پاکستان میں مہنگائی کیسے کم ہو ؟

سید عاصم محمود  اتوار 30 اپريل 2023
اہل وطن کو پریشانی ومایوسی سے نجات دلانے والی تجاویز جن پر حکمران طبقے کو غوروفکر کرنا چاہیے ۔ فوٹو : فائل

اہل وطن کو پریشانی ومایوسی سے نجات دلانے والی تجاویز جن پر حکمران طبقے کو غوروفکر کرنا چاہیے ۔ فوٹو : فائل

’’انسانیت کو سربلند کرنے والا ہر کام عظیم و پُروقار ہے۔‘‘

                        (امریکی مدبر، مارٹن لوتھر کنگ)

٭٭

دنیا بھر میں کل لیبر ڈے یا یوم ِمزدوراں منایا جا رہا ہے۔اس دن اُن انسانوں کو ہدیہ ِتبریک پیش کیا جاتا ہے جو کھیت کھلیانوں میں دن رات محنت کر کے ہمارے لیے صحت بخش غذائیں اگاتے ہیں۔جو کارخانوں و فیکٹریوں میں پسینہ بہا کر ہمارے لیے نت نئی چیزیں تیار کرتے ہیں۔اور جو سارا دن مختلف خدمات (سروسز)فراہم کرکے ہماری زندگیاں آسان و خوشگوار بناتے ہیں۔

ان محنت کشوِں ومزدوروں کو مگر بدلے میں کیا ملتا ہے؟خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں عموماً دو وقت کا کھانا، سر چھپانے کا معمولی سا ٹھکانا اور تن ڈھانکنے کا کپڑا …پھر بھی صبر شکر سے زندگی گذار دیتے ہیں۔حکومت ان کی مدد کرے تو شکر کرتے ہیں، نہ کرے تو صبر!

پچھلے چند برس سے مگر ترقی پذیر ملکوں میں خصوصاً محنت کش ومزدور مسلسل بڑھتی مہنگائی اور کام کٹھن بنا دینے والے مسائل وحالات سے پریشان ہیں۔گو متفرق عوامل کی وجہ سے سبھی ممالک میں مہنگائی بڑھی ہے لیکن اس نے اہل پاکستان کو خاص نشانہ بنایا۔حتی کہ جاری مالی سال مہنگائی میں اضافے کے پچھلے سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔اس وقت پاکستان کا شمار دنیا کے ان پندرہ ملکوں میں ہوتا ہے۔

جہاں مہنگائی نے سب سے زیادہ عوام کو بوکھلا رکھا ہے اور وہ بہت پریشان ہیں۔پاکستان ادارہ شماریات 1965ء سے مہنگائی کی یومیہ، ماہانہ اور سالانہ شرح کا حساب رکھ رہا ہے۔

اس کے مطابق اپریل 2023ء میں پہلی بار مہنگائی کی سالانہ شرح’’ 35 فیصد‘‘ سے زائد ریکارڈ کی گئی۔(گو غیر سرکاری شرح 40 سے 45 فیصد کے درمیان ہو سکتی ہے۔) اعداد وشمار کی رو سے پچھلے ایک سال میں پیاز کی قیمت میں سب سے زیادہ اضافہ (233.89فیصد) ہوا ۔ اس کے بعد سگریٹوں (165.65فیصد)، گیس کے بل (108.76فیصد)، ڈیزل (102.84فیصد)، چائے (81.29فیصد)، پٹرول (81.17فیصد)، چاول (78.75فیصد)، کیلے (77.84فیصد) ، انڈے (72.14فیصد)، دال مونگ (69.14فیصد)، آٹے (56.27فیصد) اور ڈبل روٹی (56.27فیصد) کی قیمتیں آسمان پہ پہنچ گئیں۔

جن ملکوں میں سب سے زیادہ مہنگائی ہے، ان میں زمبابوے، لبنان، ترکی، سری لنکا، سرینام ،گھانا اور پاکستان میں حکمران طبقے کی نااہلی، کوتاہی اور بُرا انتظام حکومت (بیڈ گورنس)مہنگائی جنم لینے کی اہم وجہ ہے۔وینزویلا اور ایران امریکی پابندیوں کے باعث بھی بدحالی کا شکار ہیں۔شام اور سوڈان میں خانہ جنگی جاری ہے۔جبکہ ارجنٹائن پچھلے ساٹھ برس سے خوفناک ترین قحط کی زد پر ہے۔

