بھارتی فوج نے عیدالفطر کو خون آلود کر دیا

سید عاصم محمود  اتوار 23 اپريل 2023
زعم ِطاقت اور انتقام کی آگ میں جل کر جب بھارتی فوجی افسروں نے بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام کیا…لرزہ خیز داستان ۔ فوٹو : فائل

زعم ِطاقت اور انتقام کی آگ میں جل کر جب بھارتی فوجی افسروں نے بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام کیا…لرزہ خیز داستان ۔ فوٹو : فائل

آپ نے شاید مالیانہ اور ہاشم پورہ کا نام نہ سنا ہو مگر یہی وہ بدقسمت مقام ہیں جہاں آج سے چھتیس سال قبل مئی 1987ء میں عیدالفطر سے چند دن پہلے بھارت میں قانون وانصاف کے رکھوالے پھیڑیے بن گئے تھے۔

انھوں نے ایک سو سے زائد مسلمان مرد، خواتین اور بچے بے رحمی سے شہید کر ڈالے اور سیکڑوں مسلمانوں کے ہنستے بستے گھر ماتم کدہ بنا دئیے۔عید کا پُرمسرت موقع ان مسلمانوں کے لیے آہ وبکا کا سامان بن گیا۔خدا کسی دشمن کو بھی ایسا خوفناک دن نہ دکھائے۔

اہل پاکستان کا فرض ہے کہ وہ عید سعید کے خوشیوں بھرے لمحات میں ان شہدا مسلمانوں کی اذیت وبے کسی فراموش نہ کریں۔

چونکا دینے والی بات یہ کہ مسلمانوں کا قتل عام محض وحشی غنڈوں یا نفرت کی آگ میں جلتے مذہبی انتہا پسندوں کی کارروائی نہیں تھا بلکہ یہ بھارتی فوجی افسروں ، پولیس افسروں ،بی جے پی کے سیاست دانوں اور سرکاری افسروں(بیوروکریسی) کی باقاعدہ رہنمائی میں انجام پایا تھا۔کہا جاتا ہے کہ اس خوفناک واقعے کی صورت مقامی بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے مسلمانان ِمیرٹھ کو عیدالفطرکا ’’تحفہ‘‘دیا تھا۔

سرکاری مشینری مجرم بن گئی

دماغ چکرا دینے والی بات یہ کہ مسلمانوں کے قتل عام کے بعد بھارت کی پوری مشینری…بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کے دفتر سے لے کر مقامی تھانوں کے انچارجوں تک مجرم فوجی افسروں ، سیاست دانوں ،سرکاری افسروں اور پولیس افسروں کو بچانے کی کوشش کرتی رہی۔انھیں مقدمات سے الگ رکھنے کی خاطر شہادتیں ضائع کر دی گئیں۔یا پھر ان میں ردوبدل کیا گیا۔

کسی تحقیقاتی ایجنسی نے ان سے پوچھ گچھ نہ کی۔چناں چہ بھیانک اور خون آشام قتل عام انجام دینے والے سفاک مجرم آج بھی آرام و آسائش کی زندگی گذار رہے ہیں۔

اگر ضمیر انھیں سوئیاں چبھوتا ہو تو یہ الگ بات ہے۔ایک اور نمایاں امر یہ کہ بعد ازاں عدل وانصاف کا پرچم بلند رکھنے کا دعوی کرنے والے بھارتی جج بھی اپنے غافلانہ بلکہ مجرمانہ طرزعمل کی وجہ سے مسلمانوں پہ توڑے ظلم وستم میں مجرموں کے شریک کار بن گئے۔مالیانہ قتل عام پہ مقدمہ چلنے لگا تو 93 ہندو ملزم نامزد کیے گئے۔مقدمہ چلتا رہا، چلتا رہا، چلتا رہا۔اس دوران 23 ملزم مر کھپ گئے۔31 ملزم فرار ہو گئے اور بھارتی پولیس کے مطابق ان کا کوئی اتا پتا نہیں ۔

