اسرائیلی سیاست دانوں کا سپریم کورٹ پر حملہ

سید عاصم محمود  اتوار 16 اپريل 2023
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

اقوام عالم کی صف میں آج اسرائیل نمایاں مقام رکھتا ہے۔ایک چھوٹا سا ملک ہونے کے باوجود اسرائیلی حکمران طبقے نے بہترین انتظامی صلاحیتیں دکھانے اور سائنس وٹیکنالوجی سے بھرپور مدد لینے کے باعث اپنی مملکت کو معاشی، عسکری، سیاسی اور معاشرتی لحاظ سے مضبوط ومستحکم بنا ڈالا ہے۔اس کا شمار ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتا ہے۔

جاپان اور اسرائیل اس خطے کے بڑے ترقی یافتہ ممالک ہیں۔مگر پچھلے چار ماہ سے اسرائیل حکومتی سیاست دانوں کی مفاداتی سیاست کے سبب زبردست ہنگاموں کی زد پر ہے۔حکومت اور عوام کی محاذ آرائی نے وہاں سیاسی، معاشی اور معاشرتی امن تہس نہس کر ڈالا۔

 ’’عدالتی اصلاحات منصوبہ‘‘

اس سنگین بحران کا آغاز نومبر 2022ء سے ہوا جب اسرائیلی پارلیمانی الیکشن میں چھ قوم پرست اور انتہا پسند جماعتیں زیادہ ووٹ لینے میں کامیاب رہیں۔انھوں نے مل کر حکومت بنا لی جس کا سربراہ بدنام زمانہ اسرائیلی رہنما، بینجمن نیتن یاہو کو بنایا گیا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یوں اسرائیل کی تاریخ میں سب سے زیادہ قوم پرستانہ اور انتہا پسندانہ حکومت وجود میں آ گئی۔نیتن یاہو سمیت تمام حکومتی پارٹیوں کے کسی نہ کسی لیڈر پر اپنے منفی ہتھکنڈوں کرتوتوں اور بد حرکتوں کی وجہ سے مقدمے چل رہے تھے۔

ان سیاست دانوں کا خیال تھا کہ آئین نے سپریم کورٹ کو بہت زیادہ طاقتیں دے رکھی ہیں۔اعلی عدلیہ کے جج انھیں سیاست دانوں کے خلاف استعمال کر کے ان کو پریشان کرتے ہیں۔

لہذا قانون سازی کر کے یہ طاقتیں کم کر دی جائیں تاکہ سیاست دانوں کی جان ججوں سے چھوٹ سکے۔چناں چہ حکومتی پارٹیوں نے مل جل کر ’’عدالتی اصلاحات منصوبہ‘‘ بنایا اور جنوری 2023ء میں اسے پارلیمنٹ میں پیش کر دیا۔

اعلی عدلیہ پر شب خون

بظاہر ان اصلاحات کے ذریعے سپریم کورٹ میں کام کو بہتر بنانا مقصود تھا مگر منصوبے کے مطالعے سے اپوزیشن رہنماؤں کو احساس ہو ا کہ حکومتی سیاست دان اعلی عدلیہ پر شب خون مارنا چاہتے ہیں۔مدعا یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی طاقت کم کر کے اسے اپنا ماتحت بنایا جا سکے۔

اس ساری کارروائی کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اعلی عدلیہ سیاست دانوں کے خلاف مقدمات نہ بنا سکے۔ہر جدید ملک کی طرح اسرائیل میں بھی نظام حکومت سیاست دان ، سرکاری افسر، جج اور جرنیل مل کر چلاتے ہیں۔ان کا مجموعہ عموماً اسٹیبلشمنٹ کہلاتا ہے۔ان چاروں کی طاقتیں محدود کرنے کے لیے ہر آئین میں ’’چیک اینڈ بیلنس‘‘یا قدغنیں موجود ہوتی ہیں۔

