فلسطین پر اسرائیلی مظالم اور امریکا کی منافقت

امریکا اتنا طاقتور اور حقوق کا پاسدار ہونے کے باوجود اسرائیلی مظالم پر خاموش کیوں ہے؟


امریکا فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم سے چشم پوشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ (فوٹو: فائل)

احمد رضا میرا سات سالہ بھانجا ہے۔ کہانیاں سننا اس کا محبوب مشغلہ ہے۔ اس کے پاس ہر وقت سوالوں کی پٹاری موجود رہتی ہے۔ کب، کیوں، کہاں، کون، کیسے اور کدھر، جیسے الفاظ تو جیسے اس کا تکیہ کلام ہیں۔ سوالات کی نوعیت کچھ اس طرح کی ہوتی ہے کہ مینار پاکستان دیکھنے کے بعد موصوف نے پہلا سوال یہ کیا کہ یہاں اذان کون دیتا ہے؟

آج بہت عجیب واقعہ ہوا۔ میں اپنی اسٹڈی ٹیبل پر مطالعہ کررہا تھا کہ احمد رضا کمرے میں داخل ہوا۔ کتابوں کی الماری سے چند کتابیں دیکھیں اور پھر رکھ کر میرے پاس آگیا۔ ٹیبل کی دراز کھول کر اس میں سے چند تصاویر نکال کر دیکھنے لگا۔ میں چونکہ مطالعے میں مصروف تھا تو مجھے مخاطب کرکے بولا ''ماموں! یہ کس کی تصویر ہے؟'' میں نے بتایا کہ یہ امریکا کی ایک فیملی کی تصویر ہے اور دوبارہ مطالعے میں مصروف ہوگیا۔ احمد رضا نے اس تصویر کے بارے میں جاننے پر اصرار کیا۔ میں نے کتاب کو بند کیا اور احمد کو تصویر کے بارے میں بتانا شروع کیا۔

''اس تصویر میں تین کردار ہیں۔ 32 سالہ بل، 8 سالہ بیٹا جم اور ان دونوں کا پالتو کتا ٹم۔
ہوا کچھ یوں کہ ویک اینڈ پر بل اپنے پالتو کتے کے ساتھ گھر کے لان میں کھیل رہا تھا۔ وہ بیٹ سے بال کو ہلکا سا ہٹ کرتا اور ٹم بھاگتا ہوا جاتا اور بال کو اپنے منہ سے اٹھا کر لے آتا۔ یہ معمول جاری تھا کہ اچانک ٹم اپنے مالک بل سے خفا ہوگیا اور ایک سائیڈ پر خاموشی سے بیٹھ گیا۔ اتنے میں بل کا بیٹا جم باہر سے آیا اور آکر ٹم کو پکڑنے کےلیے آگے بڑھا۔ چونکہ ٹم غصے میں تھا، سو اس نے جم پر حملہ کردیا اور جم کے نازک گالوں میں ٹم کے نوکیلے دانت نقش ہوکر رہ گئے۔ بل چونکہ باپ تھا، وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا۔ اس نے بلا اٹھایا اور ٹم کے سر پر وار کیا۔ یہ سارا ماجرا ان کا ایک ہمسایہ دیکھ رہا تھا۔ اس نے پولیس اور ایمبولنس کو کال کی۔ ابھی جم کی فرسٹ ایڈ مکمل نہیں ہوئی تھی کہ پولیس ایمبولنس اور جانوروں کے حقوق کی تنظیمیں پہنچ گئیں۔ لیکن بہت دیر ہوچکی تھی کیونکہ ٹم مرچکا تھا۔''

''اُف!'' احمد رضا کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ احمد بہت دلچسپی سے کہانی سن رہا تھا۔ اسٹول کو ٹیبل کے مزید نزدیک کرکے اس نے معصومانہ انداز میں پوچھا ''پھر کیا ہوا؟''

''پھر بل کو پولیس نے گرفتار کرلیا۔ امریکا میں بل کو سخت سے سخت سزا دینے کےلیے شہریوں اور جانوروں کے حقوق کی تنظیموں نے بھرپور مظاہرے اور احتجاج کیے۔ کورٹ میں یہ کیس بل، ٹم کے نام سے چلا۔ اخبارات نے اس پر اداریے لکھے، ٹی وی چینلز نے تبصرے اور تجزیے نشر کیے۔ آخرکار بل کا نفسیاتی معائنہ کرکے یہ بات ثابت کی گئی کہ وہ ایک نفسیاتی مریض ہے اور اسے اس بات پر رہا کیا گیا کہ وہ اپنی باقی تمام زندگی کتوں کی دیکھ بھال اور ان کی خدمت کےلیے وقف کرے گا۔''