خدا خدا کر کے اپریل 2023ء کے پہلے ہفتے سیشن جج نے اس کیس کا فیصلہ سنایا…اور بقیہ ملزم رہا کر دئیے کیونکہ بقول بھارتی منصف کے ان پہ جرم ثابت نہیں ہو سکا۔سبھی ملزم پاک و پوتر بن کر ہنسی خوشی عدالت سے نکلے جبکہ مالیانہ کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ ان کے ہاتھ مسلمانوں کے لہو سے رنگے ہیں۔اسی طرح ہاشم پورہ کا قتل عام انجام دینے والے فوجی بھی بہ آرام اپنے گھروں میں رہ رہے ہیں۔

سولہ فوجیوںزپر مقدمہ چلایا گیا۔2015ء میں سیشن جج نے انھیں رہا کر دیا۔2016ء میں ایک ریٹائرڈ پولیس افسر کی شہادت پرہائی کورٹ نے انھیں عمر قید کی سزا دی ۔مگر وہ سپریم کورٹ سے ضمانت پہ رہا ہو گئے۔اب سپریم کورٹ میں ان کا مقدمہ زیرسماعت ہے اور نجانے کتنے برس رہے گا۔اس دوران مجرم مر کھپ جائیں گے۔

یہ سبھی رہا شدہ ملزم مگر پیادے تھے،فٹ سولجر، جبکہ بھارتی فوج ، شعبہ سیاست، بیوروکریسی اور پولیس کے حقیقی اعلی مجرم افسروں پر تو مقدمہ چلا ہی نہیں، جھوٹ بول کر اور قانونی موگشافیوں کے ذریعے انھیں معزز و محترم بنا دیا گیا۔یہ ہے بھارتی حکمران طبقے کی اصل زہریلی حقیقت جبکہ کاٹجو مرکنڈے جیسے بھارتی جج پاکستانی نظام عدل و حکومت کا مذاق اڑاتے ہیں۔

جناب من، پہلے اپنے نظام عدلیہ وحکومت کی پستی وپاتال کی گہرائی تو ناپ لیجیے۔بھارتی ججوں کے غیر منصفانہ فیصلوں نے نہ صرف قانون وانصاف کو پیروں تلے روند ڈالا بلکہ یہ چشم کشا حقیقت بھی واضح ہو گئی کہ بھارت میں پورا حکومتی ڈھانچا اب آر ایس ایس و دیگر انتہا پسند تنظیموں کے قبضے میں ہے۔

یہی وجہ ہے، یہ حکومتی مشینری ان ہندو غنڈوں اور دہشت گردوں کو کسی صورت سزا نہیں ہونے دیتی جو مسلمانوں پہ ظلم وتشدد کرنے میں ملوث ہوں۔

اس پالیسی نے بھارتی نظام عدلیہ کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔حتی کہ بیرونی میڈیا بھی جانتا ہے کہ بھارتی عدالتوں سے مسلمانوں کو انصاف کبھی نہیں مل سکتا۔چھوٹی عدالتوں سے مل بھی جائے تو اعلی عدالتیں حق پہ مبنی فیصلے کو قتل کر دیتی ہیں۔

فساد کا آغاز

مالیانہ اور ہاشم پورہ برعظیم پاک وہند کے ممتاز شہر، میرٹھ کی مسلم بستیاں ہیں۔میرٹھ کی قینچیاں بہت مشہور ہیں۔پھر یہ اس لحاظ سے شہرت رکھتا ہے کہ 1857ء کی جنگ آزادی کا آغاز یہیں سے ہوا تھا۔شہر میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی ایک بڑی چھاؤنی واقع تھی۔وہاں ہندو و مسلم فوجیوں نے انگریزوں کے خلاف پرچم ِآزادی بلند کر دیا۔

تب مسلمانوں اور ہندوؤں نے متحد ہو کر قابضین کا مقابلہ کیا تھا۔مگر آج بھارت کے فاشسٹ حکمران یہ تاریخی سچائی مٹا دینے کے درپے ہیں کیونکہ مسلم ہندو اتحاد ان کی نفرت انگیز سیاست کا خاتمہ کر انھیں اقتدار سے محروم کر سکتا ہے۔

ان کی ترقی و سلامتی کا ضامن تو میرٹھ جیسا خوفناک ہندو مسلم فساد ہے جو رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں ظہورپذیر ہوا۔اس فساد میں ساڑھے تین سو سے زیادہ مسلمان شہید ہوئے تھے۔

