مہمانوں کے خلاف ہتھیار

سعد اللہ جان برق  اتوار 2 اپريل 2023
barq@email.com

[email protected]

ایک زمانہ تھا جب بیس روپے من آٹا ہوا کرتا تھا اور اس پر بھی بقول حبیب جالب سناٹا تھا ۔ راوی ہی نہیں بلکہ چناب، جہلم، ستلج، بیاس کے ساتھ ساتھ دریائے سندھ بھی چین ہی چین لکھتا تھا۔

ان دنوں میں ’’خلیل خان‘‘ بے غم ہوکر گلے میں ’’غلیل‘‘ ڈالے فاختہ اڑایاکرتا تھا اور پاکستان میں ہرآتش جوان تھا، چنانچہ ہم بھی عیاشیاں کرتے تھے جن میں ایک ’’مہمان نوازی‘‘ یا میزبان بازی بھی شامل تھی۔ بہانے بنا بنا کر رشتہ داروں اور دوستوں کی دعوت کرتے تھے اور راہ چلتے لوگوں کو پکڑ پکڑ کر کھانا کھلاتے تھے اوراکثر پشتو کی یہ مشہورکہاوت دہراتے تھے بلکہ گاتے گنگناتے تھے کہ

بھئی گھر میں آٹا بھی ہے، بکری بھی اور مرغیاں بھی

مہمان تو مجھے ’’خس‘‘ بھی دکھائی نہیں دیتا

اورآج یہ دن ہیں کہ مہمان کا نام سن کر کپکپی طاری ہو جاتی ہے، پہلے تو پائوں کے انگھوٹھے سے لے کر سر کی چوٹی تک سنسناہٹ دوڑ جاتی ہے جسے کسی نے جنگل میں فائرکردیا ہو۔ پھر زبان پر دنیا کاسب سے بڑا اور کثیرالاستعمال جھوٹ آجاتا ہے ’’کہہ دو گھر پر نہیں ہوں‘‘ لیکن خبر لانے والا جیسے منہ پر تھپڑمارتے ہوئے کہتا ہے کہ اس نے آپ کو گھر جاتے ہوئے ابھی ابھی دیکھا ہے ۔گویا، نہ جائے ماندن ونہ پائے رفتن۔بڑی مشکلوں سے منت سماجت کرکے جسم کو اٹھاتے ہیں۔

تاب لاتے ہی بنے گی غالب

معالمہ سخت ہے اور جان عزیز

گویا گردن کو اس مہمان نام کے گلوٹین کے نیچے رکھنا ہی پڑے گی ، معاملہ اگر صرف ’’سخت‘‘ ہوتا تو نمٹ بھی لیتے کہ اپنے ماضی کی حکومتوں نے اوران کی عطا کی ہوئی مہنگائی نے ہمیں سختیوں کا عادی بنا دیا ہے لیکن تن من دھن میں گنجائش ہوتو مہمان نوازی کی عیاشی کریں۔

بوجھ ہوتا جو غموں کاتو اٹھا بھی لیتے

زندگی بوجھ بنی ہوتو اٹھائیں کیسے؟

ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ حال صرف ہمارا نہیں ہے، اتنالوگوں کو کورونا نے برباد نہیں کیاہوگا جتنا لوگ اس کم بخت، بدبخت، تیرہ بخت اوردل سخت مہنگائی نے کیا ہے،اچھے اچھے مہمان نواز اور صاحبان دسترخوان لوگ اس کے ہاتھوں اپنی عزت سادات کھورہے ہیں، ہمیں یقین ہے کہ خود اصلی حاتم طائی اگر اس وقت زندہ ہوتا اورمزید بدقسمتی سے پاکستان میں بھی ہوتا تو چھپ چھپا کر کسی لنگر خانے میں ملتا ، مطلب یہ کہ اس ’’حمام‘‘ میں ۔۔جسے آئی ایم ایف ، ہمارے لیڈروں اور منہگائی نے بنارکھا ہے ، اس میں سب کے سب ’’ننگے‘‘ہیں۔

