خانگی جھگڑے، رشتوں میں دوریاں اور صنفی امتیاز

راضیہ سید  ہفتہ 1 اپريل 2023
جب معاشرے کی بنیاد ہی غلط ہوگی تو معاشرے میں کجی تو ہوگی ہی۔ (فوٹو: فائل)

جب معاشرے کی بنیاد ہی غلط ہوگی تو معاشرے میں کجی تو ہوگی ہی۔ (فوٹو: فائل)

رضا صاحب کے گھر کے باہر ایک ہجوم تھا اور اندر سے ان کے بیٹے کی زور زور سے جھگڑا کرنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ رضا صاحب جوان بیٹے کو خاموش کروانے کی کوشش کرتے تو جواباً ان کے بیٹے کی آواز گھر کی دہلیز پار کر جاتی۔

’’ابا آخر مسئلہ کیا ہے؟ آپ نے آخر کتنا زندہ رہنا ہے، اماں بھی گزر گئیں، یہ دنیا عارضی ہے۔ اب آپ ہمیں ہماری زندگی گزارنے دیں۔ آج اس جائیداد کا فیصلہ کریں، میری بھی شادی کی عمر ہے، میری بھی کچھ ترجیحات ہیں آپ سمجھتے کیوں نہیں؟‘‘ جوان بیٹے کی گرجدار اور غصیلی آواز کے جواب میں رضا صاحب کی دبی دبی آواز آئی۔

’’بیٹا ابھی تو سلمیٰ کی شادی بھی نہیں ہوئی، بیٹی کا فرض ادا کرلوں تو پھر تمھاری فکر کروں۔ تم اس گھر کے بیٹے ہو کچھ اپنی ذمے داریوں کا احساس کرو۔ میرا جو کچھ بھی ہے وہ تم دونوں کا ہی تو ہے، تم تھوڑا تحمل سے کام لو اس قدر عجلت کی کیا ضرورت ہے؟‘‘

’’ابا سلمیٰ کی شادی کا میں نے ٹھیکہ تو نہیں لے رکھا، اگر اس کی شادی نہیں ہورہی، کوئی رشتہ نہیں آرہا تو اس میں میرا کیا قصور ہے؟ کیا میرے کوئی جذبات نہیں ہیں؟ اب میں کسی کنوئیں میں چھلانگ تو نہیں لگا سکتا۔ میرا تو آپ سے جائز مطالبہ ہے کہ آپ مجھے میرا حصہ دیں تاکہ میں نرمین کو بھی اپنا الگ گھر لے کر دے سکوں۔‘‘ حماد نے حمتی انداز میں کہا۔

’’اچھا تو دل کی بات زبان پر آہی گئی، نرمین یقیناً تمھارے آفس میں کام کرتی ہوگی‘‘۔ سلمیٰ بھی غصے سے بولتی ہوئی باہر آگئی۔ ’’تمھیں ابو کا کچھ خیال ہے کہ نہیں یا صرف اپنی ذمے داری پوری کرنے کےلیے میں ہی رہ گئی ہوں۔‘‘

پورا محلہ بہن بھائیوں کی لڑائی سے تنگ آگیا تھا۔ رضا صاحب کی طبعیت بھی بگڑ رہی تھی، انھیں احساس ہورہا تھا کہ بیٹی کے مقابلے میں انھوں نے بیٹے کو زیادہ اہمیت دے کر اپنے لیے کچھ اچھا نہیں کیا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اولاد کو نوالہ تو سونے کا کھلایا لیکن شیر کی نظر سے دیکھا نہیں۔ عمر کے اس آخری حصے میں انھیں احساس ہورہا تھا کہ انھیں بچوں پر، خصوصاً بیٹے پر ذمے د اریاں ڈالنی چاہیے تھیں اور بیٹی کو یوں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے تھا۔

یہ صورتحال ہر جگہ ہے کہ اکثر بچے والدین کو اپنے لیے بوجھ سمجھنے لگتے ہیں۔ ان کی نظر صرف والدین کی دولت پر ہوتی ہے کہ گویا زندگی میں ہی وارثت ان کو دے دی جائے، ماں باپ کی خدمت اور دیگر ذمے داریوں سے کسی طرح پہلوتہی کی جاسکے۔ یہ دہرا رویہ آخر کب ختم ہوگا؟

بیٹی ہو تو اس کے ہاتھ میں والد کی عزت ہوتی ہے، وہ پسند کی شادی تک نہیں کرسکتی جبکہ اس کا حق مذہب نے بھی دیا ہے، اگرچہ کہ اس میں والدین کی مرضی بھی شامل ہو۔ کتنی ہی لڑکیاں اور خواتین غیرت کے نام پر قتل کردی جاتی ہیں اور اس اندھے قتل کے ذمے دار ان کے اپنے ہوتے ہیں لیکن ان سے کوئی باز پرس نہیں ہوتی۔