اہم ترین بات یہ کہ فساد کے آخری دنوں میں بھارتی فوجی افسروں کی زیرقیادت بڑے لرزہ خیز طریقے سے مسلمانوں کا قتل کیا گیا۔یہ کوئی دعوی نہیں بلکہ اس ضمن میں باقاعدہ دستاویزی شہادتیں موجود ہیں۔

اس مسلم قتل عام کی چشم کشا اور رونگٹے کھڑے کر دینے والی داستان بھارتی ریاست اترپردیش کے سابق ڈائرکٹر جنرل پولیس، وبھوتی نارائن رائے (Vibhuti Narain Rai)نے اپنی کتاب ’’ہاشم پورہ ۲۲ مئی‘‘(Hashimpura 22 May: The Forgotten Story of India’s Biggest Custodial Killing)میں تفصیل سے بیان کی ہے۔

1987ء میں وبھوتی نارائن میرٹھ کے نزدیکی شہر، غازی آباد میں بطور ایس ایس پی تعینات تھے۔فوجیوں نے غازی آباد کے علاقے میں ٹرک پہ لے جا کر مسلمان شہید کیے تھے۔

اس باعث وبھوتی صاحب کو علم ہوا کہ بھارتی فوجی افسر مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث ہیں۔وہ ایک قانون پسند و بااصول پولیس افسر تھے۔ان کے اصرار ودباؤ ہی پر قتل عام کے سلسلے میں پہلی ایف آئی آر درج کی گئی۔اس عمل نے مقامی انتہاپسندوں کی صف میں اشتعال پیدا کر دیا کیونکہ اب وہ قانون کے شکنجے میں جکڑے جا سکتے تھے۔قانون کا پہیہ حرکت میں تو آیا مگر وہ جلد مسلم دشمن حکومتی مشینری کی وجہ سے پُھس ہو گیا۔

1987ء میں رمضان المبارک کے دوران اور عیدالفطر سے چند دن قبل مسلمان ِ میرٹھ کا قتل عام ریاست بھارت کے دامن پر انتہائی بدنما اور گھناؤنا داغ ہے…کیونکہ اسے بھارتی فوج، سیاست دانوں، بیوروکریسی ، پولیس اور عدلیہ نے انجام دیا جن پر قانون و انصاف کو تحفظ دینے کی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔

یہ قتل عام بھارتی حکمران طبقے کا حقیقی مکروہ چہرہ سامنے لاتا ہے جو نفرت انگیز پالیسیوں سے داغدار ہے۔افسوس کہ مفادات کی اسیر اور بظاہر انسانی حقوق کی چیمپئن مغربی طاقتوں نے اسی بھارتی حکمران طبقے کو سر آنکھوں پہ بٹھایا ہوا ہے۔

سب سے بڑی سرکاری غنڈہ گردی

میرٹھ کے مسلم اکثریتی علاقوں،ہاشم پورہ اور مالیانہ میں بھارتی فوجی افسروں کی زیرقیادت انجام پائے مسلمانوں کے قتل عام کو وبھوتی نارائن نے بھارتی حکومت کی تاریخ میں ’’سب سے بڑی سرکاری غنڈہ گردی اور دہشت گردی ‘‘قرار دیا ہے۔بھارتی فوجیوں نے 22 مئی 1987ء کی شب ہاشم پورہ کے 49 مسلمانوں پہ گولیوں کی بوچھاڑ کر دی تھی۔

اس سانحے میں صرف چھ مسلمان بچ پائے۔اور پھر اگلے دن اپنے افسروں کی زیرقیادت فوجیوں نے بی جے پی کے انتہا پسندوں کے ساتھ مل کرمالیانہ میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی۔اس فساد میں 72 مسلمان شہید ہوئے جبکہ کئی سو زخمی ہو گئے۔

اس قسم کے خوفناک واقعات صرف انہی ملکوں میں وقوع پذیر ہوتے ہیں جہاں لاقانونیت اور وحشت کا راج ہو، جیسے کانگو، روانڈا، ویت نام اور وسطی امریکا کے ممالک۔بھارت تو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتا ہے۔آخر وہاں بھارتی فوجی افسروں کی قیادت میں مسلم شہریوں کا قتل عام کیونکر انجام پایا؟دراصل اس کے پیچھے ہمیں نفرت آلودہ سیاست اور انتقام کی آگ کارفرما دکھائی دیتی ہے۔