ان کا مقصد یہ ہے کہ کوئی ایک فریق اتنا زیادہ طاقتور نہ ہو کہ وہ بقیہ فریقوں کو اپنی مرضی کے تابع بنا لے۔یہ چیک اینڈ بیلنس ہی ایک مملکت میں حکومتی عناصر کے مابین طاقت کے توازن کو متوازن رکھتے اور نظام حکومت عمدگی سے چلاتے ہیں۔یوں ملک معاشی و معاشرتی و سیاسی طور پہ ترقی کرتا ہے۔جس ملک میں طاقت کا یہ توازن بگڑ جائے ، وہ پھر معاشی ، سیاسی اور معاشرتی زوال کا شکار ہو جاتا ہے۔

 حکومتی منصوبہ شرانگیز

اسرائیل میں نیتن یاہو اور اس کے ہم نوا سیاست دان ذاتی مقاصد پورے کرنے کے لیے اپنی مملکت میں چیک اینڈ بیلنس کا نظام تباہ کرنے کی کوشش کرنے لگے ، اسی لیے وہاں زبردست ہنگامہ برپا ہو گیا۔اس حقیقت سے عیاں ہے کہ اسرائیل جیسے مضبوط ملک میں بھی کرپٹ سیاست داں برسراقتدار آ جائیں تو وہ اپنے قبیح اعمال اور شرانگیز سرگرمیوں کی وجہ سے مملکت کو بحران میں مبتلا کر ڈالتے ہیں۔نیز ان کی وجہ سے ملک کو دنیا بھر میں تضحیک واستہزا کا نشانہ بنتا ہے۔

اپوزیشن پارٹیاں فوراً حکومت کے مجوزہ عدالتی اصلاحات منصوبے کے خلاف سرگرم عمل ہو گئیں۔انھوں نے سوشل میڈیا پر اور اپنے ٹی وی چینلوں و اخبارات کے ذریعے اسرائیلی عوام کو مطلع کیا کہ درج بالا منصوبے کے ذریعے نیتن یاہو حکومت سپریم کورٹ کے پر کاٹنا چاہتی ہے۔

اسرائیلی عوام پڑھے لکھے اور باشعور ہیں۔وہ فوری طور پہ سمجھ گئے کہ یہ حکومتی منصوبہ شرانگیز ہے جو ذاتی مفادات پورے کرنے کے لیے تخلیق کیا گیا۔مقصد یہ ہے کہ سیاست دان سپریم کورٹ پر حاوی آ جائیں اور انھیں روک ٹوک کرنے والی طاقت ختم ہو سکے۔

سپریم کورٹ کے مخالف مذہبی رہنما

دنیا کے تقریباً ہر ملک کی طرح اسرائیل میں بھی اعلی عدلیہ ’’قومی سلامتی‘‘کے نام پر ایسے فیصلے کرتی ہے جو عدل و انصاف کا خون کر ڈالتے ہیں۔خاص طور پہ مسلمانوں کو اسرائیلی سپریم کورٹ سے کم ہی انصاف ملتا ہے۔اس کے جج دودھ کے دھلے نہیں اورتب وہ یہودی حکمران طبقے کا ہمنوا بن جاتے ہیں۔لیکن سیاسی ومقامی معاملات میں سپریم کورٹ کے جج عموماً قانون مدنظر رکھ کر فیصلے کرتے ہیں۔

اسی لیے خصوصاً یہودی مذہبی رہنما اپنے سپریم کورٹ سے خار کھاتے ہیں۔ماضی میں یہودی مذہبی رہنماؤں نے کوشش کی تھی کہ حکومت انھیں مختلف طریقے سے مراعات و سہولتیں دے سکے۔ان کی خواہش پہ حکومتوں نے انھیں مراعات سے نواز بھی دیا۔مگر سیکولر اسرائیلی سپریم کورٹ میں پہنچ گئے اور یہ مقدمہ دائر کر دیا کہ یہودی مذہبی رہنما مراعات کے کیوں حقدار قرار پائے؟اب انھیں بھی سرکاری طور پرمراعات دی جائیں۔

