پی ڈی ایم کا تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد، کارروائی کے بائیکاٹ کا فیصلہ

ویب ڈیسک  ہفتہ 1 اپريل 2023
(فوٹو فائل)

(فوٹو فائل)

 لاہور: حکومتی اتحاد پی ڈی ایم نے تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ملک میں ایک ہی دن الیکشن کے انعقاد کا مطالبہ کردیا جبکہ اتحادی جماعتوں نے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے بائیکاٹ اور یکطرفہ فیصلہ آنے پر مشترکہ لائحہ عمل اپنانے پر اتفاق کیا ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں کا اہم اجلاس لاہور میں منعقد ہوا جس میں ن لیگ کے قائد نواز شریف بھی ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوئے۔ ویڈیو لنک کے ذریعے ہونے والے اہم اجلاس میں شریک چیئرمین پیپلز پارٹی اور سابق صدر آصف علی زرداری، چیئرمین پی پی اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری، جے یو آئی اور حکومتی اتحاد پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، چوہدری سالک حسین، مریم نواز اور ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی بھی شریک ہوئے جب  کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد، سابق وزیراعظم نواز شریف نے بھی ویڈیو لنک کے ذریعے اہم اجلاس میں شرکت کی۔

اجلاس میں وزیر اعظم کی معاونت کے لیے شاہد خاقان عباسی، وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ، عطااللہ تارڑ، ملک احمد خان اور  اٹارنی جنرل سمیت دیگر رہنما بھی شریک رہے۔

مزید پڑھیں: پی ڈی ایم کے اجلاسوں اور اعلامیوں کی کوئی حیثیت نہیں، تحریک انصاف

اہم اجلاس میں ملک کی موجودہ سیاسی و آئینی صورت حال پر گفتگو کے علاوہ سپریم کورٹ میں پیدا ہونے والی صورت حال اوردو صوبوں میں انتخابات سے متعلق مشاورت بھی اہم اجلاس ے ایجنڈے میں شامل رہی۔

مشترکہ اعلامیہ

وزیر اعظم شہباز کی زیر صدارت اتحادی جماعتوں کےاجلاس نے واضح کیا اور چیف جسٹس پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ سپریم کورٹ کے بینچز میں اٹھنے والی اختلافی آوازوں کو ادارے کے سربراہ کے طورپر سنیں اور فی الفور فل کورٹ اجلاس کا انعقاد کریں۔ تاکہ ’وَن۔ مین۔شو‘ کا تاثر ختم ہو۔ اعلی ترین عدالت کی سوچ میں تقسیم واضح نظر آرہی ہے۔ لہذا عدالت عظمی کو متازعہ سیاسی فیصلے جاری کرنے سے احتراز کرنا چاہیے۔

اجلاس نے ملک کی مجموعی صورتحال پرتفصیلی غور کیا اور مستقبل کی حکمت عملی پر مشاورت کی اجلاس نے مطالبہ کیا کہ اور ملک بھر میں ایک ہی دِن انتخاب کرنے کا مطالبہ کیا۔ اجلاس میں کہا گیا کہ ایک ہی دن انتخابات غیرجانبدارانہ، شفاف اور آزادانہ انتخابات کے انعقاد کا بنیادی دستوری تقاضا ہے جس سے انحراف ملک کو تباہ کن سیاسی بحران میں مبتلا کردے گا اور یہ صورت حال ملک کے معاشی مفادات پر خود کش حملے کے مترادف ہوگی۔

اجلاس نے واضح کیا کہ لشکر اور جھتوں سے ریاستی اداروں پر حملہ آور ایک جماعت کے دباﺅ پر پورے ملک میں مستقل سیاسی وآئینی بحران پیدا کرنے کی سازش کسی صورت قبول نہیں کی جائے گی۔ بدقسمتی سے ایک انتظامی معاملے کو سیاسی وآئینی بحران بنادیاگیا ہے۔ معاشی، سیکیورٹی، آئینی، قانونی اور سیاسی امورکو نظرانداز کرنا ریاستی مفادات سے لاتعلقی کے مترادف ہے ۔ خاص مقصد اور جماعت کو ریلیف دینے کی عجلت سیاسی ایجنڈا دکھائی دیتا ہے ۔ یہ آئین وقانون اور الیکشن کمشن کے اختیار کے بھی منافی ہے جبکہ آئین کے آرٹیکل218 (3 ) سمیت دیگر دستوری شقوں کے تحت انتخاب کرانا الیکشن کمشن کا اختیار ہے، سپریم کورٹ کو آئین کے تحت ایک آزاد اور خودمختار الیکشن کمشن کے اختیار میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ یہی فیصلہ سپریم کورٹ کے چار معزز جج صاحبان ازخود نمبر 1/2023میں دے چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: نوے دن میں الیکشن آئینی ہیں تو مشرف دور میں 3 سال کیوں ملتوی ہوئے؟ فضل الرحمان