بھارت کی ستترسالہ تاریخ سے عیاں ہے کہ وہاں کئی بار تمام حکومتی عناصر…فوج، سیاست داں، بیوروکریسی، عدلیہ ،پولیس حتی کہ میڈیا مسلمانوں کے منظم وباقاعدہ قتل عام میں حصّہ لے چکے۔اس کی شروعات قیام بھارت کے فوراً بعد انتہا پسندوں نے ہجرت کرتے مسلمانوں پر حملے کرنے سے کی تھی۔تب لاکھوں مسلمان گاجر مولی کی طرح کاٹ دئیے گئے تھے۔

اس دوران دسمبر 1949ء کی رات ہندو اسٹیبلشمنٹ کے زیرسایہ انتہاپسندوں نے بابری مسجد میں بت کھ کر گویا مسلمانوں کو پیغام دیا کہ اب انھیں اکثریت کی مرضی ومنشا کے مطابق رہنا بسنا ہو گا۔بھارت کے بظاہر سیکولر اور انسان دوست حکمرانوں نے بھی مسلمانوں کو کھلونا بنائے رکھا۔جب تک ان کے مفادات پورے ہوتے، وہ مسلمانوں کے مربی وسرپرست بنے رہتے۔جیسے ہی مفاد ختم ہوتا، وہ انھیں بھیڑیوں کے آگے ڈال دیتے۔مثال کے طور پر وزیراعظم راجیو گاندھی کو لیجیے جسے بھارتی دانشور اصول پرست اور انسانی حقوق کا محافظ گردانتے ہیں۔

اس نے ہندو ووٹروں کو خوش کرنے کی خاطر فروری 1986ء میں بابری مسجد انتہاپسندوں کے سپرد کر ڈالی۔راجیو گاندھی حالانکہ جانتا تھا کہ اس اقدام سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوں گے اور اکثریت و اقلیت کے مانین ٹکراؤ جنم لے گا۔اس نے مگر اپنی حکومت برقرار رکھنے اور ووٹوں کے لالچ میں ہندو مسلم کے درمیان ایسی آگ لگا دی جو اب تک نہیں بجھ سکی۔

انتہا پسندوں کی چال

بھارتی مسلمان بابری مسجد کی تضحیک وتوہین پر قدرتاً طیش میں آ گئے۔میرٹھ میں بڑی تعداد میں مسلمان بستے ہیں۔وہ تب کل آبادی کا تقریباً 38 فیصد حصہ تھے۔انھوں نے احتجاجی جلوس نکالے اور جلسے منعقد کیے۔بڑی دلیری سے مطالبہ کیا گیا کہ بابری مسجد مسلمانوں کے حوالے کر دی جائے۔

اس معاملے پر ان کا آرایس ایس، وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل اور دیگر انتہا پسند وقوم پرست تنظیموں کے لیڈروں و کارکنوں سے ٹکراؤ ہو گیا جو بابری مسجد پہ قابض ہونے کے بعد خوشیاں منا رہے تھے۔۔ایک دوسرے کے خلاف جذبات پلنے بڑھنے لگے۔اپریل 1987ء سے رمضان المبارک کے مقدس مہینے کا آغاز ہو گیا۔

اس مہینے مسلمان روایتی طور پر زیادہ مذہبی ہو جاتے ہیں۔بڑے اہتمام سے سحری وافطار کر کے اپنے جوش وجذبے کا اظہار کرتے ہیں۔مگر ان کی دیرینہ مذہبی روایات انتہا پسندوں کو بالکل پسند نہیں جو تمام بھارتیوں کو ہندو بنا لینا چاہتے ہیں۔

اپنے اسی نظریے کی بدولت وہ کٹر اور انتہا پسند کہلاتے ہیں۔انھیں یہ دیکھ کر غصّہ آتا کہ بھارت میں مسلمانوں کو بہت آزادی حاصل ہے۔کھلے عام اذان ہوتی ہے۔مسلمان سرعام اپنی مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں۔ ان پہ کوئی روک ٹوک نہیں۔لہذا مسلمانوں کو یہ بتانا اور احساس دلانا ضروری ہے کہ وہ بھارت میں اقلیت کا درجہ رکھتے ہیں اور انھیں اکثریت کی مرضی سے زندگی گذارنا چاہیے۔

