- مصرکی سرحد کے قریب 3 اسرائیلی اہلکار ہلاک
- لاہور میں جنسی درندگی کے واقعات میں اضافہ، مزید 4 خواتین نشانہ بن گئیں
- بلوچستان حکومت نے ضلع گوادر کو ٹیکس فری زون قرار دے دیا
- رجب طیب اردوان نے تیسری مرتبہ ترکیہ کے صدر کا حلف اٹھالیا
- موسمیاتی شدت گندم کی پیداوار متاثر کرسکتی ہے
- چوری اور نفاست : بیکری سے چھ کیک چرانے والا فرش صاف کرکے فرار ہوگیا
- محکمہ صحت سندھ نے آغا خان ہسپتال کے اشتراک سے، جان بچانے کی تربیت کا آغاز کردیا
- 2005ء کے زلزلے میں لاپتا ہونے والا نوجوان بالاکوٹ پہنچ گیا
- پرویزالہی خاندانی طور پر واپس آسکتے ہیں سیاسی طور پر نہیں، چوہدری شافع
- یاسمین راشد کو کور کمانڈر ہاؤس حملہ کیس میں رہا کرنے کا حکم
- 5 سالہ بچے کے قتل کےتین مجرموں کو سزائے موت
- آسٹریا کی ایتھلیٹ سبرینا فلزموزر کا اسلام آباد سے کےٹو تک سائیکلنگ کا اعلان
- وزیراعظم کی ترکیہ میں کاروباری شخصیات سے اہم ملاقاتیں
- سونے کی عالمی اور مقامی قیمت میں کمی
- نادرا نے آنکھوں سے بائیو میٹرک کا نظام آئرس متعارف کرادیا
- امریکا نے سی آئی اے ڈائریکٹر کے خفیہ دورہ چین کی تصدیق کردی
- غفلت اور خامیوں سے بھرپور متنازع ڈیجیٹل مردم شماری
- جہانگیر ترین کے ساتھ ملکر چلنے پر اتفاق ہوا ہے، سردار تنویرالیاس
- کھلاڑیوں کو سہولیات میسر آئیں تو قوم کو مایوس نہیں کرینگے، کوچ ہاکی ٹیم
- ایشیاکپ کی میزبانی؛ پی سی بی، لنکن بورڈ کے تعلقات شدت اختیار کرگئے
استعفا دے کر مُکر جانا، پاکستانی عوام کیساتھ مذاق ہورہا ہے؟ اسلام آباد ہائیکورٹ

(فوٹو فائل)
اسلام آباد: چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت کے دوران اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ پہلے استعفا پھر مکر جانا،پاکستان کی عوام کے ساتھ مذاق ہو رہا ہے؟۔
پاکستان تحریک انصاف کے سابق رکن اسمبلی شکور شاد کی استعفا منظوری کے خلاف درخواست کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے درخواست گزار کے وکیل پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے استعفا دیا، اس پر دستخط کیے تھے؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ جی ہمارے دستخط تھے لیکن وہ استعفا پارٹی دباؤ میں دیا گیا تھا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا دستخط بس ایسے ہی کیے گئے؟ کیا کوئی مذاق ہے یہ ؟۔ کیا ہو رہا ہے، آج آپ یہ کر رہے ہیں، کل آپ ملک کے لیے کیا کریں گے؟۔ آپ آرٹیکل 62 پر کیسے پورا اتریں گے ؟۔ آپ اپنے لوگوں اور ووٹرز کے امانت دار ہیں، آپ کیا کر رہے ہیں؟۔9 مارچ کا آرڈر تھا کہ آپ نے اپنے استعفے سے انکار کیا، وہ لیٹر ہے آپ کے پاس ؟۔
وکیل نے جواب دیا کہ 29 جولائی کو استعفا منظور ہوا، اس عدالت نے ستمبر میں فیصلہ معطل کیا۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آپ کے دستخط اصلی نہیں تھے؟، جس پر وکیل نے کہا دستخط تو اصلی تھے، مگر پارٹی پالیسی پر استعفا دیا تھا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ استعفے پر پارٹی پالیسی کے خلاف جانے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ وہ تو منی بجٹ بل اور عدم اعتماد پر فرق پڑتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے پارٹی پریشر پر استعفا دے دیا، آپ ملک کے لیے کیسے اسٹینڈ لے سکتے ہیں ؟۔پہلے استعفا، پھر مکر جانا،پاکستان کی عوام کے ساتھ مذاق ہو رہا ہے؟۔کیا آپ سسٹم کے ساتھ مذاق کر رہے ہیں،آپ سسٹم کو فن سمجھ رہے ہیں۔وکیل نے جواب میں کہا کہ ہم مانتے ہیں اصل اسٹیک ہولڈر عوام ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پھر مذاق بھی تو عوام ہی کے ساتھ ہو رہا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اسی طرح کی دیگر رِٹ پر بھی ابھی آنا ہے ہم نے کہ اس ملک میں کیا ہورہا ہے۔ وکیل نے بتایا کہ ہم نے اسپیکر قومی اسمبلی کو کہا کہ پارٹی پریشر پر استعفا دیا، مگر اسپیکر نے کہا کہ وہ جواب سے مطمئن نہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا اسپیکر نے ایسا کوئی لیٹر جاری کیا ہے؟چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ 3 مارچ 2023 کے لیٹر کو ریکارڈ پر لے کر آئیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارٹی لیڈر شپ نے آپ کو پریشرائز کیا، اس کے خلاف دعویٰ دائر کریں۔ رِٹ میں شہادتیں نہیں لے سکتا ۔ ہر چیز کو ہم نے مذاق بنا کر رکھ دیا ہے، آپ نے پورے ملک کے لیے قانون سازی کرنی ہوتی ہے۔ اس پر کیا سب کو شاباش ملنی چاہیے؟ آپ قبول کریں کہ آپ نے غلط کیا ہے۔
دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل اختر چھینہ اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل بھی عدالت میں پیش ہوگئے۔ عدالت نے شکور شاد کے استعفے منظوری کا اسپیکر کا آرڈر طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 28 اپریل تک ملتوی کردی۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارے پاس ایسے کیسز آجاتے ہیں اور اہم کیسز رہ جاتے ہیں۔قتل کی اپیلیں التوا میں ہیں اور ایسے کیسز آجاتے ہیں عدالت کا وقت ضائع کرنے ۔ وکیل نے کہا کہ ہم تو اس عدالت کے حکم پر عمل درآمد کروانے آئے ہیں جو اسپیکر نے مانا ہی نہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کسی پر تنقید نہ کریں، پہلے اپنا کنڈکٹ درست کریں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