اجلاس میں چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد کیا گیا اور مطالبہ کیا گیا کہ ازخود نوٹس نمبر 1/2023 کے چار رکنی اکثریتی فیصلے کو مانتے ہوئے موجودہ عدالتی کارروائی ختم کی جائے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اقلیت کے فیصلے کو اکثریت کے فیصلے پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ یہ طرز عمل ملک میں ایک سنگین آئینی وسیاسی بحران ہی نہیں بلکہ آئین اور مروجہ قانونی طریقہ کار سے انحراف کی واضح مثال ہے۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ متنازع فیصلے جاری کرنے سے گریز کرے کیونکہ یہ ریاست کے اختیارات کی تقسیم کے بنیادی تصور کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اجلاس نے سوال اٹھایا کہ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بینچ نے 184 (3 ) کے تحت تمام مقدمات کی سماعت روکنے کا حکم دیا۔ متضاد عدالتی فیصلوں سے ناقابل عمل اور پیچیدہ صورتحال پیدا ہوچکی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بینچ کے فیصلے کا احترام کرنا بھی سب پر لازم ہے۔

شرکا نے مطالبہ کیا کہ پاکستان بار کونسل اور دیگر بار ایسوسی ایشنز کی طرف سے آرٹیکل 209کے تحت دائر کردہ ریفرنسز پر کارروائی کی جائے اجلاس نے واضح کیا کہ جسٹس اعجاز الاحسن تو پہلے ہی اس مقدمے میں رضا کارانہ طورپر بینچ سے الگ ہوچکے تھے لہذا وہ موجودہ بینچ کا حصہ نہیں ہوسکتے۔ اس بابت جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے آرڈرز واضح ہیں ، یہ سب کچھ ریکارڈ پر بھی موجود ہے۔

اجلاس نے چیف جسٹس پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ سپریم کورٹ کے بینچز میں اٹھنے والی اختلافی آوازوں کو ادارے کے سربراہ کے طورپر سنیں اور فی الفور فل کورٹ اجلاس کا انعقاد کریں۔ تاکہ ’وَن۔ مین۔شو‘ کا تاثر ختم ہو۔ اجلاس نے آرٹیکل 63 اے کے معاملے پر تین رکنی فیصلے کو سیاسی عدم استحکام کاباعث قرار دیا۔ جس کے ذریعے آئین کو دوبارہ لکھا گیا۔ اجلاس نے یہ بھی قرار دیا کہ اعلی ترین عدالت کی سوچ میں تقسیم واضح نظر آرہی ہے۔ لہذا عدالت عظمی کو متازعی سیاسی فیصلے جاری کرنے سے احتراز کرنا چاہیے۔

شرکا کی جانب سے مطالبہ کیا گیا کہ چیف جسٹس اور بعض دیگر ججوں سے متعلق یہ تاثر بھی ختم کیاجائے کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے معاملے خصوصی امتیازی رویہ اپنا رہے ہیں۔ یہ بھی واضح کیا کہ سیاستدانوں کو مل کر بیٹھ کر فیصلے کرنے کی ہدایت کرنے والے خود تقسیم ہیں ، انہیں اپنے اندر بھی اتحاد اور اتفاق پیدا کرنا چاہیے۔

وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نزیر تارڑ نے اجلاس کوآئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت پارلیمنٹ سے ہونے والی قانون سازی سے متعلق آگاہ کیا اور سپریم کورٹ میں معزز جج صاحبان کے درمیان اختلافی فیصلوں اور بینچوں کے اجرا سے پیدا ہونے والے صورت حال پر بریفنگ دی۔

اجلاس نے پارلیمنٹ کی حالیہ قانون سازی کی بھرپور تائید کی اور کہا کہ اس قانون سازی سے انصاف کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کردی گئی ہیں۔ جبکہ عوام الناس کے ساتھ یک طرفہ انصاف کی روش کا خاتمہ کرتے ہوئے انہیں داد رسی کا حق دیاگیا ہے جو فطری انصاف اور آئین کی بنیادی منشا ہے۔