لڑکوں کے معاملے میں ایسا نہیں ہوتا۔ وہاں ذات برادری، رنگ و نسل کو کوئی مسئلہ نہیں سمجھا جاتا کہ نسل تو بیٹے سے ہی چلے گی۔ بیٹا جوان ہوتے ہی شادی کے سپنے دیکھنے لگتا ہے، گھر والوں کو اپنے مطالبے سے آگاہ بھی کر دیتا ہے اور تو اور جائیداد کے کاغذ بھی اسی کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ جبکہ لڑکیوں کو کہا جاتا ہے کہ تمھیں تو خاوند کے ہاں سے بھی جائیداد میں حصہ ملے گا تم والد کی جائیداد پر صبر کرو۔ لڑکی خود سے یہ نہیں کہہ سکتی کہ میری بھی شادی کی عمر ہے لہٰذا میری شادی کردیں۔

اسی طرح جب شادی کے بعد اولاد نہ ہورہی ہو اور حتیٰ کہ شوہر بانجھ ہو تو علاج میں ٹال مٹول کی جاتی ہے۔ خاندان بھر میں یہی شور کیا جاتا ہے کہ ہماری بہو اولاد پیدا کرنے کے قابل نہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔ خواتین میں بانجھ پن کا مسئلہ صرف پانچ فیصد ہوتا ہے اور اصل مسئلہ مرد کے ساتھ ہوتا ہے لیکن مرد کے علاج کو انا کا مسئلہ بنا لیا جاتا ہے۔ بانجھ مرد کے ساتھ اس کی بیوی ساری عمر گزارا کرلیتی ہے لیکن اگر بیوی بانجھ ہو تو مرد فوری دوسری شادی کرلیتا ہے اور کئی خاندانوں میں پہلی بیوی کو طلاق بھی نہیں دی جاتی تاکہ ساری زندگی تندرست عورت بے اولادی کا طعنہ سہتی رہے۔

اب اگر تھوڑا آگے بڑھیں اور بیوہ اور رنڈوے کے مسئلے پر آئیں تو مرد تو فوری طور پر بیوی کے انتقال کے بعد شادی کرلیتا ہے اور یہ بات ہے بھی جائز کہ شرعی طور پر یہ کرنا باعث ثواب اور بہترین فیصلہ ہے لیکن کیا کسی بیوہ کےلیے ایسا سوچا جاتا ہے کہ اس کے بھی شرعی تقاضے ہیں، اس کی بھی خواہشات ہیں اور بیوہ اور مطلقہ کےلیے شادی کا پہلے حکم ہے۔

رنڈوے مرد کے بچے ہوں تو وہ اپنی اولاد کو بہت آسانی سے ساتھ رکھ لیتا ہے لیکن بیوہ عورت کے ساتھ تو اکثر شادی اسی شرط پر کی جاتی ہے کہ وہ اپنے بچے میکے میں چھوڑ کر آئے گی اور وجہ یہی بے بنیاد بتائی جاتی ہے کہ اس طرح وہ اپنی نئی خانگی ذمے داریاں درست طریقے سے سرانجام نہیں دے سکے گی۔

مرد اگر بدکردار ہو، شراب نوشی کرے، نشہ آور ادویہ کا استعمال کرے تو سب اس خاتون کو اپنے شوہر کے ساتھ نباہ کرنے کی تلقین کرتے ہیں، لیکن اگر یہی صورتحال عورت کے ساتھ ہو تو فوری طلاق دے دی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ بہت تلخ ہے لیکن حقیقت ہے۔ عورت اور مرد کےلیے معاشرے میں الگ الگ مقام ہیں، الگ الگ درجے ہیں اور یہ سب ہم نے ہی بنائے ہیں۔

مردوں اور عورتوں کی برابری کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ انھیں ایک دوسرے کے دوبدو کردیا جائے اور معاشرے میں بے لگام آزادی سے بگاڑ پیدا ہو۔ بلکہ خواتین اور مردوں کے مساوی حقوق سے مراد یہ ہے کہ مردوں کی طرح خواتین کو بھی نکاح ثانی، اپنی مرضی سے شادی کا حق، والد اور شوہر کی جائیداد میں حصہ دیا جائے اور طلاق کی صورت میں سب الزام ان پر ہی نہ دھر دیا جائے کیونکہ ہر وقت عورت قصوروار نہیں ہوتی بلکہ طلاق میں مرد کا بھی کردار ہوتا ہے۔

پہلے تو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ خواتین کوئی بھیٹر بکری نہیں بلکہ مردوں کی طرح انسان ہیں۔ ان کے بھی مردوں کی طرح حقوق ہیں، بے شک ان کی نوعیت مختلف ہے۔ عورت تو معاشرے کی اکائی ہے، جب معاشرے کی بنیاد ہی غلط ہوگی تو معاشرے میں کجی تو ہوگی ہی۔

معاشرے میں مردوں اور عورتوں کےلیے دہرا معیار کم ازکم موجودہ صدی میں ختم ہونا چاہیے، اس کےلیے آزاد خیالی کی نہیں بلکہ روشن خیالی اور بہترین تربیت کی ضرورت ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

راضیہ سید

راضیہ سید

بلاگر نے جامعہ پنجاب کے شعبہ سیاسیات سے ایم اے کیا ہوا ہے اور گزشتہ بیس سال سے شعبہ صحافت سے بطور پروڈیوسر، رپورٹر اور محقق وابستہ ہیں۔ بلاگز کے علاوہ افسانے بھی لکھتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