اسی لیے وہاں پچھلے ایک برس میں اشیائے خورونوش کی قیمتیں دگنی ہو چکیں۔درج بالا ممالک میں پاکستان بہ لحاظ آبادی سب سے بڑا ملک ہے۔وہ ایک ایٹمی طاقت بھی ہے مگر وائے افسوس معاشی قوت نہ بن سکا۔اسی لیے وہ دیوالیہ ہونے کے خطرے سے دوچار رہتا ہے۔معیشت مضبوط نہ ہونے سے ہی ہمارے معاصرین خصوصاً بھارتیوں کو موقع ملتا ہے کہ گاہے بگاہے ہمیں مذاق کا نشانہ بنائیں اور ہماری تضحیک وتوہین کریں۔

اہم بات یہ کہ پاکستان کو معاشی طاقت بنانا کوئی راکٹ سائنس نہیں بلکہ پاکستانی حکمران طبقہ چاہے تو وہ آج سے موزوں پالیسیوں پہ عمل درآمد کر کے وطن عزیز کو معاشی طور پہ مضبوط بنا سکتا ہے۔

معیشت طاقتور ہونے سے ظاہر ہے، عوام پاکستان کو سب سے زیادہ فائدہ ہو گا جنھیں بڑھتی مہنگائی نے پریشان وبدحال کر رکھا ہے۔نیز حکمران طبقے کی قدر و عزت بھی بڑھے گی جو قومی تاریخ میں پست ترین درجے تک پہنچ چکی۔ہمارے ہاں مہنگائی نے پانچ بنیادی وجوہ کی بنا پر جنم لیا:

(1)ایندھن کی قیمت بڑھنا(2)اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ (3) خام مال کی قلت(4)حکمران طبقے کے اخراجات میں اضافہ(5)اور آبادی میں تیزی سے بڑھوتری۔حکومت پاکستان اگر یہ عوامل دور کرنے میں کامیاب ہو جائے تو نہ صرف پاکستان میں مہنگائی کم ہو گی بلکہ معیشت ترقی کرنے لگے گی۔اس طرح مملکت میں عوام سُکھ کا سانس لیں گے اور انتشار وپریشانی کا دور ختم ہو جائے گا۔

ایندھن کی قیمت

پاکستان میں پٹرول، ڈیزل، گیس اور مٹی کے تیل کی قیمت بہت بڑھ چکی کیونکہ بیشتر ایندھن درآمد ہوتا ہے۔مقامی قدرتی گیس کی قیمت میں بھی ازحد اضافہ کیا جا چکا۔چونکہ ٹرانسپورٹ سے لے کر کارخانوں اور دفاتر تک، قومی معیشت کا ہر شعبہ ایندھن پر انحصار کرتا ہے، اسی لیے اس کے مہنگا ہونے پر ہر شے کی لاگت بڑھ جاتی ہے۔اور لاگت بڑھے تو شے کی قیمت میں اضافہ کرنا پڑتا ہے۔

یہ عیاں ہے کہ پاکستان میں مطلوبہ ایندھن پیدا کر لیا جائے تو مہنگائی کم کرنے اور قومی معیشت کو ترقی دینے میں زبرست مدد ملے گی۔پاکستانی حکمران طبقہ چاہتا تو کئی سال پہلے مقامی کوئلے کے ذریعے ایندھن میں خودکفیل ہو جاتا مگر بے پروائی، کمیشن کے لالچ اور دور اندیشی نہ ہونے کے باعث ایسا نہ ہو سکا۔

اب خدا خدا کر کے مقامی کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر لگ رہے ہیں مگر انھیں تعمیر کرنے کی رفتار خاصی سست ہے۔حکمران طبقے میں موجود مافیا اب بھی درآمدی ایندھن استعمال کر کے اپنا کمیشن کھرا کرنا چاہتا ہے۔

بنیادی بات یہ ہے کہ دنیا میں رکازی ایندھن(تیل، گیس، کوئلے)کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ جبکہ طلب میں اضافہ جاری ہے۔یہ طلب ایندھن کی قیمت بڑھنے کا سبب ہے۔نیز تیل وگیس پیدا کرنے والے ممالک پیداوار میں کمی لا رہے ہیں۔مقصد یہ ہے کہ ایندھن کی قیمت بڑھا کر اپنا منافع بڑھایا جا سکے۔