سپریم کورٹ نے مراعات ختم کر دیں۔اسی طرح یہودی مذہبی رہنما چاہتے تھے کہ انھیں اور ان کے پیروکاروں کو لازمی فوجی تربیت سے مبّرا رکھا جائے۔

حکومت نے انھیں یہ سہولت دے دی مگر سپریم کورٹ نے اسے کالعدم قرار دیا۔اسی باعث یہودی مذہبی رہنما اپنی اعلی عدلیہ سے سخت ناراض تھے۔اب وہ حکومت میں آئے تو سعی کرنے لگے کہ سپریم کورٹ کی طاقت کم کردی جائے تاکہ اپنے مفادات پورے کرنے کا موقع مل سکے۔

عوام میدان جنگ میں

باشعور ہونے کی وجہ سے اسرائیلی عوام اپنے سیاست دانوں کی بدنیتی اور سازش جان گئے۔وہ اپنے سپریم کورٹ کو مملکت میں قانون، انصاف اور حقوق ِانسانی کا محافظ سمجھتے ہیں۔ان کے نزدیک جمہوریت کی بقا و مضبوطی کے لیے سپریم کورٹ کا طاقتور ہونا ضروری ہے۔اسی لیے حکمران سیاست دانوں نے مذموم مقاصد حاصل کرنے کی خاطر اعلی عدلیہ پہ حملہ کیا تو اسرائیلی عوام اپنے سپریم کورٹ کی حفاظت کرنے میدان جنگ میں اتر آئے۔ وہ سیاست دانوں کو ڈکٹیٹربننے سے روکنا چاہتے تھے۔

عوام مختلف شہروں میں حکومت کے خلاف مظاہرے کرنے لگے۔ان میں اکثریت اپوزیشن پارٹیوں سے تعلق رکھتی تھی۔مگر وہ لوگ بھی شریک ہوئے جنھوں نے حالیہ الیکشن میں حکمران سیاسی جماعتوں کو ووٹ دئیے تھے۔سبھی کا مطالبہ تھا کہ حکومت اپنا عدالتی اصلاحات منصوبہ ختم کر دے۔حکومت نے بزور طاقت عوامی احتجاج ختم کرنا چاہا تو کئی مقامات پر پولیس اور مظاہرین کے مابین تصادم ہو گیا۔اس امر نے بحران سنگین بنا دیا۔

عوام کا ایک طبقہ نیتن یاہو حکومت کا حامی بھی تھا مگر اس نے سڑکوں پہ نکل کر حکومت حمایتی مظاہرے کم ہی کیے۔ایسے مظاہروں میں بھی اسرائیلی مسلمانوں کی دکانوں اور دفاتر کو نشانہ بنایا گیا۔ حکمران پارٹیوں کو عوام سے واضح حمایت اسی لیے نہیں مل سکی کہ ان کے عدالتی اصلاحات منصوبے سے صاف عیاں تھا، وہ سپریم کورٹ کی طاقتیں گھٹا کر من مانے طریقے سے مملکت میں حکومت کرنا چاہتی ہیں۔

اسرائیلی جرنیل خوفزدہ ہو گئے

عوام نے جنوری تا مارچ کے اواخر تک مسلسل حکومت مخالف مظاہرے کیے۔حکومت کو توقع تھی کہ وقت کے ساتھ ساتھ عوام کا جوش وجذبہ کم ہو جائے گا مگر وہ تو بڑھتا چلا گیا۔بعض مظاہروں میں کئی لاکھ مردوزن شریک ہوئے۔انھیں اسرائیل کی تاریخ کے سب سے بڑے احتجاجی مظاہرے کہا گیا۔

