مجھے نہیں چاہیے…

شیریں حیدر  اتوار 20 اپريل 2014
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

جب سے امی جان کے دل کا آپریشن ہوا ہے وہ بہت سی چیزوں سے گھبراتی ہیں… تنگ اور رش والی جگہوں سے، طویل قطاروں میں کھڑے ہونے سے… ہوائی سفر سے، گہرائی میں اور اونچائی کی طرف دیکھنے سے، کسی کے بین کرنے یا باآواز بلند رونے سے، بہت اونچا بولنے والوں سے… جانے اس خوف کو انگریزی میں کیا کہیں گے مگر وہ ایسی ہی ہو گئی ہیں… چار ماہ قبل والد محترم کی وفات کے بعد مجھے وہ اور بھی سہمی سی لگتی ہیں، انھیں یہ بھی لگتا ہے کہ اب انھیں اور بہت زیادہ وقت نہیں ملے گا اس دنیا میں۔ ہمیشہ سے ہی وہ ایسے وقت کی بابت بات کرتی اور ہمیں بتاتی رہتی ہیں کہ  Dos and Dontsکیا ہو ، اب ان میں شدت آگئی ہے۔

اب کے ان کے پاس جانے کا مقصد یہی تھا کہ چھٹی کے علاوہ کے دن ہوں اور میں ان کے کچھ پھنسے ہوئے کام کروا سکوں جو کہ معمول کے ویک اینڈ کے دوروں میں ممکن نہیں ہوتے۔ عمر بھر میں، پہلی بار کورٹ کچہریوں میں اور سرکاری بینک میں جانے کا اتفاق ہوا جو کہ ہرگز خوشگوار نہ تھا۔میں تو پھر عمر کے اس حصے میں ہوں کہ جہاں لہجوں اور رویوں کی سختی کی عادت ہے… مگر امی جان تو ایسی چیزوں سے ہمیشہ نہ صرف دور رہتی ہیں بلکہ گھبراتی بھی ہیں۔

میں ان کے ناتواں ہاتھ کو تھامے… گجرات کی کچہری میں ڈسٹرکٹ اکاؤنٹ آفس میں … ایک تنگ اور طویل، گھمن گھیریوں والے راستے پر اپنے ایک محترم  پڑوسی انکل کی راہنمائی میں چلتی جا رہی تھی، وہ خود  سرکاری بینک کے پنشن یافتہ ہیں اور والد صاحب کی زندگی میں ان کے ایسے معاملات میں ہمیشہ ان کی مدد اور راہنمائی کرتے رہے ہیں۔ لگ بھگ ان ہی کی عمر کے بزرگ جنھیں اپنے کام کی خاطر خوار ہوتے دیکھنا بھی تکلیف دہ تھا۔

چند دن قبل ہی انھوں نے اس دفتر کا دورہ کر کے معلومات حاصل کیں اور بتایا تھا کہ امی جان کی بالمشافہ حاضری کی ضرورت ہے… اس حاضری کی خاطر ہی میں اس روز وہاں موجود تھی۔ تین فٹ کی لابیوں میں … ہر سامنے سے آنیوالے سے تقریبا ٹکراتے ہوئے ہم اس کلرک کے دفتر میں پہنچے جہاں کسی منتظر کے لیے کرسی تک نہ تھی۔ اس نو فٹ چوڑے اور دس فٹ لمبے دفتر میں دو دفتری میزوں اور کرسیوں کے بعد چار افراد کے کھڑے ہونے کی جگہ بھی نہ تھی، کجا یہ کہ وہاں کم از کم دس لوگ کھڑے تھے اور آوازوں سے وہ دفتر کسی منڈی کا منظر پیش کر رہا تھا، میں داخل ہونے سے پہلے رکی کہ شاید کوئی انتظار گاہ نظر آئے تو کم از کم امی جان کو وہاں بٹھاؤں… انکل نے آواز دی کہ اندر آ جائیں، ہم سکڑتے سمٹتے اندر گئے، ایک ٹوٹی سی کرسی جس سے کلرک غالبا اسی وقت اٹھ کر گیا تھا، اس پر امی جان کو بٹھایا۔

دوسری میز کے سامنے بیٹھے ہوئے کلرک بادشاہ اپنی گفتگو، طرز تخاطب اور انداز سے ہی ’’ بادشاہ‘‘ لگ رہے تھے۔ ہر درخواست گزار کو وہ کسی نہ کسی طرح ٹرخا رہے تھے، کسی کے کاغذوں میں کچھ کمی تھی کسی کے کچھ۔ ہم بھی ان سے ممکنہ ’’ بے عزتی ‘‘ کے منتظر بیٹھے تھے۔ جب دس بارہ لوگوں کا ہجوم چھٹا  تو ان کی ’’ نظر کرم ‘‘ ہم پر پڑی۔’’ جی کس لیے آئے ہیں؟ ‘‘ انھوں نے اپنے اسی اکھڑ لہجے میں سوال کیا۔’’ آپ کے دیدار کے لیے… ‘‘ جواب میرے منہ میں ہی رہ گیا۔

’’ یہ  پنشن کی منتقلی کا کیس ہے… ‘‘ انکل نے اسے بتاناشروع کیا، ’’ میں سارے کاغذ لے کر آیا تھا تو آپ نے کہا تھا کہ بیوہ کی حاضری ضروری ہے… ‘‘

’’ اچھا… ‘‘  انھوں نے مجھے ڈانٹنے کی حسرت دل میں ہی دبا لی اور کاغذات پکڑ کر اچٹتی سی نظر امی جان پر ڈالی… ’’  گواہ کہاں ہے؟ ‘‘ انھوں نے سوال کیا۔