جوگرز رہی گزاردو نہ گلہ کرونہ براکہو

جو تمہارا حال ہے دوستو! وہی سارے شہرکا ہے

لیکن ایسا بھی نہیں کہ اس صورت حال میں زندہ رہنے کی تدبیرہی نہ ہو ۔آپ تو جانتے ہیں کہ ہم محقق ہونے کے ساتھ ساتھ ’’موجد‘‘ بھی ہیں، اس لی ہم نے کچھ ایسے طریقے بھی ایجاد کرلیے ہیں کہ ۔اس ہلاکوخان نے اگر ہمارے بغداد پرحملہ کیا ہے تو ہم بھی چھپنے چھپانے کے لیے کونے کدروں سے واقف ہیں اورچاہتے ہیں کہ اپنی ان ایجادات اور تدابیر کو اپنے پڑھنے والوں کے ساتھ شیئرکریں ۔ویسے بزرگوں کایہ قول بھی سچ ہے کہ بندہ پریشان اللہ مہربان۔

وہ ایک بادشاہ کے بارے میں تو آپ نے سنا ہی ہوگا جس نے اپنے وزیر سے پوچھا تھا کہ سب سے بہترین ہتھیار کونسا ہے ،وزیر نے کہا کہ جو وقت پر ہاتھ لگے۔اس پر بادشاہ نے وزیر کو ایک میدان میں لے جاکراس پر ایک مست ہاتھی چھوڑ دیاکہ اب اس سے بچ کردکھاؤ۔ بچارا نہتا وزیر ہاتھی سے بچنے کے لیے ادھر ادھر دوڑ رہاتھا، اچانک اس نے ایک کونے میں ایک خارش زدہ کتے یا بلے کو لیٹا ہوا دیکھا تو اسے اٹھاکرہاتھی پردے مارا ۔کتا یا بلا اس اچانک افتاد سے بری طرح چیخنے لگا، جس سے ہاتھی گھبراکر بھاگ اٹھا اوریوںاس نے ثابت کردیاکہ وقت پرجو بھی ہتھیار میسر ہو وہی بہترین ہتھیار ہے۔

ہم نے بھی اس منہگائی کے عالم میں مہمانوں کی آفت سے بچنے کے لیے کئی ایک ہتھیار ایجادکرلیے ہیں۔ پہلاہتھیار تو ہماری خوش نصیبی سے یہ چھوٹا سا فتنہ ہے جسے موبال فون کہتے ہیں۔ پہلے گھر کے لینڈ لائن فون سے تو لوگوں کو پتہ چل جاتا تھا کہ گھر سے ہی بول رہا ہوں، لیکن موبائل فون ہے، اب گھر میں ہوں تو کہہ دو پشاور میں ہوں یا مردان میں،نوشہرہ میں ہوں تو خود کو کراچی اسلام آباد، لاہور کہیں بھی پہنچاسکتے ہو۔

جھوٹ کسی کے باپ کا تو ہے نہیں اور وہ بھی بالکل مفت ، نہ منہگائی کا ڈر نہ ٹیکسوں کا، جتنا چاہو بولیے اورجب سے ہمارے ہاتھ یہ ہتھیار لگا ہے تب سے مجال ہے جو ہمیں کسی مہمان نے پکڑا ہو۔ لیکن پھر بھی اگر بدقسمتی سے کوئی مہمان بغیر اطلاع آجائے تو اس کے لیے بھی تیر بہدف نسخہ ہمارے پاس ہے ’’بھلکڑپن‘‘ اسے بٹھاتے اور باتوں کا مکڑ جال ایسا پھیلاتے ہیں کہ چار پانچ گھنٹے گزرنے پر جب وہ تنگ آکر جانے کو پر تولتاہے تو ہم اچانک اپنی پیشانی پر ہاتھ مارکر کہتے ہیں،ارے ہاں تمہاری باتوں میں تو مجھے چائے پوچھنا ہی بھول گیا ، چائے پیوگے؟ بلکہ اس سے بھی زیادہ محفوظ فقرہ۔ چائے تو نہیں پیوگے؟

لیکن بعض اوقات صورت حال یوں گھمبیر ہو جاتی ہے کہ ایک طرف چائے کاوقت ہوتاہے، دوسری طرف کھانے کا وقت بھی آرہاہوتاہے چنانچہ ہم ’’ٹوان ون‘‘ بس چائے کے ساتھ میٹھی روٹی یاپراٹھا یا بھنے ہوئے مکئی کے دانے پیش کردیتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