اس عوامی مہم میں ڈرامائی اور فیصلہ کن موڑ اواخر مارچ سے آیا۔پہلے اس میں یونیورسٹیوں کے طلبہ وطالبات شریک ہوئے۔پھر ٹریڈ یونینز بھی احتجاج کا حصہ بن گئیں۔اسرائیل کی سب سے بڑی ٹریڈ یونین نے 27 مارچ کو مکمل ہڑتال کا اعلان کر دیا۔حکومت کے تابوت میں آخری کیل اسرائیلی فوج کے محفوظ (ریزرو )فوجیوں نے ٹھونکی۔وہ اپنی تربیت کے مراحل چھوڑ کر احتجاجی مظاہروں میں شامل ہونے لگے۔

تربیت کو خیرباد کہنے پہ فوجیوں کو سخت سزا دی جاتی ہے مگر انھوں نے اس کی بھی پروا نہیں کی۔فوجیوں کا کہنا تھا کہ وہ عسکری تربیت پر حکومت مخالف مظاہرہ کرنے کو ترجیح دیں گے۔ایک جنگجو مملکت ہونے کے ناتے اسرائیل میں فوج کو بہت اہمیت حاصل ہے۔

عام لوگ اسے ایک مقدس وبلند مرتبہ ادارہ سمجھتے ہیں۔اسی لیے جب سیاسی بحران نے اسے بھی متاثر کیا اور فوجیوں میں اس کے منفی اثرات مرتب ہونے لگے تو جرنیلوں کے کان کھڑے ہو گئے۔انھوں نے پھر وزیراعظم نینتن یاہو پر دباؤ ڈالا کہ وہ اپنا عدالتی اصلاحات منصوبہ التوا میں ڈال دے ورنہ فوج میں خانہ جنگی ہو سکتی ہے۔

اسرائیلی فوج کے طاقتور جرنیلوں کے اصرار پر آخرکار نیتن یاہو نے 27 مارچ کو اپنا منصوبہ منجمند کر دیا۔اس کا کہنا تھا کہ اپوزیشن لیڈروں سے مشاورت کے بعد اسے لاگو کیا جائے گا۔مگر یکم اپریل کو پھر اسرائیلی عوام بڑی تعداد میں سڑکوںپہ نکل آئے۔انھوں نے مطالبہ کیا کہ نیتن یاہو حکومت نظام عدل وانصاف میں جو تبدیلیاں لانا چاہتی ہے، ان کا منصوبہ فوراً ختم کر دے۔

التوا میں رکھنے کے یہ معنی ہے کہ حکومت عوامی احتجاج سرد ہوجانے کے بعد اسے لاگو کرنے کا مذموم ارادہ رکھتی ہے۔اس دوران اسرائیلی حکومت نے اپنی عوامی شکست کے اثرات ختم کرنے کی خاطر مسجد اقصی پہ دھاوا بول دیا۔شاطر حکمران عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کے لیے ایسی چالیں عموماً چلتے ہیں۔

مقاصد کیا ہیں؟

نیتن یاہو اور اس کے اتحادی سیاسی لیڈر اپنے منصوبے کے ذریعے تین مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں:اول یہ کہ ان کے خلاف چلتے مقدمات ختم ہو جائیں۔دوم یہ کہ مستقبل میں ان کے خلاف کوئی کیس چلنے کا امکان مٹ جائے۔سوم یہ کہ حکومت مستقل طور پر قوم پرست اور قدامت پسند پارٹیوں کے ہاتھ میں آ سکے۔یہ واضح رہے کہ اسرائیل کی آبادی تقریباً 97 لاکھ ہے۔

(یعنی ہمارے صرف ایک شہر، لاہور کے برابر)۔اس میں سے 73.60 فیصد آبادی یہودی مذہب پر عمل پیرا ہے یعنی 71 لاکھ 39 ہزار لوگ۔جبکہ 21.1فیصد آبادی غیر یہودی عرب النسل ہے۔اسرائیلی آبادی کا 18.1فیصد حصہ مسلمان ہے یعنی 17 لاکھ 55 ہزار افراد۔ 71 لاکھ 39 ہزار یہود کے نظریاتی طور پہ دو گروہ ہیں۔تیسرا بہت چھوٹا گروہ اعتدال پسند اور انسان دوست یہود پر مبنی ہے۔یہ اپنی حکومت کی مسلم دشمن سرگرمیوں پر اسے تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔

ایک بڑا یہودی گروہ قدامت پسند، قوم پرست اور انتہا پسند یہود پہ مشتمل ہے۔ یہ مجوزہ آزاد فلسطین ریاست کے مخالف ہیں۔ان کی خواہش ہے کہ فلسطینی ریاست کے علاقوں میں یہودی بستیاں تعمیر ہو جائیں۔

مدعا یہ ہے کہ آزاد ریاست فلسطین نہ بن سکے اور وہ پورے علاقے پر قبضہ کر لیں۔دوسرے بڑے گروہ میں سیکولر اورلیفٹسٹ یہود شامل ہیں۔یہ اپنی شرائط پر آزاد فلسطینی ریاست کا قیام چاہتے ہیں تاکہ پچھلی ایک صدی سے جاری جنگ ختم ہو اور سب چین وسکون کی زندگی گذار سکیں۔دونوں گروہوں میں لوگوںکی تعداد تقریباً برابر ہے۔حالات کے مطابق البتہ کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔

مثال کے طور پر پچھلے الیکشن میں مسلم عرب پارٹیوں نے زیادہ نشستیں جیت لی تھیں۔یوں انھیں حکومت بنانے کے عمل میں بادشاہ گر جیسی حیثیت مل گئی۔عربوں کی اہمیت بڑھنے سے یہودی چوکنا ہو گئے اور انھیں ان سے خطرہ محسوس ہوا۔لہذا اگلے الیکشن میں یہود کی اکثریت نے قوم پرست و مذہبی پارٹیوں کو ووٹ دئیے اور وہ حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئیں۔مگرنیتن یاہو حکومت کی مفاداتی سیاست دیکھ کر قوم پرستوں کو ووٹ دینے والے کئی لیفٹسٹ یہود پچھتا رہے ہیں

۔یہود کے دونوں گروہوں کی اپنی مخصوص سیاسی جماعتیں ہیں۔کبھی ایک گروہ کا پلہ بھاری ہو جاتا ہے، کبھی دوسرا گروہ زیادہ ووٹ لے کر حکومت بنانے میں کامیاب رہتا ہے۔مسئلہ فلسطین نے مگر اسرائیلی معاشرے میں تقسیم در تقسیم کی کیفیت پیدا کر رکھی ہے۔اس صورت حال میں قوم پرستوں اور قدامت پسند لیڈروں کی کوشش ہے کہ وہ اقتدار پہ مستقل قبضہ جما لیں جیسا کہ بھارت میں یہ عجوبہ جنم لے چکا۔ لیکن سیکولر و لیفٹسٹ پارٹیاں راہ کی رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔

معاشرے کے تاروپود بکھر گئے

صورت حال سے آشکارا ہے کہ عدالتی اصلاحات منصوبے کا ایک واضح مقصد یہ ہے کہ قوم پرستوں کے لیے حکومت پر مستقل قبضہ جمانے کی راہ ہموار ہو سکے۔تاہم سیکولر ولیفٹسٹ عوام کے احتجاجی مظاہروں نے ان کا منصوبہ ناکام بنا دیا۔انھوں نے بھی جنگ روکی ہے، ہار نہیں مانی۔عوام کی نظر میں یہ معاملہ قانون وانصاف اور لاقانونیت و ظلم کے درمیان نظریاتی لڑائی بھی بن چکا۔وہ سمجھتے ہیں کہ حکومتی سیاست داں عدلیہ کو اپنا ماتحت بنا کر قانون وانصاف پیروں تلے کچلنا چاہتے ہیں۔

