نوے دن میں الیکشن آئینی ہیں تو مشرف دور میں 3 سال کیوں ملتوی ہوئے؟ فضل الرحمان

ویب ڈیسک  ہفتہ 1 اپريل 2023
فوٹو فائل

فوٹو فائل

 اسلام آباد: حکومتی اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اور جمیعت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ چیف جسٹس صاحب اور ان کے ساتھ شریک دو معزز جج صاحبان کی جانبدارانہ روش نے سپریم کورٹ کو تقسیم کردیا ہے۔

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ سپریم کورٹ میں پنجاب اور کے پی کے عام انتخابات کی تاریخ کے تعین سے متعلق از خود نوٹس زیر سماعت ہے، انتخاب سے متعلق جو پہلا بنچ بنا تھا وہ 9 ممبران پر مشتمل تھا جو اب تین ممبران کا رہ گیا ہے۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ جج صاحبان کی علیحدگی کے بعد فیصلہ از خود نوٹس کے خلاف ہوگیا ہے، چیف جسٹس صاحب بضد ہیں کہ اس کیس کو ہر قیمت پر سننا ہے، ایسی صورت حال میں سیاستدان، پارلیمنٹ اور عوام کیا رائے قائم کریں؟ ہماری نظر میں سپریم کورٹ اور موجودہ بنچ اس کیس میں واضح طور پر فریق کا کردار ادا کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دو صوبوں میں انتخابات سے متعلق فریق کے کردار کے بعد ظاہر ہے ہمیں اس عدالت پر کوئی اعتماد نہیں رہا، حیرت اس بات پر ہے کہ عدالت عظمی پاکستان کا انتہائی قابل قدر اور بلند رتبہ ادارہ ہے مگر چیف جسٹس اور دو ججز کی روش سے اب سپریم کورٹ میں بھی تقسیم نظر آرہی ہے، چند ججز واضح طور پر عمران خان کو ریلیف دینا چاہتے ہیں، انکی پارٹی کے موقف کو ہر قیمت میں جتوانا چاہتے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ ایسی صورت میں سپریم کورٹ کو تقسیم کرنا گوارہ کیا ہے لیکن جس کو سپورٹ کر رہے ہیں اس سے دستبردار نہیں ہو رہے، اخلاقی طور پر چیف جسٹس کو اور ان کے دو رفقاء کو اس کیس سے دستبردار ہو جانا چاہئیے اور اس معاملہ کو ختم کرنا چاہیے، چیف جسٹس ہمیں نصیحت کر رہے ہیں کہ اس معاملہ کو مل بیٹھ کر حل کرنا چاہئے اور خود چیف صاحب نے معزز عدالت کو تقسیم کردیا ہے۔

مولانا فضل الرحمان نے سوال کیا کہ ہم کس کے ساتھ بات کرے، ایک مجرم کے ساتھ جس کو دھاندلی کے ذریعے لایا گیا تھا، ہم نے پندرہ ملین مارچ کئے، آزادی مارچ کیا اس وقت آپکو احساس نہیں ہوا۔ آپ نے از خود نوٹس کیوں نہیں لیا؟ 25 جولائی کی دھاندلی کے دو مرکزی مجرم آج بھی کھلے عام گھوم رہے ہیں۔ آج بھی انکے خلاف اپ کوئی نوٹس نہیں لے رہے، صوبوں میں انتخابات کروانا یا ملک میں انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کا کام ہے، کس طرح آپ کسی ادارے کے انتظامی اختیار پر قبضہ کر رہے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ از خود نوٹس کیس چار اور تین سے مسترد ہوچکا ہے لہذا اس پر اب دوبارہ سماعت کی کوئی حیثیت نہیں رہی، ہم اس بینچ پر اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پر عدم اعتماد کرتے ہیں، آج کہا جارہا ہے آئین کا تقاضا ہے کہ نوے دن میں انتخابات کروائے جائیں، یہ آئین کا تقاضا اس وقت کیوں نہیں تھا جب یہ عدالت ایک آمر پرویز مشرف کو تین سال میں الیکشن کروانے کی اجازت دے رہا تھا۔

جے یو آئی کے سربراہ نے کہا کہ اس وقت ملک میں مردم شماری ہورہی ہے، کچھ ماہ بعد نئی حلقہ بندیاں ہوں گی اور پھر نئی ووٹر لسٹ بنے گی، اگر ابھی الیکشن ہوگئے تو نیا بننے والا ووٹر اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کرسکے گا۔ سیاسی لحاظ سے ملک کو ایک رکھنے کیلئے سن سنتالیس سے پاکستان میں الیکشن ایک دن میں ہوتے ہیں، احتیاط سے کام لیا جائے ، فریق بن کر کردار نہ ادا کیا جائے، سپریم کورٹ کو متحد رہنے دیا جائے۔سپریم کورٹ کو غیر جانبدار رہنے دیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ہم عمران خان کے ساتھ الیکشن کی تاریخ سے متعلق کسی قسم کے مذاکرات کا حصہ نہیں بنیں گے۔ نا ہی ہم کسی مجرم کے ساتھ مذاکرات کریں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