اس صورت حال میں حکومت پاکستان کو موزوں حکمت عملی بنانی چاہیے تاکہ مہنگے درآمدی ایندھن کے منفی اثرات سے پاکستانی عوام اور قومی معیشت محفوظ و مامون رہے۔یہ یاد رہے کہ اب رکازی ایندھن کی قیمت میں اضافہ ہی ہوگا، وہ شاید ہی کم ہو سکے۔ حکمت عملی یہ ہونی چاہیے کہ پٹرول ، ڈیزل و گیس کے بجائے بجلی کو اپنا بنیادی ایندھن بنایا جائے۔

اللہ تعالی نے پاکستان کو کوئلے کا بڑا ذخیرہ عطا فرمایا ہے۔مذید براں قابل تجدید ذرائع توانائی مثلاً پانی، سورج اور ہوا کی نعمتوں سے بھی نوازا۔بس یہ ہمارا حکمران طبقہ ہے جو ان نعمتوںسے فائدہ نہیں اٹھا سکا۔حالانکہ انھیں استعمال کر کے پاکستان مطلوبہ بجلی بہ آسانی تیار کر سکتا ہے۔

یہ بجلی فیکٹریاں چلانے اور دفاتر میں کام بحال رکھنے میں کام آئے گی۔اس سے گھر روشن ہوں گے۔ ریلیں اور بسیں چلییں گی۔مقامی طور پہ زیادہ بجلی بنانے میں بھارتی حکمران طبقے کی کارکردگی ہماری حکومت سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔

بھارت میں ہر سال ’’چار لاکھ دس ہزار میگا واٹ ‘‘بجلی بن سکتی ہے۔( اس عدد کی وسعت کا اندازہ یوں لگائیے کہ پاکستان میں بجلی کی سالانہ طلب بہ لحاظ موسم 25 سے 35 ہزار میگاواٹ کے درمیان ہے)اس بجلی کا ’’41 فیصد‘‘حصہ یعنی ایک لاکھ اڑسٹھ ہزار میگا واٹ قابل تجدید ذرائع توانائی مثلاً پانی، سورج اور ہوا سے بنتا ہے۔بھارت میں بڑی تیزی سے قابل تجدید ذرائع توانائی کے بجلی گھر بن رہے ہیں۔

مقصد یہی کہ مہنگے درآمدی رکازی ایندھن سے نجات پائی جائے۔بھارتی حکومت نے یہ حکمت عملی اپنا لی ہے کہ بجلی کے ذریعے زیادہ سے زیادہ ریلیں، ٹرک اور بسیں چلائی جائیں۔مدعا یہ ہے کہ روزمرہ اشیا کی ٹرانسپورٹیشن الیکٹرک گاڑیوں سے ہو۔یاد رہے، بھارت دنیا میں چوتھا بڑا ریلوے نیٹ ورک رکھتا ہے۔اس کی پٹڑیاں 68 ہزار کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہیں۔

چناں چہ یہ ریلیں بھارت کے کونے کونے تک جاتی ہیں۔مودی حکومت نے پچھلے پانچ برس کے دوران جدت یہ کی ہے کہ بیشتر ریلیں بجلی پر چلا دیں۔یوں نہ صرف مہنگے درآمدی ڈیزل سے چھٹکارا ملا بلکہ ریلیوں کے کرائے بھی کم ہو گئے۔ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات کم ہونے سے اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بھی کم رہیں۔

یوں بھارت کے عوام کو فائدہ ہوا کہ انھیں اشیا سستی ملتی ہیں۔اسی طرح مودی حکومت کی بھرپور سعی ہے کہ بھارت میں اگلے چند برس کےدوران بجلی سے چلنے والی کاروں، بسوں اور ٹرکوں کی کثرت ہو جائے۔اس ضمن میں وہ الیکٹرک گاڑی خریدنے والوں کو مراعات بھی دی رہی ہے۔اس باعث بھارت میں آج دو کروڑ کاریں بجلی سے چل رہی ہیں۔

نیز بھارتی کار ساز ادارے الیکٹرک بسیں اور ٹرک بھی بنانے لگے ہیں۔مقصد یہی ہے کہ درآمدی مہنگے رکازی ایندھن پہ انحصار کم سے کم ہو سکے۔یوں سالانہ اربوں ڈالر کا زرمبادلہ بچ جائے گا۔