مسلمانوں کو سبق سکھانے کی خاطر میرٹھ کے انتہا پسند اپنی تقریبات اور جلسے جلوسوں میں فلمی گانے باآواز بلند لگانے لگے تاکہ مسلمانوں کو تنگ کیا جا سکے۔ممکن ہے کہ ایسا دیدہ دانستہ کیا گیا تاکہ مسلمانوں کے جذبات مشتعل ہو جائیں اور وہ ہنگامہ شروع کر دیں۔وجہ یہ کہ بھارتی انتہا پسندوں کا وتیرہ ہے، وہ ہندو مسلم فساد دانستہ کراتے ہیں۔

اس طرح ہندوؤں کی کثیر تعداد ان کے پلیٹ فارم پہ جمع ہو جاتی ہے۔درحقیقت عام ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا کر ہی بھارت میں آر ایس ایس و بی جے پی کو مقبولیت ملی اور وہ اقتدار پہ قابض ہو گئیں۔میرٹھ میں ہاشم پورہ، میاں محمد نگر، املیان اور مالیانہ میں بڑی تعداد میں مسلمان آباد تھے۔یہ مسلم بستیاں تھیں۔

ان کے قرب وجوار میں ہندؤں کے علاقے تھے۔ان علاقوں میں دانستہ لاؤڈ اسپکیروں پہ بالی وڈ کے بیہودہ فلمی گانے نشر کیے جاتے۔مسلمانوں نے رمضان کے مقدس مہینے میں فلمی گانوں کی چیخم دھاڑ کئی دن برداشت کی۔جب انتہا پسندوں کی اشتعال انگیز سرگرمیاں جاری رہیں تو مسلم نوجوانوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔وہ ماہ مقدس کی مزید توہین برداشت نہیں کر سکے۔17 مئی کو انھوں نے انتہا پسندوں کی ایک تقریب درہم برہم کر دی جہاں فحش گانے اونچی آواز میں لگے تھے۔

لگتا تھا کہ انتہا پسند اسی انتظار میں تھے کہ مسلمان کب جواب دیتے ہیں۔انھیں اب مسلمانوں پہ حملے کرنے کا بہانہ وجواز مل گیا۔18 مئی کی صبح سے انتہا پسندوں کے مسلح گروہ اپنے علاقوں میں آباد مسلمانوں کے گھروں ، دکانوں اور دفتروں پہ حملے کرنے لگے۔یہ گروہ آتش گیر مادے سے لیس تھے۔اس مادے کی مدد سے مسلمانوں کی عمارتوں میں آگ لگا دی گئی۔

مرد، عورتیں اور بچے خوف کے مارے باہر نکلے تو انھیں مارا پیٹا گیا۔کئی مسلم موت کی نیند سلا دئیے گئے۔مسلم اکثریتی علاقوں کے نوجوانوں نے جب یہ ظلم دیکھا تو وہ اپنے علاقے میں بستے ہندوؤں کو مارنے پیٹنے لگے۔ان کی املاک کو آگ لگائی گئی۔اس طرح فساد پھیلتا چلا گیا۔

19 مئی کی دوپہر شہری انتظامیہ نے فساد زدہ علاقوں میں کرفیو لگا دیا۔جیسا کہ بتایا گیا کہ میرٹھ میں بھارتی فوج کی ایک بڑی چھاؤنی واقع ہے۔وہیں ’’پی اے سی‘‘( اترپردیش پرونشل آرمڈ کانسٹلبری ) کی کمپنیاں بھی تعینات تھیں۔یہ ہمارے رینجرز کی طرح فوجی فورس ہے۔مقامی انتظامیہ نے پولیس کے علاوہ پی اے سی کی گیارہ کمپنیاں بھی فساد روکنے کے لیے لگا دیں۔

ذاتی انتقام کا شاخسانہ

کرفیو لگنے کے بعد ایک بڑی نمایاں تبدیلی دیکھنے کو ملی۔پہلے عام ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان لڑائی ہو رہی تھی۔اس جنگ میں مسلمانوں کا پلّہ رہا کہ انھوں نے نہایت بہادری و بے جگری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلم آبادیوں پہ انتہا پسندوں کے حملے ناکام بنا دئیے۔