کہانی سننے کے بعد احمد نے اس پر ہلکا سا تبصرہ بھی کیا۔ ''امریکا میں جانوروں کے حقوق اتنے محفوظ ہیں تو انسانوں کے تو اور بھی زیادہ محفوظ ہوں گے۔'' اسے امریکا کا کردار بہت اچھا لگا اور کہنے لگا ''ماموں! آئی لو امریکا''۔

احمد رضا نے دوسری تصویر آگے بڑھائی اور اس کی کہانی سنانے کی فرمائش کی۔ میں اس تصویر کی کہانی اسے نہیں سنانا چاہتا تھا لیکن اس کا اصرار ضد کی شکل اختیار کرگیا سو کہانی سنانی پڑی۔

''اس تصویر میں بچے اور خواتین خون میں لت پت پڑے ہیں، خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں۔ یہ جاپان کے علاقے ہیروشیما اور ناگاساکی کی تصویر ہے۔ کسی بات پر جب جاپان اور امریکا میں حالات کشیدہ ہوئے تو امریکا نے غصے کا مظاہرہ کرتے ہوئے جاپان پر ایٹم بم گرا دیے اور وہاں پھر یہ حال ہوا کہ کئی برسوں تک زمین میں نہ فصل اُگی اور نہ ہی وہاں صحت مند بچے پیدا ہوئے۔''

احمد نے خود ہی تصویر سائیڈ پر رکھی اور کہا ''امریکا بہت طاقتور بھی ہے''۔

اب اس نے تیسری تصویر میرے سامنے رکھی۔ پانی کا ایک گھونٹ پیا اپنی کہنیاں میز پر رکھ کر اپنے ہاتھوں پر چہرے کو ایڈجسٹ کیا اور معصومانہ انداز میں بولا ''ماموں! پلیز؟''

''یہ تصویر بھی کوئی اتنی خوبصورت نہیں۔ یہاں بھی خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔ تصویر میں جس کا سر ہے اس کا دھڑ نہیں اور جس کا دھڑ ہے اس کا سر نہیں۔ کہیں تو مائیں بچوں کے جسم کے ٹکڑے اٹھائے رو رہی ہیں، تو کہیں بچے ماؤں کی لاشوں پر آنسو بہا رہے ہیں۔ کسی جگہ اولاد اپنے والدین کی لاشوں کی متلاشی ہے تو کسی جگہ بزرگ والدین اپنی نوجوان اولاد کو کمزور کندھوں پر اٹھائے دفنانے جارہے ہیں۔ کہیں مساجد مسمار پڑی ہیں، تو کہیں اسکولز اور کالجز کھنڈرات کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ اس تصویر میں مساجد، اسکولز، کالجز، یونیورسٹیز اور اسپتالوں پر بم برسائے جارہے ہیں۔

یہ تصویر فلسطین کی ہے جس پر یہ سارا ظلم و ستم اسرائیل کررہا ہے۔ رمضان المبارک کی عظیم شب کو جب فلسطینی مسجد اقصیٰ میں عبادت کررہے تھے تو اسرائیل نے وہاں بم گرائے اور دہشت گردانہ حملے شروع کردیے۔ وہاں درجنوں شہادتیں ہوئیں، ہزاروں زخمی اور ہزاروں ہی بے گھر ہوئے۔
مسجد اقصیٰ چونکہ ہمارا قبلہ اول ہے، اس لیے ہم مسلمان اسے چھوڑنا نہیں چاہتے اور ظلم و ستم برداشت کررہے ہیں۔''

احمد نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا ''ماموں جب امریکا کو پتا چلے گا، پھر پتا چلے گا اسرائیل کو کہ وہ کیسے ظلم کرتا ہے۔''

میں نے احمد کو امریکا کے خواب غفلت کے بارے میں بھی بتایا۔ وہ بہت حیران ہوا۔ میں نے اس کے ہاتھ سے تصویروں کا البم لیا اور دراز میں رکھ دیا کیونکہ ابھی برما، کشمیر، افغانستان، عراق، بوسنیا اور چیچنیا کی تصویریں موجود تھیں۔

احمد یہ کہتا ہوا کمرے سے چلا گیا کہ ''امریکا اتنا طاقتور اور حقوق کا پاسدار ہونے کے باوجود خاموش کیوں ہے؟''

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مقبول خبریں