اِدھر پاکستانی حکمران طبقے کی کارگذاری ملاحظہ فرمائیے۔کئی سال کی کوششوں کے بعد لاہور تا خانیوال بجلی سے ریل چلائی گئی تھی۔اس منصوبے کو پشاور سے کراچی اور کوئٹہ تک لے جانا تھا۔مگر حکومت نے 2011ء میں یہ منصوبہ بند کر دیا۔گویا سستی مقامی بجلی پہ مہنگے درآمدی ڈیزل کو ترجیح دی گئی۔

اس قسم کے ’’ملک وقوم دوست‘‘فیصلے ہمارا حکمران طبقہ پچھلے ستترسال کے دوران کئی بار کر چکا۔اس فعل سے کمیشن کھانے کی بدبو بھی آتی ہے۔کمیشن ان مافیاز نے دیا ہو گا جنھیں بجلی کی ریل ختم ہونے سے فائدہ پہنچا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان تھر کے مقامی کوئلے کو بروئے کار لے آئے تو اگلے ڈیرھ سو برس تک اس سے پچاس ہزار میگا واٹ بجلی سالانہ بنا سکتا ہے۔اسی طرح پانی ، سورج اور ہوا کے مفت ذرائع توانائی سے ہزارہا میگاواٹ بجلی بن سکتی ہے۔ مگر حکمران طبقے کو اپنی کرسیاں بچانے اور ذاتی مفادات پورے کرنے سے فرصت ملے تو وہ بجلی بنانے کے منصوبوں کی طرف توجہ دے۔

جب حکومت کے عناصر ایک دوسرے ہی سے نبردآزما ہو جائیں تو ملک وقوم نے خاک ترقی کرنی ہے!لیکن اب بھی وقت ہے۔ اگر حکومت مقامی کوئلے اور قابل تجدید ذرائع توانائی سے چلنے والے بجلی گھر بنا لیتی ہے تو ان میں بنی بجلی یقیناً مہنگے رکازی ایندھن سے بنی بجلی سے سستی ہو گی۔یوں پہلے تو ہمیں مہنگے درآمدی ایندھن سے نجات ملے گی۔ پھر پاکستان کے کسانوں، کارخانوں، دفاتر اور گھروںکو سستی بجلی ملنے لگے گی۔یوں کسانوں کے اخراجات کم ہوں گے۔کارخانوں میں بھی پیداواری لاگت کم ہو گی۔

اس طرح نئے کھیت، کارخانے اور دفتر وجود میں آئیں گے جس سے بیروزگاری و غربت کم کرنے میں مدد ملے گی۔غرض سستی بجلی فوائد کا ایسا سلسلہ شروع کر دے گی جس سے سبھی اہل پاکستان مستفید ہوں گے۔اور یہ سستی بجلی بنانے کا عمل حکمران طبقہ ہی انجام دے سکتا ہے ، اگر وہ اپنے آرام وآسائش سے اٹھ کر ملک و قوم کا سوچنے لگے۔

  اشیائے خورونوش کی قیمتیں

اللہ پاک نے پاکستان کو دریاؤں، زرخیز زمینوںاور وافر افرادی قوت سے نوازا ہے۔مگر مختلف عوامل کی بنا پر وطن عزیز میں اب مطلوبہ مقدار میں غذائیں پیدا نہیں ہوتی۔ان کی قلت غذاؤں کو مسلسل مہنگا کر رہی ہے اور غریب کے لیے انھیں حاصل کرنا دشوار ہوتا جا رہا ہے۔

یہ خرابی جنم دینے میں حکمران طبقے کے ساتھ ساتھ کسانوں اور عوام کا بھی ہاتھ ہے۔حکمران طبقے کی کوتاہی یہ ہے کہ وہ کسانوں کو سستا بیج، کھاد اور کیڑے مار ادویہ مہیا کرنے میں ناکام ہو چکا۔کسانوں کی غلطی یہ ہے کہ وہ کاشت کاری کے جدید طریقے نہیں اپنا رہے جن کی مدد سے کم پانی و کھاد دے کر بھی پیداوار بڑھانا ممکن ہے۔عام لوگوں کی کوتاہی یہ ہے کہ انھوں نے کسانوں سے ناتا توڑ لیا۔اب وہ کسان بھائی کو درپیش مسائل اور مشکلات سے ناواقف ہیں۔

