’’صبح گیا یا شام گیا‘‘ کا وِرد مناسب نہیں

نصرت جاوید  جمعـء 18 اپريل 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

کافی ڈھٹائی کے ساتھ بے وقوف بنا کوئی شخص ہی یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان کوئی اختلافات نہیں۔ وہ دونوں ایک پیج پر ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اختلافات کی موجودگی کے اعتراف کے بعد مگر ’’صبح گیا یا شام گیا‘‘ کا ورد شروع کر دینا بھی خاصی نامناسب بات ہے۔ وہ لوگ جن کی صلاحیتیں صرف فوجی آمروں کو اس ملک کو ’’ٹھیک راہ پر ڈالنے‘‘ کے مشن میں مدد دینے کے لیے وقف ہیں۔

’’صبح گیا یا شام گیا ‘‘ والا ورد دہراتے پائے جائیں تو میں ہر گز حیران نہیں ہوتا۔ پریشانی اس وقت لاحق ہوتی ہے جب کئی بہت ہی سنجیدہ اور انتہائی تجربہ کار بزرگ یاد دلانا شروع ہو جاتے ہیں کہ امریکا کو پاکستان کی ’’بدعنوان اور نااہل‘‘ جمہوری حکومتوں کے ساتھ اپنے معاملات طے کرنے میں اس لیے بھی دقت ہوتی ہے کہ ہمارے سیاستدانوں میں جمہوری نظام کو برقرار رکھنے کے لیے اس طرح کا ایکا نظر نہیں آتا جو مثال کے طور پر بھارت میں کئی برسوں سے ایک طے شدہ اور معمول کی بات سمجھی جاتی ہے۔

امریکا ایک سپر طاقت ہے۔ اس کے پوری دنیا کے چند اہم خطوں میں ٹھوس Strategic مفادات ہیں۔ افغانستان و ایران سے قربت اور بھارت کے ساتھ مخاصمانہ اور چین کے ساتھ دوستانہ ہمسائیگی کی وجہ سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ان ہی مفادات کے حوالے سے شدید Geo-Political اہمیت ہے۔ واشنگٹن اس ملک کے معاملات سے قطعی لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ اس کی ترجیح تو یہی ہوتی ہے کہ یہاں جمہوریت برقرار رہے۔ مگر افراتفری کی صورتوں میں فوجی حکومت کا آ جانا ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیا جاتا ہے۔ ایوب خان، ضیاء الحق، یحییٰ خان اور بالآخر جنرل مشرف کا دور وغیرہ وغیرہ۔

اب بتایا ہمیں یہ جا رہا ہے کہ مشرف کے آخری دنوں میں معاملات بگڑے تو بنیادی طور پر اس وجہ سے کہ امریکی جاسوسی اداروں نے دریافت کر لیا کہ ان کے صدر بش کے Tight Buddy بنے جنرل مشرف دراصل ان کے ساتھ Double Game کھیل رہے ہیں۔ القاعدہ کے سرکردہ لوگوں کی پاکستان میں موجود ٹھکانوں کی نشاندہی کر دی جائے تو انھیں گرفتار کروا کر امریکا کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ طالبان کی اعلیٰ قیادت اور خاص طور پر شمالی وزیرستان میں موجود حقانی گروپ کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا۔ انھیں Strategic Assets سمجھا جاتا ہے اور اس بات کی ضمانت کہ امریکی اور نیٹو افواج جب افغانستان سے نکل گئیں تو یہ Assets اس ملک کو بھارت کی اجارہ داری میں جانے نہیں دیں گے۔

مشرف چونکہ “Expose” ہوچکے تھے لہذا ان سے پہلے محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ NRO کروایا گیا۔ وہ قتل کر دی گئیں تو بھی مشرف صاحب کو وردی اتارنے اور نسبتاََ منصفانہ انتخابات کروانے پر مجبور کیا گیا۔ انتخابات مکمل ہو گئے تو جنرل مشرف کو پیغام بھیج دیا گیا کہ نئے منتخب حکمران ان کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ انھوں نے تھوڑی بہت مزاحمت دکھانا چاہی تو خود کو مشکل کی اس گھڑی میں اکیلے پایا۔ استعفیٰ دیا اور گھر چلے گے۔ ایوان صدر میں آصف علی زرداری آ گئے۔

یہاں تک جو کہانی بتائی جاتی ہے میں اس سے کافی حد تک اتفاق کرتا ہوں۔ اختلاف میرا اس دعوے سے ہے کہ جنرل کیانی کے زمانے سے امریکا اور ہماری عسکری قیادت کے درمیان تعلقات بتدریج بہتر ہونا شروع ہو گئے اور اب تو ویسے ہی شیر و شکر ہیں جیسے 1960ء یا 1980ء کی دہائیوں میں ہوا کرتے تھے۔ چونکہ حالات بدل گئے ہیں اس لیے سیاستدانوں کو احتیاط برتنا چاہیے۔ پھونک پھونک کر قدم آگے بڑھائیں۔ ’’اسی تنخواہ‘‘ پر گزارہ کرنے کی عادت ڈالیں۔ ورنہ مصر کی فوج براہِ راست انتخابات کے ذریعے مقبولِ عام صدر مرسی کا تختہ اُلٹ سکتی ہے تو ہمارے مبینہ طور پر ’’پنکچروں‘‘ کی بدولت ‘‘منتخب‘‘ ہونیوالے کس کھیت کی مولی ہیں۔