’’ کون سا گواہ؟ ‘‘  انکل نے سوال کیا۔

’’ جو اس بات کی تصدیق کرے کہ یہی مرحوم کی بیوہ ہیں… ‘‘ ان کلرک بادشاہ نے کہا۔’’ میں اس بات کی تصدیق کر رہا ہوں ناں… ‘‘ انکل نے کہا۔

’’ آپ نہیں بلکہ ڈی پی او کے دفتر میں … نام کا ایک کلرک ہے، وہ بالخصوص اسی کام کے لیے ہے… آپ جا کر اسے لے آئیں! ‘‘ انھوں نے کہہ کر بے نیازی سے رخ پرے کیا اور دوسرے لوگوں کو ڈانٹنے لگے۔

انکل کی ہمراہی میںہم باہر نکلے… ہم گاڑی میں بیٹھے اور وہ پیدل ہی ڈی پی او کے دفتر چل دیے جہاں انھیں اس کلرک کو ملنا تھا اور اس سے کہنا تھا کہ وہ آ کر گواہی دے دے ۔ وہ مل تو گیا مگر اس کا سوال تھا کہ وکیل کہاں ہے؟

’’ کون سا وکیل؟ ‘‘ انکل نے پوچھا تو اس نے بتایا کہ پہلے آپ وکیل کریں اور وہ وکیل پہلے تمام کاغذات کی جانچ پڑتال کریں گے پھر اسے بلائیں گے کہ ان کی تصدیق کے مطابق وہ گواہی دے… مایوس اور بے مراد وہاں سے لوٹے۔ سارا راستہ میں سوچتی رہی کہ جن لوگوں کا کوئی والی وارث نہیں ہوتا اور ان کے لیے کوئی بھاگ دوڑ کرنے والا نہیں ہوتا… ان کے ساتھ یہ ادارے کیا کرتے ہیں۔

امی جان نے اگر اس سارے وقت میں کوئی بات کی تو وہ یہ تھی کہ مجھے نہیں چاہیے پنشن… رہنے دو! مجھ سے نہیں یوں دفتروں اور بینکوں میں جا جا کر ذلیل ہوا جاتا۔ میں انھیں سمجھا رہی تھی کہ کوئی انھیں خیرات یا زکوۃ نہیں دے رہا، یہ ان کا حق ہے اور ٹھیک ہے ان اداروں نے بھی تصدیق کرنا ہوتی ہے کہ حقدار کو ہی حق ملے۔سرکاری بینک میں جانا اس سے بھی بڑا تجربہ تھا، وہاں کے حالات لکھنے لگو تو کئی اور ورق سیاہ ہوں گے۔ امی جان کو جو بھی تسلی دوں وہ اپنی جگہ… مگر اس تیز ترین دور میں بھی جہاں دیہات اور گاؤں میں بھی انٹرنیٹ اور کمپیوٹر عام ہیں… ہمارے گاؤں میں بھی پیدائش اور وفات کے سرٹیفکیٹ کمپیوٹرائزڈ جاری کیے جاتے ہیں، شہروں میں اس بوسیدہ نظام کو کیوںکر تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔

جہاں دکھ کے مارے اور اداس لوگ اپنے پیاروں کو کھونے کے بعدان کی پنشن ، اکاؤنٹ یا وراثت کا دعوی کرنے کو جاتے ہیں، وہاں پر ایسے سڑیل مزاج لوگوں کی بجائے ان لوگوں کوکیوں نہیں بٹھایا جا سکتا جو کہ اپنی زبان میں مٹھاس اور لہجے میں شیرینی رکھتے ہو… تلخ سے تلخ بات بھی اس لہجے میں کریں کہ سننے والے کی گوش کو گراں نہ گزرے،اور ان کی مدد کریں نہ کہ ان کی حوصلہ شکنی۔

کیا ہمارا میڈیا اس میں معاون ثابت نہیں ہو سکتا کہ مختلف پروگراموں کے ذریعے عام لوگوں کو بتائے کہ سرکاری محکموں میں کام کا طریقہء کار کیا ہے… شناختی کارڈ، پاسپورٹ، بینک اکاؤنٹ، پنشن، پیدائش ، شادی اور موت کا اندراج… اور دیگر کئی ایسے مسائل اور معاملات جن سے ہر آدمی کا عام زندگی میں واسطہ پڑتا رہتا ہے۔

اشتہارات کے ذریعے بھی لوگوں کو ان معاملات کی بابت بتایا جا سکتا ہے… کم از کم یہ کہ کس معاملے میں کہاں جانا چاہیے اور اس سے قبل کیا کیا دستاویزات ہمراہ لے کر جانا چاہیے… نہ کہ دفتروں میں رل رل کر ذلیل و خوار ہوں اور بیزار ہو کر بالآخر یہ کہیں کہ نہیں چاہیے ہمیں یہ سب… مگر ہمارے ہاں  تو اشتہارات میں زور اس بات پر دیا جاتا ہے کہ بچوں کی پیدائش میں وقفہ کس طرح ہو، گرل فرینڈ سے رات رات بھر باتیں کس طرح ہوں … کون سا پینٹ اچھا ہے اور کون سا برا… لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا… آسان کام ہے، مگر ہم مشکل کام کا انتخاب کرتے ہیں کہ انھیں راہ سے بھٹکا کر ان کے لیے مزید مشکلات پیدا کرتے ہیں!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