اسی لیے غذا کی قدر نہیں کرتے ، بہت سی خوراک بے پروائی کے سبب تقریبات میں ضائع ہو جاتی ہے۔وطن عزیز کی آبادی متواتر بڑھ رہی ہے مگر خوراک کی پیداواراس حساب سے نہیں بڑھی جس سے اشیائے خورونوش کی مہنگائی جنم لے چکی۔ایک وجہ یہ بھی ہے کہ زرعی رقبہ پانی کی کمی یا کسانوں کے شہر جانے سے سکڑ رہا ہے۔

بہت سی زرعی زمینوں پر کارخانے یا انسانی بستیاں تعمیر ہو چکیں۔ظاہر ہے، بڑھتی آبادی کو سر چھپانے کا ٹھکانا بھی درکار ہے۔اس ضمن میں حکومت و نجی شعبے کو چاہیے کہ وہ مکانات کی جائز ضرورت پوری کرنے کے لیے حکمت عملی اپنا لے۔مثلاً یہ کہ بے آباد زمینوں پر اپارٹمنٹس یا چھوٹے گھر بنائے جائیں تاکہ اہل وطن کو سستی رہائش میسّر آ سکے۔کھیت اور باغات تلف کر کے تعمیرات نہ بنائی جائیں۔

پاکستانی حکومتیں وقتاً فوقتاً کسانوں کی فلاح وبہبود کے منصوبے کا اعلان تو کرتی ہیں مگر وہ عموماً عملی جامہ نہیں پہن پاتا۔حقیقت یہ ہے کہ اکثر سرکاری منصوبے سیاست دانوں کی عدم توجہ اور بیوروکریسی کی غفلت وریڈ ٹیپ کے سبب ٹھپ ہو جاتے ہیں۔اسی لیے کسان حکومت کے خلاف احتجاج کرتے ملتے ہیں۔

یہ بہرحال ضروری ہے کہ پاکستانی کسان جدید زرعی طریقے اختیار کریں تاکہ اشیائے خورونوش کی پیداوار بڑھ سکے۔یوں غذائیں سستی کرنے میں مدد ملے گی۔جبکہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ کسانوں کو سستا بیج، کھاد، ادویہ اور بجلی فراہم کرے تاکہ زرعی اخراجات میں کمی آئے اور کسان بھی خوشحال ہو سکے۔

ان کوششوں کے بعد ہی اہل پاکستان کو سستی وافر غذائیں مل سکیں گی۔دوسری صورت میں بھوک کا راج ہو گا۔اور حکمران طبقے کو خاص طور پہ بھوکے عوام سے ڈرنا چاہیے کہ وہ ان کے محل ِاقتدار کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی قدرت رکھتے ہیں۔

پاکستانی حکمران طبقے نے شعبہ زراعت سے غیروں جیسا بے اعتنائی کا سلوک روا رکھا ہے۔نتیجہ یہ نکلا کہ اب پاکستان میں گندم سمیت ہر اناج، سبزی، پھل، دال، مسالے وغیرہ کی قلت جنم لے چکی۔لوگ مجبور ہیں کہ قطاروں میں لگ کر سستا آٹا لیں کیونکہ عام دکانوں میں مہنگا ملتا ہے۔

بھوک ہر جگہ ڈیرے ڈالے بیٹھی ہے اور بھکاریوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ جاری ہے۔یہی نہیں، اب بیرون ملک سے غذائیں منگوانے پر اربوں ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔یوں حکومت کی کوتاہی سے ریاست پہ ایک اور مالی بوجھ پڑ گیا جو قومی معیشت پہ منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔

خام مال کی قیمت

ایک زمانہ تھا کہ پاکستان میں تقریباً ہر شے کا خام مال مل جاتا تھا۔بہت زیادہ پیچیدہ مشینوں کو چھوڑ کر عام استعمال کی مشینیں بھی مقامی طور پہ تیار ہو جاتی تھیں۔گوجرانوالہ، گجرات، وزیرآباد اور ملحقہ علاقے خام مال اور نت نئی مشینیں بنانے کے گڑھ تھے۔مگر جب چین اور دیگر ممالک سے سستی تیار شدہ اشیا پاکستان آنا شروع ہوئیں تو انھوں نے ملکی صنعت کو خاصا نقصان پہنچایا۔سستی غیرملکی اشیا کی بھرمار کا ایک بڑا منفی پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں مقامی سطح پر خام مال اور مشینوں کی تیاری کم ہو گئی۔