شاید مقامی انتظامیہ مسلمانوں کی فتح دیکھ کر جل بھن گئی کیونکہ اب پولیس وپی اے سی کے فوجی بھی انتہا پسندوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں پہ حملے کرنے لگے۔گویا جس ریاستی مشینری نے مسلم اقلیت کو تحفظ دینا تھا، وہی مجرموں کی ساتھی بن گئی۔ایسا اسی وقت ہوتا ہے جب مذہبی جذبات انسان کو اندھا کر دیں۔اس صورت حال کو جلد ایک واقعے نے ذاتی انتقام میں بدل دیا۔

ہاشم پورہ کے نزدیک واقع ایک پوش سوسائٹی میں پربھات کوشک رہائش پذیر تھا۔وہ ڈاکٹر بن رہا تھا۔آر ایس ایس کا مقامی رہنما تھا۔اس کی خالہ ، شنکتلا شرما بے جے پی کی اہم مقامی لیڈر تھی۔ایک بھائی، میجر ستیش کوشک میرٹھ چھاؤنی ہی میں تعینات تھا۔21 مئی کی شام پربھات گھر کی چھت پر کھڑا تھا کہ اچانک ایک گولی اسے آ لگی۔وہ جلد ہی چل بسا۔اس کے باپ نے الزام لگایا کہ یہ گولی مسلم محلے، ہاشم پورہ سے آئی ہے۔

اگلے دن سہہ پہر کو پی اے سی کی ایک کمپنی ہاشم پورہ پہنچ گئی۔اس کے ساتھ بھارتی فوج کے کرنل پی پی سنگھ، میجر پانتھیا اور میجر ستیش کوشک بھی اپنے فوجیوں کی معیت میں آئے۔کرنل سنگھ میجر ستیش کی بٹالین کا کمانڈر تھا۔پی اے سی کی کمپنی کی قیادت کیپٹن سریندر پال سنگھ کر رہا تھا۔ان بھارتی فوجی افسروں نے ہاشم پورہ پر اس طرح حملہ کیا جیسے وہ دہشت گردوں کا گڑھ ہے۔

اب سبھی فوجی افسر ہاتھوں میں لاؤڈ اسپکیر تھامے اعلان کرنے لگے کہ سب مسلمان اپنے گھروں سے باہر نکل آئیں۔مقصد یہ تھا کہ سیکورٹی فورسسز گھروں میں اسلحہ تلاش کر سکیں۔یہ مگر مسلمانوں کو پھنسانے کا جال تھا۔باہر نکلتے مسلمانوں سے مویشیوں جیسا سلوک کیا گیا اور انھی دھکے دئیے گئے۔مردوں کو گھٹنوں کے بل بیٹھنے پہ مجبور کیا گیا۔فوجی افسروں نے خواتین، بوڑھے اور بچے الگ کر دئیے۔پھر مردوں میں سے 49 نوجوان الگ کر لیے۔یہ سبھی مسلمان تھے۔ان مسلم نوجوانوں کو پہلے ہاتھ اٹھا کر علاقے میں گھمایا پھرایا گیا جیسے وہ نامی گرامی مجرم ہوں۔

انھیں پھر پھیڑ بکریوں کی طرح ایک فوجی ٹرک میں ٹھونس دیا۔تب شام کے سات بجے تھے۔ٹرک چل پڑا۔دوسرے ٹر ک پر پی اے سی کے فوجی سوار تھے۔سبھی مسلمان اور ان کے اہل خانہ سمجھ رہے تھے کہ انھیں میرٹھ جیل لے جایا گیا ہے۔مگر ٹرک تو شہر سے باہر نکلے اور چند میل دور واقع گاؤں، مرادنگر کے قریب پہنچ گئے۔تب تک گہرا اندھیرا چھا چکا تھا۔

قتل عام ہوتا ہے

وہ ایک سنسان مقام تھا۔پہلے بھارتی فوجی اترے۔انھوں نے مسلم نوجوانوں کو ایک ایک کر کے اترنے کا حکم دیا۔جیسے ہی چند نوجوان اترے، ان پہ گولیاں برسا دی گئیں۔یہ دیکھ کر ٹرک میں بیٹھے دیگر نوجوان سمٹ کر پیچھے ہو گئے۔فوجی ان پر بھی بے دریغ گولیاں چلانے لگے۔اتفاق سے اسی وقت وہاں ایک گاڑی آ نکلی۔اس کی بتیاں ٹرک پہ پڑیں تو فوجیوں نے فائرنگ روک دی۔