یہ عیاں ہے کہ نیتن یاہو اور اس کے سیاسی ساتھیوں نے ذاتی اغراض ومقاصد پورے کرنے کی خاطر اسرائیلی معاشرے کے تاروپود بکھیر ڈالے۔معاشرے میں نظریاتی اختلاف تشدد کی حدود میں داخل ہو چکا۔نرمی و برداشت کا وجود کم ہو گیا۔اسرائیل میں بستے مسلمان اور فلسطینی مسلم تو پہلے ہی طاقتور یہودی ریاست کے مظالم کا شکار تھے، اب سیکولر و لیفٹسٹ یہود بھی اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ کے نشانے پہ آ چکے۔نیتن یاہو حکومت اپنے مخالفین کی زبان بند کرنے کے لیے مختلف اقدامات کر رہی ہے۔اسی لیے عالمی میڈیا نے اسے مثبت انداز میں پیش نہیں کیا۔حتی کہ امریکی صدر، جو بائیڈن نے نیتن یاہو سے ملنے سے انکار کر دیا۔

کرپٹ اسرائیلی حکمران

مقامی طور نیتن یاہو کو ایک کرپٹ ، آمر اور بے ایمان حکمران کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ جب اعلی عہدوں پر فائز ہوا تو طاقت پا کے کرپٹ بن بیٹھا۔اس نے سرکاری منصوبوں میں کمیشن کھایا اور تقرریاں کرنے میں رشوت لی۔وزیراعظم بنا تو خود کو عقل کل سمجھنے لگا۔کاروباری افراد سے بھاری رقم لے کر ان کے ناجائز کام کراتا رہا۔آخر 2016ء میں نیتن یاہو قانون کے شکنجے میں آیا اور اس پہ کرپشن، فراڈ اور اعتماد شکنی کے مقدمے چلنے لگے جو اب بھی جاری ہیں۔ان مقدمات میں ججوں نے اس کے ساتھ سخت رویّہ رکھااور بطور وزیراعظم اسے کوئی رعایت نہ دی۔ججوں کے قانون پسندانہ و سخت رویّے ہی اسے ان کا مخالف بنا دیا۔

نیتن یاہو اتحادی حکومت میں شامل مذہبی صیہونی جماعت(Religious Zionist)دوسری بڑی پارٹی ہے۔اس کا سربراہ ، بیزلل سموئریش مسلمانوں کا کھلا دشمن ہے۔سرعام کہتا ہے کہ فلسطینی مسلمانوں کو نیست ونابود کر دینا چاہیے۔ناجائز یہودی بستیوں کی تعمیر کا کٹر حامی ہے کیونکہ خود بھی ایک ایسی ہی بستی میں پیدا ہوا۔فلسطینی مسلمانوں کے گھروں اور زمینوں پر زبردستی قبضہ کرنا چاہتا ہے۔مگر اسرائیلی جج اسے یہ غیرقانونی اقدام کرنے سے روک دیتے ہیں۔اسی لیے وہ اپنی اعلی عدلیہ کا مخالف بن گیا اور چاہتا ہے کہ سپریم کورٹ کے ججوں کی طاقت و اختیار کم کر دیا جائے۔

شاس (Shas)نیتن یاہو حکومت میں شامل تیسری بڑی پارٹی ہے۔اس کا سربراہ، آریہ درئی تو سزا یافتہ مجرم ہے۔اس پر کرپشن و فراڈ کے مقدمے چل چکے۔ایک کیس میں اسے سزا ہو گئی۔یہی وجہ ہے جب حالیہ الیکشن کے بعد اسے نائب وزیراعظم بنایا گیا تو 18 جنوری 23ء کو اسرائیلی سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ اسے اس عہدے سے ہٹا دیا جائے کیونکہ سزا یافتہ شخص کسی اعلی سرکاری عہدے پر فائز نہیں ہو سکتا۔اس حکم نے آریہ دائی کو سپریم کورٹ کا دشمن بنا دیا۔اسرائیل کی حکومت میں شامل دیگر جماعتوں کے مختلف قائدین پر بھی مقدمے چل رہے ہیں۔اسی لیے وہ اپنی اعلی عدلیہ کی طاقتیں محدود کرنے کے درپے وبے چین ہیں۔