اس باعث کارخانے والے اور ایکسپورٹر بیرون ممالک سے خام مال اور مطلوبہ مشینیں منگوا کر اپنی اشیا تیار کرنے لگے۔یوں ان کا کاروبار وتجارت غیرملکی خام مال و مشینوں پہ استوار ہو گیا۔یہ چلن مثبت و منفی ، دونوں پہلو رکھتا ہے۔مثبت پہلو یہ ہے کہ وافر خام مال آنے سے اشیا بھی وسیع پیمانے پر بننے لگیں اور سستی بھی ہو گئیں۔اب کم آمدن والے بھی انھیں خریدنے کے قبل ہو گئے۔یوں ان کی زندگیوں میں بھی آرام وآسائش کا عنصر در آیا اور معیار ِزندگی بلند ہوا۔

یہ عوام دوست چلن مگر چند عشرے ہی رہا۔رفتہ رفتہ پاکستانی حکومت خام مال اور درآمدات و برآمدات پہ ٹیکس لگانے لگی۔پہلے مختلف قسم کے ٹیکس لگے اور پھر ہر حکومت ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کرتی رہی(یہ طریق کار اب حکمران طبقے کے لیے بنیادی کمائی بن چکا)اس عوام دشمن ٹیکس نظام نے خام مال اور امپورٹس مہنگی کر دیں۔پھر جب روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر بڑھنے لگی تو بیرون ملک سے آنے والا سامان مذید مہنگا ہونے لگا۔یوں ٹیکسوں کی بھرمار اور ڈالر کی قدر بڑھنے کے باعث بیرون ملک سے آنے والا خام مال، مشینری اور سبھی اشیا مہنگی ہوتی چلی گئیں۔

پچھلے چند برس سے روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں حیران کن اضافہ ہو چکا۔اس لیے بھی پاکستان میں ڈالر کے ذخائر کم ہو گئے۔حتی کہ اب یہ نوبت پہنچ چکی کہ بیرون ممالک سے مطلوبہ سامان منگوانے کے لیے ملک میں باآسانی ڈالر دستیاب نہیں۔اسی لیے بہت کم خام مال، مشینری اور دیگر اشیا پاکستان آ رہی ہیں۔

اس معاملے نے وطن عزیز میں کئی سنگین مسائل پیدا کر ڈالے۔مثال کے طور پر خام مال نہ ہونے سے کئی کارخانے بند ہو گئے اور کمپنیوں میں کام محدود کر دیا گیا۔ان کی بندش سے لاکھوں پاکستانی بیروزگار ہو گئے۔مشینری نہ ہونے سے بھی فیکٹریاں بند ہو گئیں۔ روئی (کپاس) کی کمی نے ٹیکسٹائل کے کارخانوں میں تالے لگوا دئیے۔ خام مال نہ ہونے سے ادویہ ساز کمپنیوں نے کئی دوائیں بنانا بند کر دیا اور مارکیٹ میں ان کی شدید قلت ہے۔غرض خام مال اور مشینری نہ ہونے سے پاکستانی معیشت کا پہیہ سست رفتاری سے چلنے لگا۔

معیشت کے زوال کی وجہ سے نہ صرف بیروزگاری میں اضافہ ہوا بلکہ غربت بھی بڑھ گئی۔سڑکوں اور بازاروں میں بھکاری جابجا نظر آنے لگے۔ماہرین عمرانیات کا کہنا ہے کہ انسانی معاشرے میں غربت اور بیروزگاری بڑھ جائے تو یہ انسانوں میں انتشار و بے چینی کو جنم دیتے ہیں۔

