی ہے گلزار نبیؐ سے

آیا ہے بلاوا مجھے دربار نبیؐ سے

ہر آہ گئی عرش پہ یہ آہ کی قسمت

ہر اشک پہ کھلتی ہے ہر اشک کی قسمت

تحفہ یہ ملا ہے مجھے سرکارِ نبیؐ سے

آیا ہے بلاوا مجھے دربار نبیؐ سے

یہ نعت سنتے ہوئے میری والدہ کی آنکھیں بھیگ جاتی تھیں اور پھر جیسے ہی یہ نعت ختم ہوتی تھی والدہ جلدی سے اپنے دوپٹے کے آنچل سے آنکھیں پونچھ لیتی تھیں۔ یہ نعت اس زمانے میں سارے ہندوستان اور پاکستان میں بڑی مقبول ہوئی تھی اور اس نعت کو پہلی بار شمشاد بیگم نے ریڈیو کے لیے ریکارڈ کرایا تھا۔

یہ نعت اپنے دور کے مشہور شاعر اور ہدایت کار ولی صاحب نے لکھی تھی اور اس دور کے ریڈیو پشاور اور پھر ریڈیو لاہور کے اسٹیشن ڈائریکٹر سرور سجاد نیازی نے کمپوز کی تھی اور یہ وہی سرور سجاد نیازی تھے جن کی دو بیٹیوں ناہید نیازی اور نجمہ نیازی نے گائیکی کی دنیا میں بڑی شہرت حاصل کی تھی۔

اب میں آتا ہوں گلوکارہ شمشاد بیگم کی طرف، جسے ایک نعت کی مقبولیت نے بمبئی کی فلم انڈسٹری تک پہنچا دیا تھا۔ شمشاد بیگم نے موسیقی کی تعلیم کسی استاد سے حاصل نہیں کی تھی۔ اس کی آواز میں قدرتی سر موجود تھے، جب شمشاد بیگم گیارہ بارہ سال کی تھی تو یہ اپنی سہیلیوں میں گھل مل جاتی اور فلمی گیت گنگناتی تھی۔ اس کی آواز کی خوبصورتی کا جب اس کی اسکول ٹیچر کو پتا چلا تو انھوں نے اس کی آواز میں کچھ گیت سنے اور پھر کیا اب کل سے تم اسکول کے آغاز میں جو گیت گایا جاتا ہے تم وہ گیت گاؤ گی، بلکہ وہ گیت اب تم ہی لیڈ کرو گی۔

شمشاد بیگم کا گھرانہ بھی بڑا مذہبی گھرانہ تھا۔ شمشاد بیگم کے گھر کے آس پاس کئی ہندو گھرانے بھی تھے، وہ محبت اور میل ملاپ کا دور تھا، ایک دوسرے کے مذہب کا خوب احترام کیا جاتا تھا، آل انڈیا ریڈیو سے نعتوں کے پروگرام بھی پیش کیے جاتے تھے اور اسی زمانے میں گلوکار محمد رفیع کی آوازوں میں حمدیہ کلام اور نعتیں نشر ہوتی تھیں۔ محمد رفیع نعتوں کے ساتھ ہندو دھرم کا خیال رکھتے ہوئے بھجن بھی گاتے تھے اور ان کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ جب فلموں میں بطور پلے بیک سنگر آئے تو انھوں نے نعت اور بھجن کی ریکارڈنگ کے لیے کبھی کسی فلم ساز سے پیسے نہیں لیے تھے۔ ان دنوں محمد رفیع کی آواز میں کئی نعتوں کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔ خاص طور پر مندرجہ ذیل نعتیں:

اگر کملی والے کی رحمت نہ ہوتی

تو قسمت کے ماروں کا کیا حال ہوتا

رسول خداؐ کا سہارا نہ ملتا

تو ہم بے سہاروں کا کیا حال ہوتا

اگر مل گئی مجھ کو راہِ مدینہ

محمدؐ کا نقشِ قدم چوم لوں گا

محمد رفیع کے علاوہ مشہورگلوکارہ لتا منگیشکر بھی مذہبی رواداری میں ہمیشہ پیش پیش رہتی تھی اور ماہ رمضان میں اس کی آواز میں بھی آل انڈیا ریڈیو سے کئی نعتیں نشر ہوتی رہتی تھیں، خاص طور پر ایک نعت کو تو بڑی شہرت ملی تھی جس کے بول تھے:

دل کی کشتی بھنور میں آئی ہے

کملی والے تری دہائی ہے

اور پھر لتا منگیشکر کی آواز میں فلم ’’مغل اعظم‘‘ کی ایک روح پرور نعت کو کبھی فراموش کیا ہی نہیں جاسکتا ہے جو اداکارہ مدھوبالا پر فلمائی گئی تھی، جس کے بول شاعر شکیل بدایونی نے لکھے تھے:

بے کس پہ کرم کیجیے سرکارِ مدینہ

گردش میں ہے تقدیر بھنور میں ہے سفینہ

لتا منگیشکر ایک عظیم گلوکارہ ہونے کے ساتھ ایک مذہب پرست اور سادگی پسند عورت تھی، اپنی ساری زندگی وہ سفید ساڑھی ہی پہنتی رہی تھی ایک بار لتا منگیشکر نے اپنی اس خواہش کا بھی اظہار کیا تھا کہ وہ پاکستان کے عوام کے لیے پاکستان جا کر اپنا پروگرام کرنا چاہتی تھی اور لتا منگیشکر کی اس خواہش کا احترام کرتے ہوئے کراچی کی ایک ثقافتی انجمن ایک بڑے اخبار کے تعاون سے لتا منگیشکر کے میوزک کنسرٹ کا انتظام کرلیا گیا تھا مگر پروگرام کی تاریخ اناؤنس کرنے کے بعد بعض نام و نہاد مذہبی تنظیموں کی مخالفت کے بعد یہ پروگرام کینسل کردیا گیا تھا۔

ہندوستان کی فلمی گلوکاروں کے علاوہ پاکستان کے فلمی گلوکاروں اور گلوکاراؤں نے بھی بے شمار نعتیں پرائیویٹ بھی اور فلموں کے لیے بھی گائی ہیں جن میں میڈم نور جہاں اور زبیدہ خانم کی آوازوں میں نعتوں کو بڑی مقبولیت حاصل رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