بڑے ہی کھلے ذہن کے ساتھ میں نے ایک رپورٹر کے طور پر گزشتہ دس دنوں میں اس سوال کا جواب دریافت کرنے کی کوشش کی کہ کیا پاکستان کی عسکری قیادت کے بارے میں امریکی اشرافیہ کے دل صاف ہو چکے ہیں۔ اس سے پہلے کہ جو کچھ میں نے سنا اسے آپ تک پہنچائوں مجھے یہ دعویٰ کرنے کی اجازت دیجیے کہ امریکی اشرافیہ اپنی سرشت میں بہت سفاک واقع ہوئی ہے۔ اگر شبہ ہے تو بس اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کر لیں کہ جاپان کو دوسری جنگِ عظیم میں واضح طور پر شکست دینے کے بعد بھی اس ملک پر ایٹم بم گرانے کا کیا جواز تھا۔

حال ہی میں افغانستان میں صدارتی انتخابات ہوئے ہیں۔ ان انتخابات سے قبل اس بات پر دنیا بھر کے تجزیہ کاروں کا اتفاق تھا کہ طالبان کے خوف سے ووٹر گھروں سے باہر نکلنے کی جرأت ہی نہیں کریں گے۔ ایسا مگر نہیں ہوا۔ افغانستان کے عوام کی ایک شاندار تعداد 58  فیصد نے شدید سردی اور بارش میں ووٹ ڈال کر پوری دنیا کو حیران کر دیا۔ افغانستان کے انتخابات سے قبل حامد کرزئی ہذیانی انداز میں دنیا کو یہ بتا رہے تھے کہ پاکستان سے دہشت گردوں کو ان کے ملک میں خوف و دہشت کی فضاء پھیلانے کے لیے مسلسل بھیجا جا رہا ہے۔ انتخابات کے دن دہشت گردی کا کوئی ڈرامائی واقعہ مگر ہرگز نہ ہوا۔ میں پاکستانی ہوں اور مجھے اپنی شناخت کے بارے میں نہ تو بلند و بانگ دعوے کرنے کی ضرورت ہے نہ معذرت خواہ ہونے کی کوئی گنجائش۔

اس کے باوجود انتہائی غیر جانبدار رہتے ہوئے میں خود کو یہ باور کرنے پر مجبور محسوس کرتا ہوں کہ پاکستان کے ریاستی اداروں نے یک سو ہو کر افغان صدارتی انتخابات کے لیے مناسب اور پرسکون ماحول کو فراہم کرنے میں بھرپور معاونت کی ہو گی۔ ایک صحافی کے طور پر لیکن میں یہ جاننے کو بھی بہت بے تاب تھا کہ آیا نام نہاد ’’عالمی برادری‘‘ افغان صدارتی انتخابات کے حوالے سے ہمارے مثبت کردار کا اعتراف کرتے ہوئے اس کے بارے میں شکر گزار محسوس کر رہی ہے یا نہیں۔

مغربی ممالک کے دس کے قریب سفارتکاروں کے سامنے میں نے جب یہ سوال رکھا تو ان کی اکثریت ہرگز ہمارے ریاستی کردار کے بارے میں افغان صدارتی انتخاب کے حوالے سے کوئی مثبت بات کرتی سنائی نہ دی۔ کم از کم تین بڑے اہم سفارتکاروں نے بلکہ بڑی رعونت کے ساتھ جواب دیا کہ افغان صدارتی انتخابات پر امن طور پر منعقد ہو گئے تو صرف اس وجہ سے کہ برسوں کی محنت اور جدید ٹیکنالوجی کی بدولت افغان طالبان کی جنگی صلاحیتوں کو مناسب حد تک Degrade کر دیا گیا ہے۔

ظاہر ہے ایک پاکستانی ہوتے ہوئے مجھے یہ رعونت بھرے جوابات پسند نہ آئے۔ اپنی پریشانی پاکستان کے بہت اہم ملکوں میں سفیر رہ چکے ایک مہربان سفارتکار کے سامنے رکھی تو انھوں نے بڑی درد مندی سے مجھے اس بات پر مجبور کیا کہ میں اپنے گھر لوٹ کر انٹرنیٹ پر جائوں اور IMF کی وہ رپورٹ پڑھ لوں جس میں پاکستان میں 2014ء کے آخری دنوں میں ممکنہ طور پر ابھرنے والے ’’سیاسی مسائل‘‘ کا ذکر کیا گیا ہے۔

جی ہاں دعویٰ اس رپورٹ میں یہ کیا گیا ہے کہ افغانستان میں نئے صدر کے انتخاب کے بعد جب امریکی افواج اس ملک میں قلیل حد تک محدود ہو جائیں گی تو سندھ اور بلوچستان میں نسلی اور فرقہ وارانہ انتہاء پسند انتشار اور افراتفری پھیلانے کی کارروائیوں میں شدت لانا شروع کردیں گے۔ یاد رہے کہ نریندر مودی اب یہ کہنا بھی شروع ہو گیا ہے کہ وہ وزیر اعظم بنا تو سندھ سے بھارت جا کر پناہ گزین ہوجانے والے ہندوئوں کی ’’بھرپور  بحالی‘‘ کو یقینی بنائے گا۔ کراچی میں تحفظِ پاکستان قانون کے خلاف بھی جھگڑا اُٹھ چکا ہے۔ ہمیں شتر مرغ بن کر ریت میں سر نہیں دبا لینا چاہیے۔ سیاسی اور عسکری قیادت کو ہر صورت ایک Page پر آنا ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