آج پاکستانی معاشرے میں کچھ ایسی ہی صورت حال ہے۔پاکستانی حکمران طبقے کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس نے جامع حکمت عملی و پالیسیاں بنا کر غربت وبیروزگاری کا خاتمہ نہیں کیا تو وہ بھی آسائش بھری زندگی نہیں گذار سکے گا۔ عوامی احتجاج اس کے سامان ِتعیش کو ملیامیٹ کر دے گا جیسا کہ فرانس، رومانیہ، مصر، لیبیا، تیونس وغیرہ میں دیکھا جا چکا۔ حکومت پاکستان کا فرض ہے کہ ایسی پالیسیاں تشکیل دے جن کی مدد سے وطن عزیز میں مختلف اشیا بنانے والا خام مال اور مشینری تیار ہو سکے۔

اس طرح ہمارا بیرون ممالک پہ انحصار ختم ہو گا اور ملکی صنعت وتجارت ترقی کرے گی۔عوام کو روزگار ملے گا اور عام آدمی اپنی غربت ختم کر سکے گا۔غرض یہ بہت ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ اشیا کا خام مال پاکستان میں تیار کیا جائے۔اس طرح ہم ڈالر کے محتاج بھی نہیں رہیں گے۔فی الوقت بیرون ممالک سے خام مال اور مشینری منگوانے پر ہر سال ہمارے اربوں ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔

حکومتی اخراجات

حکمران طبقے نے اپنی غلط پالیسیوں سے پاکستان کو قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیا۔حکومت نے ٹیکس نظام بہتر بنانے کی خاطر ٹھوس کوششیں نہیں کیں بلکہ ملکی وغیر ملکی اداروں سے قرض لے کر اخراجات پورے کرنے لگی۔یہی نہیں، اسٹیبلشمنٹ نے لاتعداد سرکاری محکمے و ادارے قائم کر کے حکومتی ڈھانچا بہت پھیلا لیا۔نتیجہ یہ کہ آج صرف حکومت چلانے اور پنشنیں دینے پر سالانہ ایک ہزار ارب روپے سے زائد رقم خرچ ہو رہی ہے۔

اکثر پنشنیں بھی بھاری بھرکم ہیں، لاکھوں روپے کا ہندسہ چھونے والی!موجودہ پاکستانی حکومت سرکاری اخراجات پورے کرنے کے لیے روزانہ بینکوں سے 35 تا 40 ارب روپے قرض لے رہی ہے۔رقم کا بہت تھوڑا حصہ عوام کی فلاح وبہبود کے (ترقیاتی )منصوبوں پہ لگتا ہے۔بیشتر رقم سود دینے ، پچھلے قرضے قرض لوٹانے ، بیوروکریسی کو تنخواہیں دینے، پنشنیں ادا کرنے اور عسکری خرچوں پہ لگ جاتی ہے۔اسی لیے پاکستان بھر میں بستیوں کی حالت خراب ہے۔سڑکیں ٹوٹی پھوٹیں، اسکول اور اسپتال میں انتظام ناقص، سرکاری محکموں میں عوام کی شنوائی نہیں اور پولیس اپنی ترنگ میں۔

یہ وقت کی پکار ہے کہ حکمران طبقہ اپنے اخراجات محدود کرے گو وہ سنجیدہ نظر نہیں آتا۔مثلاً پی ڈی ایم حکومت میں لاتعداد وزیر ومشیر سرکاری مراعات وسہولیات سے مستفید ہو رہے ہیں۔جب اس چلن پہ تنقید ہوئی تو انھوں نے سرکاری گاڑیاں ضرور واپس کر دیں پھر بھی دیگر سرکاری مراعات اب بھی بحال ہیں۔حالانکہ بیشتر وزیر ومشیر و ارکان اسمبلی امیر کبیر ہیں۔اسی طرح سرکاری افسر عوام سے حاصل شدہ ٹیکسوں کی رقم کے ذریعے سہولیات سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔پاکستان کو اگر معاشی طور پہ مضبوط وتوانا بنانا ہے تو حکمران طبقے کو کفایت شعاری اپنانا ہو گی۔اب وہ دن گئے جب حکومت کا ہر فرد عیش وآرام کی زندگی گذارتا تھا۔

اب اس طبقے کو بھی قربانیاں دینی چاہیں تاکہ وطن عزیز معاشی مسائل کی دلدل سے نکل سکے۔خدانخواستہ یہ مسائل ملک وقوم کی بقا خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔ماہرین معاشیات کے مطابق پاکستان کو اگلے تین سال میں قرض کی رقم ’’75 ارب ڈالر‘‘واپس کرنا ہے۔جبکہ پاکستان کے ذخائر زرمبادلہ میں چند ارب ڈالر ہی موجود ہیں۔