قانون کے شکنجے میں نہ آئیں

یہ عیاں ہے کہ اسرائیلی سپریم کورٹ نے کم از کم ملکی معاملات میں قانون و انصاف کا علم بلند کر رکھا ہے۔ اسی باعث نیتن یاہو،بیزلل سموئریش ،آریہ درئی جیسے کرپٹ اور بے ضمیر سیاست داں ججوں کی قوت گھٹا دینا چاہتے ہیں تاکہ وہ ان کے کرتوتوں کو قانون کے شکنجے میں نہ کس سکیں۔اور انھیں اپنے شرمناک مفادات کی تکمیل کے لیے کھلی چھٹی مل جائے۔ اسرائیلی سیاست دانوں کو اپنے سپریم کورٹ سے یہ بھی شکایت ہے کہ وہ کابینہ میں جو فیصلے کرتے اور پارلیمنٹ میں جو قوانین بناتے ہیں، جج انھیں کالعدم قرار دیتے ہیں۔

ججوں کا موقف یہ ہے کہ جو فیصلے و قوانین آئین و قانون سے متضادم ہوں گے، وہ برقرار نہیں رہ سکتے۔گویا اسرائیلی سیاست داں آمر وڈکٹیٹر بن کر چاہتے ہیں کہ ان کے ہر فیصلے پر عمل کیا جائے، چاہے وہ قانون وآئین کے برخلاف ہو!اسرائیل میں اگر یہ نظریہ رائج ہو گیا تو نیتن یاہو جیسے مسلم دشمن لیڈروں کو مملکت میں آباد مسلمانوں پہ ظلم وستم کرنے کا گویا لائسنس مل جائے گا۔ابھی تو اسرائیلی سپریم کورٹ نے سیاست دانوں کے ہاتھ کسی حد تک قانونی رسیوں سے باندھ رکھے ہیں۔

نیتن یاہو حکومت کا منصوبہ

عدالتی اصلاحات منصوبے کے حامی سیاست دانوں کا دعوی ہے کہ وہ اسرائیلی عوام کے حقیقی نمائندے ہیں۔وہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر پارلیمنٹ آتے اور فیصلے کرتے ہیں۔لیکن غیر منتخب لوگ(جج)ان فیصلوں پہ عمل درآمد نہیں ہونے دیتے۔اس لیے سپریم کورٹ کی طاقت کم کرنا ضروری ہو گیا۔

وزیراعظم نیتن یاہو کا دعوی ہے کہ عوام نے انھیں عدالتی اصلاحات منصوبے پر عمل درآمد کا حق دیا ہے حالانکہ اسرائیل میں ہونے والے تمام عوامی جائزے عیاں کرتے ہیں کہ عوام کی اکثریت اس منصوبے کی مخالف ہے۔منصوبے کی بدولت سپریم کورٹ میں جو تبدیلیاں آئیں گی، ان کا تذکرہ درج ذیل ہے:

(1)ججوں کی تقرری…اس وقت 9 رکنی کمیٹی سپریم کورٹ کے جج منتخب کرتی ہے۔اس کمیٹی میں تین سپریم کورٹ کے جج، اسرائیلی بار ایسوسی ایشن کے دو نمائندے اور پارلیمنٹ کے چار (دو وزیر ، دو ارکان اسمبلی)شامل ہوتے ہیں۔نیتن یاہو حکومت اسرائیلی بار ایسوسی ایشن کے دو نمائندوں کی جگہ ’’دو عوامی نمائندے ‘‘مقرر کرنا چاہتی ہے جنھیں وزیر قانون منتخب کرے گا۔یوں چھ نمائندے ہونے کی بدولت حکومت کو ججوں کی تقرری کا اختیار مل جائے گا۔

