- الیکشن کمیشن حلقہ بندیوں کی حتمی اشاعت 30 نومبر کو جاری کرے گا
- لاہور؛ سرغنہ سمیت اسد ڈکیت گینگ کے پانچ ارکان گرفتار
- پاکستان رہنے کیلیے دنیا کے سستے ترین ممالک میں سرفہرست
- قومی کرکٹ ٹیم کے دورہ آسٹریلیا کیلئے منیجمنٹ اور کوچنگ اسٹاف کا اعلان
- انٹرا پارٹی الیکشن میں عمران خان کی دستبرداری کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا، تحریک انصاف
- بیوی نے غیر ازدواجی تعلقات پر شوہر کو بالکونی سے نیچے پھینک دیا
- دنیا کی سب سے کم عمر ذہین بچی
- اہلیہ سے منسوب جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے امام الحق کو پریشان کردیا
- ورلڈکپ فائنل میں بھارت کی شکست کا جشن منانے پر 7 کشمیری طلبا گرفتار
- شعیب اختر بیس بال کے ایمبیسیڈر بن گئے
- ہونڈا کا پاکستان میں الیکٹرک بائیک متعارف کرانے کا اعلان
- پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن ہفتے کو ہوں گے، عمران خان حصہ نہیں لیں گے
- گوگل دسمبر سے غیر فعال اکاؤنٹ ڈیلیٹ کرنا شروع کر دے گا
- سول ایوی ایشن اتھارٹی نے پی آئی اے سے اپنی جائیدادیں واپس مانگ لیں
- افغان شہری کا خودکش حملہ، پاکستان کا حافظ گل بہادر کی حوالگی کا مطالبہ
- عالمی بینک نے پاکستان میں بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافے کی مخالفت کردی
- مسلم لیگ (ن) کی کامیابی پاکستان کو مسائل سے نجات دلانے کیلیے اہم ہے، شہباز شریف
- اے آئی پھیپھڑوں کے کینسر کی نشاندہی میں مددگار ثابت
- جسے اللہ رکھے؛ غزہ میں گھر کے ملبے سے37 دن بعد نومولود زندہ مل گیا
- کمشنر کراچی کا ڈی سیز کو شہر کی بلند عمارتوں کا فائرسیفٹی آڈٹ کرنے کا حکم
مٹھی بھر اشرافیہ کی خواہشات انرجی سیکٹر پر بوجھ

ایئر کنڈیشن کا استعمال محدود کرکے انرجی سیکٹر کے بحران پر قابو پانا ممکن (فوٹو: فائل)
کراچی: پاکستان کی انرجی ڈیمانڈ اور بیسک ڈیمانڈ میں بڑا فرق موجود ہے، گزشتہ 6 سال کا ڈیٹا یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کی انرجی ڈیمانڈ گرمیوں کے عروج پر 30ہزار میگاواٹ تک پہنچ جاتی ہے، جو کہ سردیوں کے دوران محض 12 ہزار 3 سو میگاواٹ ہوتی ہے، جس کی بنیادی وجہ گرمیوں میں ایئرکنڈیشنز کا بڑھنے والا استعمال ہے، تاہم، پاکستان میں ایئرکنڈیشن بہت کم لوگ استعمال کرتے ہیں اور پاکستانیوں کی اکثریت غربت کی وجہ سے ایئرکنڈیشن استعمال نہیں کرسکتی۔
عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح 37.2 ہے جبکہ 24.8 فیصد عوام کو نکاسی آب کی سہولیات بھی حاصل نہیں، 9.3 فیصد افراد بجلی کی سہولت سے محروم ہیں۔ ایسے میں اشیائے تعیشات استعمال کرنے والے افراد کی تعداد بہت کم ہے۔
اس کے علاوہ ایک اندازے کے مطابق جاری کی گئی بجلی میں سے بلوں کی صورت میں 71 فیصد وصولی ہوپاتی ہے، جو سرکولر ڈیبٹ بڑھنے کی اہم وجہ ہے، ہر آنے والی حکومت سرکولر ڈیبٹ کو کم کرنے کی کوشش کرتی ہے، لیکن اس پر قابو پانے میں ناکام نظر آتی ہیں، 2013 میں سرکولر ڈیبٹ 450 ارب روپے تھا، جو 2018 میں بڑھ کر 1,148 ارب روپے ہوا، اور مارچ 2022 میں یہ 2,467 ارب روپے کی سطح پر پہنچ چکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پانچ سالہ توانائی بچت منصوبہ شروع، پہلے عمارتوں کا انرجی آڈٹ ہوگا
سرکولر ڈیبٹ پاکستان کی جی ڈی پی کا 3.8 فیصد اور قرضوں کا 5.6 فیصد ہوچکا ہے۔ اگر موثر اقدامات نہ کیے گئے تو 2025 تک سرکولر ڈیبٹ چار ٹریلین روپے تک پہنچ جائے گا۔ سردیوں اور گرمیوں کے درمیان اس بجلی کی ڈیمانڈ کا یہ نمایاں فرق واضح کرتا ہے کہ حکومت نے مٹھی بھر اشرافیہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اضافی پیداواری صلاحیت کے حامل پاور جنریشن پلانٹس لگا رکھے ہیں، جس کی وجہ سے غیر استعمال شدہ بجلی کا بوجھ بھی سرکاری خزانے کو برداشت کرنا پڑتا ہے.
ایک اندازے کے مطابق 2025 تک غیر استعمال شدہ بجلی کی مد میں ادائیگیاں 1,500ارب روپے تک پہنچ جائیں گی۔ کیا بدترین معاشی حالات کا شکار ملک مٹھی بھر اشرافیہ کی خاطر اس قدر بڑے خسارے کا متحمل ہوسکتا ہے؟
ڈائریکٹر لمس انرجی انسٹیٹیوٹ ڈاکٹر فیاض چوہدری نے اس حوالے سے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کو ایئرکنڈیشن کا استعمال کم کرنے کے لیے ہوادار عمارات بنانے پر توجہ دینی چاہیئے۔ جہاں تک الیکٹرانک گاڑیوں کی بات ہے تو یہ نہ صرف ماحول کے لیے بہترین ہیں، بلکہ یہ ہمارے درآمدی بل کو گھٹانے میں بھی معاون ثابت ہوں گی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