پاکستانی حکومت پھر اربوں ڈالر کا بندوبست کیسے کرے گی؟…اور وہ بھی اس حالت میں کہ اب مذید قرضے لے کر حکومتی اخراجات پورے کیے جا رہے ہیں۔یہی صورت حال رہی تو پاکستان دیوالیہ ہو جائے گا۔اللہ تعالی اس شر سے ملک وقوم کو محفوظ رکھیں۔اگر ایسا ہوا تو اس کے ذمے دار حکمران طبقہ اور ہماری اشرافیہ ہو گی جو اپنے حصے کا ٹیکس نہیں دیتے بلکہ حکومت سے ٹیکسوں میں چھوٹ کے طلبگار ہوتے ہیں۔

آبادی میں اضافہ

پاکستان کی آبادی میں ہر سال 48 لاکھ انسانوں کا اضافہ ہو رہا ہے۔ظاہر ہے، ان سب کو رہائش، خوراک، پانی، تعلیم، علاج، روزگار، سیوریج وغیرہ کی سہولتیں درکار ہیں۔مگر ترقی پذیر ریاست ہونے کے باعث سبھی کو یہ سہولتیں نہیں مل پاتیں اور وہ غربت، بیماری، جہالت اور بیروزگاری سے دوچار رہتے ہیں۔چناں چہ آبادی میں بے ہنگم اضافہ نہ صرف غربا کی تعداد بڑھا رہا ہے بلکہ یہ وہ اہم عمل ہے جس کی وجہ سے پاکستان مختلف معاشی و معاشرتی مسائل میں گرفتار ہو چکا۔وجہ یہی کہ آبادی میں زیادہ اضافے سے وسائل پہ دباؤ پڑتا ہے۔

مثلاً 1947ء میں جب آبادی کم تھی تو ہر پاکستانی کو 5600 کیوبک میٹر پانی دستیاب تھا۔اب آبادی بڑھنے سے ہر پاکستانی کے لیے صرف700 کیوبک میٹر پانی رہ گیا اور یہ شرح مسلسل کم ہو رہی ہے۔اسی طرح اناج، پھل، سبزی، دال اور مسالے کی پیداوار میں زیادہ اضافہ نہیں ہوا مگر کھانے والے بہت زیادہ ہو گئے۔اس عجوبے نے غذاؤں کی قلت پیدا کر کے انھیں مہنگا کر دیا۔

حکومت پاکستان آبادی کنٹرول کرنے کی خاطر مختلف اقدامات کر رہی ہے مگر وہ زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوئے۔لہذا حکومت کو چاہیے کہ وہ نئی و موثر حکمت عملی اپنائے تاکہ پاکستان میں آبادی بڑھنے کی شرح کم ہو سکے۔تبھی وسائل پہ دباؤ کم ہو گا اور سرکاری ونجی شعبہ اس قابل ہو گا کہ پاکستانی قوم کا معیار زندگی بلند کر سکے۔اگر حالات یونہی رہے تو اگلے چند برس میں پاکستانیوں کو روٹی ، سالن اور صاف پانی مہیا کرناہی بڑا مسئلہ بن جائے گا، انھیں تعلیم و مناسب علاج دینا تو دور کی بات ہے۔

بھارت کا پہلا الیکٹرک ٹرک

ٹرائٹن الیکٹرک کمپنی امریکا میں بجلی سے چلنے والی گاڑیاں بناتی ہے۔اس نے تین سال قبل بھارت میں بھی ایک کارخانہ قائم کیا تھا۔اب وہاں بھارت میں ٹرانسپورٹ کی ضروت مدنظر رکھ کر بجلی سے چلنے والے ٹرک بھی بننے لگے ہیں۔یہ ٹرک 45 ٹن سامان لاد کر ایک چارج پہ تین سو کلومیٹر تک سفر کر سکتا ہے۔

یہ ٹرک بھارتی ٹرانسپورٹ نظام میں انقلاب لا رہا ہے کیونکہ اب مہنگے ڈیزل سے چلنے والے ٹرکوں کی ضرورت نہیں رہے گی۔بھارت میں فی الحال ’’پچاس لاکھ‘‘ٹرک سامان لانے، لے جانے میں استعمال ہوتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