(2) سپریم کورٹ کا فیصلہ کالعدم کرنے کا اختیار…اس وقت سپریم کورٹ کوئی فیصلہ دے تو اسے کہیں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔نیتن یاہوحکومت یہ قانون منظور کرنا چاہتی ہے کہ اگر کنسیٹ (اسرائیلی پارلیمنٹ)میں 120 ارکان اسمبلی میں سے صرف 61 ارکان سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ غلط قرار دیں تو وہ کالعدم ہو جائے گا۔گویا اس طرح پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کا فیصلہ ختم کرنے کا اختیار مل جائے گا اور وہ سپریم حیثیت حاصل کر لے گی۔

(4) نظریہ معقولیت کا خاتمہ…سپریم کورٹ اس وقت ’’نظریہ معقولیت‘‘کی بنیاد پر پارلیمنٹ کے قوانین، کسی وزیر کی تقرری اور حکومت کے سبھی فیصلوں کو جانچے پرکھنے کی طاقت رکھتا ہے۔ اسی نظرے کے تحت آریہ درئی کی بطور نائب وزیراعظم تقرری ختم کی گئی کیونکہ وہ سزایافتہ مجرم ہے۔نیتن یاہو اس نظریے کا خاتمہ چاہتی ہے تاکہ سپریم کورٹ اسے استعمال نہ کر سکے۔

(4)قانونی مشیر کی قوت ختم…فی الوقت سپریم کورٹ حکومتی وزرا کے قانونی مشیروں کا تقرر کرتی ہے۔اسی لیے کوئی وزیر کرپشن یا کوئی بھی غیرقانونی کام کرے تو قانونی مشیر اسے عدالت میں گھسیٹ لیتے ہیں۔نیتن یاہو حکومت چاہتی ہے کہ وزرا کو اپنے قانونی مشیر مقرر کرنے کا اختیار مل جائے۔نیز قانونی مشیر کا فیصلہ حتمی نہ ہو بلکہ وزیر اسے رد کر سکے۔

درج بالا تبدیلیوں سے واضح ہے کہ ان کی منظوری سے پارلیمنٹ اور حکومت، دونوں ڈکٹیٹر بن جائیں گی۔اس طرح نہ صرف اسرائیلی سپریم کورٹ کی طاقت وحیثیت کو ضعف پہنچے گا بلکہ مملکت میں جمہوریت بھی کمزور ہو جائے گی۔اسی لیے سپریم کورٹ کی چیف جسٹس ، ایستھر حالوت نے عدالتی اصلاحات منصوبے کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ان کا کہنا ہے:’’یہ منصوبہ ریاست میں عدالتی نظام کا بھرکس نکال دے گا۔جبکہ جمہوریت پہ کاری وار کرے گا۔اس کے ذریعے اکثریت کی حکومت آمریت کا روپ دھار لے گی۔سپریم کورٹ پھر ایسے قوانین مسترد کرنے کی قوت کھو بیٹھے گا جو انسانی حقوق کی نفی کرتے ہیں۔‘‘

اسرائیل میں بعض دانشوروں کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ بہت طاقتور ادارہ بن چکا۔اس لیے حکومتی عناصر کے مابین توازن نہیں رہا۔تاہم ماہرین سیاسیات کی اکثریت کے مطابق عدالتی اصلاحات منصوبہ لاگو ہونے سے حکومت کو ’’بلینک چیک‘‘ مل جائے گا۔پھر اس کے من میں جو آیا، وہ آزادی سے ، بلا روک ٹوک انجام دے گی۔لہذا حکومت کی جانچ پڑتال کرنے اور اسے حدود میں رکھنے کی خاطر سپریم کورٹ کا مضبوط ومستحکم ہونا ضروری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