انھوں نے پھر گاڑی والے کو بتیاں بجھانے کا کہااور اسے واپس جانے پر مجبور کر دیا۔گاڑی والا چلا گیا مگر فوجی گھبرا گئے تھے۔وہ اب وہاں رکنا نہیں چاہتے تھے۔لہذا موت بانٹنے والا یہ قافلہ پھر چل پڑا۔اس بار ٹرکوں کا رخ غازی آباد کی طرف تھا۔چند میل دور قافلہ مکھن پور نامی گاؤں کے مضافات پر رک گیا۔وہاں ایک نہر بہہ رہی تھی۔

اب کچھ مسلح فوجی مسلم نوجوانوں کے ٹرک پر چڑھ گئے۔وہ ایک نوجوان کو گولیاں مارتے اور اسے نیچے پھینک دیتے۔نیچے کھڑے فوجی مضروب نوجوان کو نہر میں ڈال دیتے۔اس طرح یکے بعد دیگرے سبھی نوجوان گولیوں سے چھلنی کر کے نہر میں پھینک دئیے گئے۔یہ شیطانی کام مکمل تاریکی میں بہ عجلت انجام پایا۔اسی لیے چھ نوجوانوں کی زندگیاں بچ گئیں۔انہی کی زبانی اس لرزہ خیز قتل عام کی داستان دوسرے لوگوں کو معلوم ہوئی۔

اگلے دن پی اے سی کے ٹرک مالیانہ جا پہنچے۔وہاں آرایس ایس اور دیگر انتہا پسندوں کے مسلح غنڈے موجود تھے۔اب فوجیوں، پولیس اور انتہا پسندوں نے مالیانہ میں بستے مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا۔ان کے گھروں پہ پٹرول بم اور آتش گیر مادہ پھینکا گیا جو آگ لگا دیتا۔مسلمان گھبرا کر باہر نکلتے تو ان پہ گولیاں برسا دی جاتیں۔اس طرح بڑے وحشیانہ طریقے سے کم ازکم بہتر مسلمان شہید کر دئیے گئے۔یہ سرکاری تعداد ہے جو زیادہ ہو سکتی ہے۔

میرٹھ کی مقامی انتظامیہ ہی نہیں ریاستی حکومت کو بھی بخوبی علم تھا کہ مسلمانوں پہ حملہ آور کون سے فوجی افسر، سیاست داں، سرکاری افسر اور پولیس افسر ہیں مگر کسی کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی کیونکہ عام خیال یہ تھا کہ وہ ایسا کرنے پر حق بجانب تھے۔مسلمانوں نے بربھات کوشک کو مار کر سنگین جرم کیا تھا۔حالانکہ ایسا کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہ تھا کہ کسی مسلمان کی چلائی گولی ہی نے اس کی جان لی۔بس فرض کر لیا گیا کہ پربھات کی موت ہاشم پورہ سے آئی گولی سے ہوئی۔

اس کے بعد بدلے کی آگ میں جلتے میجر ستیش کوشک نے اپنے ساتھیوں اور بٹالین کمانڈر کو مسلمانوں کے خلاف اتنا زیادہ بھڑکایا کہ وہ ہاشم پورہ اور مالیانہ میں ان کو نشاننہ بنانے پر آمادہ ہو گئے۔یہ ایک منظم فوجی حملہ تھا جو عیدالفطر سے چند روز قبل مسلمانان ِہاشم پورہ اور مالیانہ پر ہوا۔حملے میں خصوصاً مسلم نوجوان ٹارگٹ کیے گئے۔یہی وجہ ہے، اگلے دس سال تک دونوں مسلم محلوں میں شادی کی کوئی تقریب منعقد نہ ہو سکی کہ کوئی نوجوان بچا ہی نہیں تھا۔

انصاف کی تلاش میں

میرٹھ شہر، ہاشم پورہ اور مالیانہ میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والوں پہ مقدمے تو چلے مگر قبل ازیں بتایا گیا کہ یہ پیادے تھے۔مرکزی مجرموں کو بچانے کے لیے تو بھارتی حکومت و فوج کی ہائی کمان نے ہر ممکن ناجائز طریقہ اختیار کیا۔اسی لیے مجرم آزادانہ گھومتے پھرتے اور عدل وانصاف اور انسانیت کی مٹی پلید کرتے ہیَں۔حد یہ کہ پیادوں کو بھی سزا نہ ہو سکی اور وہ بہ آرام زندگی گذار رہے ہیں۔جبکہ شہید مسلمانوں کے لواحقین انصاف کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں۔بقول شاعر

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں

تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

بھارت کی حکمران تنظیموں، آر ایس ایس اور بی جے پی کی پالیسیوں سے عیاں ہے کہ وہ اسلام و مسلمانوں کا وجود مٹا دینا چاہتی ہیں۔عالمی قوتیں معاشی مفادات کے سبب بھارت کے خلاف کوئی ٹھوس اقدام نہیں کرتیں۔المّیہ یہ کہ امت مسلمہ بھی عموماً خاموش رہتی ہے۔

لے دے کر اہل پاکستان ہی بھارتی مسلمانوں پہ ظلم ہوتا دیکھ کر آواز اٹھاتے ہیں۔بدقسمتی سے پاکستانی حکمران طبقے کی نااہلی و کرپشن کے باعث پاکستان اب اتنے پست درجے پر پہنچ چکا کہ عالمی سٹیج پہ اس کی آواز کمزور ہو رہی ہے۔اس صورت حال میں بے یارومددگار بھارتی مسلمانوں کا اللہ تعالی کے علاوہ کوئی پشتی بان نہیں:

کشتیاں ٹوٹ گئی ہیں ساری

اب لیے پھرتا ہے دریا ہم کو

آزادی کی قدر کیجیے!

اہل پاکستان خوشی ومسّرت کے جلو میں عیدالفطر منا رہے ہیں۔معاشی مسائل نے متوسط وغریب طبقوں کے کئی گھرانوں کی خوشیاں ماند کر دی ہیں مگر پاکستانی اس خوف کا شکار ہرگز نہیں کہ اکثریت سے تعلق رکھنے والے غنڈے کسی بھی وقت ان پہ حملہ آور ہو جائیں گے۔

ایسا خوف انسان کو چین سے نہیں بیٹھنے دیتا اور وہ ہر آن مضطرب و گھبرایا ہوا رہتا ہے۔ان کی جان، مال اور عزتیں اللہ تعالی کے فضل وکرم سے محفوظ ہیں۔ یہ نعمت ہمیں آزادی کے صدقے ملی ہے۔اپنے بزرگوں کو دعا دیجیے کہ ان کی فہم وفراست کے باعث قوم کو آزاد وطن کا تحفہ ملا اور وہ اکثریتی دشمن کے خوف سے آزاد ہو گئی۔

بھارت کے مسلمانوں کو مگر آزادی کی انمول و قیمتی نعمت حاصل نہیں، اکثریت سے وابستہ ظالم و درندے انتہا پسندوں نے ان کی زندگی اجیرن بنا ڈالی ہے۔یہ انتہا پسند مسلمانوں پر حملے کرنے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں تاکہ انھیں نقصان پہنچا سکیں۔ مالدار مسلمان تو پھر کسی حد تک محفوظ ہیں مگر زیادہ تر مسلمانان ِبھارت اکثریت کے مظالم کا نشانہ بن کر بڑی بے کسی و بے بسی کی زندگی گذار رہے ہیں۔

انتہا پسندوں کے حملوں کا خوف ان پہ مسلط رہتا ہے۔اہل وطن کو چاہیے کہ اپنے برادران اسلام کی حالت زار دیکھ کر سبق حاصل کریں اور آزادی کی قدر کریں۔یہ اسی صورت ممکن ہے کہ ہر پاکستانی اپنے حقوق و فرائض ایمان داری سے ادا کرے۔تب نہ صرف پاکستان معاشی وسیاسی لحاظ سے مضبوط ہو گا بلکہ پاکستانی قوم طاقتور ہو کر بھارتی مسلمانوں کی مددگار بھی بن سکے گی۔ابھی تو معاشی مسائل کی وجہ سے پاکستانی خود مصائب میں مبتلا ہیں، مسلمانان ِبھارت کی مدد کیسے کریں گے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