پارلیمنٹ نے قانون سازی کے ذریعے آرٹیکل 184 (3) سے متعلق اپنی رائے واضح کردی ہے. پارلیمنٹ ایک بالادست ادارہ ہے جس کی رائے کا سب کو احترام کرنا چاہیے۔ اجلاس نے ا مید ظاہر کی کہ صدر مملکت اس قانون سازی کی راہ میں جماعتی وابستگی کی بنیاد پر رکاوٹ نہیں بنیں گے۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اجلاس کو ملک کی معاشی صورتحال پر بریفنگ دی۔

اجلاس میں ہونے والے فیصلے

حکومت میں شامل جماعتوں کے اہم مشاورتی اجلاس میں اہم فیصلے کیے گئے، جس کے مطابق حکمران جماعتوں نے چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کیس کی پیروی کا حصہ نہ بننے کا اعلان کیا۔

فیصلہ کیا گیا کہ سپریم کورٹ کا لارجر بینچ پہلے ہی کا تین کے مقابلے چار ججوں کی اکثریت سے انتخابی درخواستیں خارج کرچکا ہے، چیف جسٹس اکثریتی پر اقلیتی فیصلہ مسلط کرنا چاہتے ہیں، پاکستان بار کونسل اور دیگر بار ایسوسی ایشنز کی آرٹیکل 209 کے تحت دائر ریفرنسز پر کارروائی کی جائے جبکہ جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بینچ نے 184 (3 ) کے تحت زیر سماعت مقدمات پر کارروائی سے روکنے کا کہا ہے اور اس بینچ کے فیصلے کا احترام کرنا بھی سب پر لازم ہے۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ جسٹس اعجازالاحسن کا دوبارہ تین رکنی بینچ میں شامل ہونا غیر منصفانہ ہے، یہ عمل سپریم کورٹ کے طریقہ کار اور نظائر کی بھی صریحا خلاف ورزی ورزی ہے،  سیاستدانوں سے کہاجارہا ہے کہ وہ مل کر بیٹھیں لیکن سپریم کورٹ خود تقسیم ہے، ان حالات کا تقاضا ہے کہ چیف جسٹس پاکستان اور تین رکنی بینچ کے دیگر جج صاحبان مقدمے سے دستبردار ہوجائیں۔

اجلاس نے پارلیمنٹ کی عدالتی اصلاحات سے متعلق قانون سازی کی بھرپور تائید اور حمایت کا اعلان کیا اور کہا کہ قانون سازی سے عوام الناس کے ساتھ یک طرفہ انصاف کی روش کا خاتمہ ہوگا، پارلیمنٹ نے قانون سازی کے ذریعے آرٹیکل 184 (3) سے متعلق اپنی رائے واضح کردی ہے، پارلیمنٹ بالا دست ہے جس کی رائے کا سب کو احترام کرنا چاہیے۔

اجلاس میں امید ظاہر کی گئی کہ صدر مملکت عارف علوی قانون سازی کی راہ میں جماعتی وابستگی کی بنیاد پر رکاوٹ نہیں بنیں گے، پاکستان تحریک انصاف کے معاملے میں خصوصی امتیازی رویے کے تاثر کو چیف جسٹس ختم کریں۔

واضح رہے کہ ملکی سیاسی صورت حال خصوصاً سپریم کورٹ میں پنجاب اور کے پی انتخابات کے التوا سے متعلق جاری کیس کی سماعت کے پیش نظر وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے آج اتحادی جماعتوں کا اجلاس طلب کیا گیا تھا۔

اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے پر

پی ڈی ایم اور اتحادی جماعتوں کے اہم اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آ گئی جس میں نواز شریف نے تمام سیاسی جماعتوں کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کے بائیکاٹ کی تجویز دی جسے منظور کرلیا گیا۔

پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم اور اتحادی جماعتوں کے سربراہوں کی اکثریت نے فل کورٹ نہ بنانے کی صورت میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کے بائیکاٹ کا مشورہ دیا۔

ذرائع کے مطابق شرکا نے کہا کہ سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ سے ہمیں انصاف کی کوئی توقع نہیں، یہی بینچ ماضی قریب میں ہماری حکومت کے خلاف کئی فیصلے دے چکا ہے، فل کورٹ کا مطالبہ ملکی تمام جماعتوں کا مشترکہ اور متفقہ مطالبہ ہے جسے تسلیم نہ کرنا انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔

ذرائع کے مطابق وزیر قانون اور اٹارنی جنرل نے اجلاس کے شرکاء کو بائیکاٹ کے فیصلے کے مضمرات سے بھی آگاہ کیا۔ سپریم کورٹ کا یک طرفہ فیصلہ آنے کی صورت میں تمام اتحادی جماعتوں نے مشترکہ لائحہ عمل اپنانے پر اتفاق رائے کیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