نامعلومستان کا جغرافیہ وغیرہ

وسعت اللہ خان  پير 21 اپريل 2014

اب سے بہت برس پہلے ایک نجی جماعت کی سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں نامعلومستان ایک مغربی استعماری قوت کے زوال کے سبب وجود میں آیا۔ اگر آپ نامعلومستان کا جغرافیہ ملاخطہ فرمائیں تو اس کے ساتھ چار ممالک کی سرحدیں لگتی ہیں۔ مشرق میں جو ملک واقع ہے اسے ’’ایک پڑوسی ملک ’’ کہا جاتا ہے۔مغربی سرحد ایک سنگلاخ اکھڑ ہمسائے سے ملتی جلتی ہے۔جنوب مغرب میں واقع ملک میں ایک اقلیتی فرقے کی اکثریت ہے۔جب کہ شمال کے پڑوسی کا نام قدرے طویل ہے۔یعنی سمندر سے زیادہ گہرا اور ہمالیہ سے زیادہ بلند۔

جب نامعلومستان وجود میں آیا تب اس کے پانچ معلوم صوبے تھے۔مگر نامعلومستان کی درسی کتابوں کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ سب سے بڑے صوبے نے نامعلوم وجوہات کے سبب پڑوسی ملک کی مدد سے علیحدگی اختیار کرلی۔باقی رہ گئے چار صوبے تو ان میں سے تین کو وقتاً فوقتاً نامعلوم قسم کے طرح طرح کے دردیہ دورے اٹھتے رہتے ہیں۔ ان کے بارے میں سب سے بڑے صوبے کا خیال ہے کہ وہم کی پیداوار ہیں اور وہم کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں۔

نامعلومستان ایک ایسے جغرافیائی سنگم پر ہے جہاں کے قرب و جوار میں اس سمیت تین سے زائد ایٹمی طاقتیں اور تیل پیدا کرنے والے کئی برادر ممالک پائے جاتے ہیں۔لہذا ایک خاص الخاص سپرپاور سمیت کئی بین الاقوامی ، علاقائی اور مقامی حساس ادارے اس خطے کو نامعلومستان کے خلاف اپنے مذموم عزائم کا مسلسل اکھاڑہ بنائے ہوئے ہیں۔چنانچہ نامعلومستان میں آج تک سیاسی استحکام پیدا نہیں ہوسکا۔اب تک نامعلومستان پر چار معلوم جرنیل براہ راست بادلِ نخواستہ حکومت کرچکے ہیں اور جب جب دل نامعلوم اسباب کے سبب حکمرانی میں نہیں لگتا تو پھر دورانِ وقفہ آنے والی حکومتوں کی نگہداشت و پرداخت طرح طرح کے نت نئے نامعلوم طریقوں سے جاری رہتی ہے۔

اگرچہ نامعلومستان میں ایک مذہبی عقیدے کے لوگوں کی واضح سے بھی زیادہ اکثریت ہے۔پھر بھی اس اکثریت کو اکثر یہ کہہ کہہ کر ڈرایا جاتا ہے کہ نادیدہ ہاتھ ، خفیہ منصوبے ، بین الاقوامی سازشیں ، مٹھی بھر شرپسند ، اغیار کے ہاتھوں بکے دانشور وغیرہ وغیرہ نامعلومستان کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھنا چاہتے لہٰذا ان سے ہمہ وقت ہوشیار رہنے اور سب کو ایک ہی سوچ اور ایک ہی عقیدے پر لانے کی اشد ضرورت ہے۔چاہے اس کے لیے کوئی بھی قربانی دینی پڑے۔ورنہ نامعلومستان جس مقصد کے لیے وجود میں آیا تھا اس مقصد کو نامعلوم دشمن اور معلوم حاسد کھا پی کے برابر کردیں گے۔

باقی دنیا کے برعکس نامعلومستان میں کسی بھی شے ، سوچ یا اہم فرد و ادارے کا نام کھلے عام لینا معیوب اور قومی آداب کے خلاف ہے۔حتیٰ کہ بیوی بھی شوہر کو نام لے کر مخاطب کرے تو بدتمیزی گردانا جاتا ہے۔اور جو بیویاں شوہروں کو منے کے ابا ، اجی سنتے ہو ، آپ ، یہ اور وہ جیسے ناموں سے پکارتی ہیں ان کی بظاہر قدر و منزلت رہتی ہے۔کم و بیش یہی گھریلو فارمولا ہر سطح پر رائج ہے۔نامعلومستان میں پائے جانے والے اس ستر پوش کلچر کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ منہ پھٹ میڈیا بھی ان سے سرتابی کی پوری جرات نہیں کرسکتا۔چنانچہ مقامی ذرایع ابلاغ میں اکثر اس طرح کی خبریں شایع یا نشر ہوتی ہیں۔

قوم داخلی و خارجی دشمنوں کے خلاف متحد ہوجائے۔ (کون سے خارجی و داخلی دشمن۔اس ٹنٹے میں فضول میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ سب جانتے ہیں)۔

خوبرو دوشیزہ آشنا کے ساتھ فرار ہوگئی۔( نام ، پتہ ، کون، کہاں کب ؟ایسے سوالات نجی معاملات میں مداخلتِ بے جا کے برابر سمجھے جاتے ہیں بشرطیکہ دوشیزہ اور آشنا بارسوخ ہوں)۔

صدرِ مملکت نے ملک کے سب سے بڑے صنعتی شہر کے ایک پنج ستارہ مقامی ہوٹل میں ایک نجی تنظیم کی جانب سے تقسیمِ انعامات کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ نظام کے خلاف سازشیں کرنے والے اپنی حرکتوں سے باز آجائیں ورنہ جلد ہی ان سازشیوں کو بے نقاب کرکے آہنی ہاتھ سے نمٹا جائے گا۔(ہوسکتا ہے آپ کو ککھ سمجھ میں نہ آیا ہو۔لیکن ایک عام نامعلومستانی کے لیے یہ تفصیلات بھی بہت ہیں )۔

وزیرِ اعظم نے وفاقی دارالحکومت میں ملک کے مختلف علاقوں سے آئے  وفود کے اجتماع میں قومی ذرایع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایک وفاقی سرکاری ادارے کے چند افسروں کی بے قاعدگیوں کی چھان بین کے لیے سرکردہ وفاقی تحقیقاتی ادارے کو موقع پر احکامات جاری کردیے۔

نامعلوم افراد نے ایک غیر ملکی نجی ادارے کے چند اہلکاروں کو اغوا کرلیا۔قانون نافذ کرنے والے ادارے کے ترجمان نے بتایا ہے کہ نامعلوم ملزمان کے خلاف مذکورہ غیر ملکی ادارے کے ایک اہلکار کی جانب سے ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے۔۔

ایک مذہبی تنظیم کے سربراہ نے اپنا نام پوشیدہ رکھنے کی شرط پر انکشاف کیا ہے کہ بعض عناصر ان کی جان کے درپے ہیں۔

ایک مقامی نجی چینل کی عمارت کے قریب فائرنگ سے ایک معروف صحافی زخمی۔ بعد ازاں اسے ایک نجی اسپتال میں داخل کرادیا گیا ۔ ایک ڈاکٹر نے اپنا نام صیغہِ راز میں رکھتے ہوئے بتایا کہ مذکورہ صحافی کی حالت خطرے سے باہر ہے۔صحافیوں کی ایک ملک گیر تنظیم نے کل یومِ احتجاج کی اپیل کی ہے۔ایک علاقائی تنظیم کے رہنماؤں نے زخمی صحافی کی مبینہ عیادت کی۔جب کہ ایک مذہبی جماعت کے دو صوبائی رہنماؤں نے اس واقعہ کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے نا معلوم ملزمان کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں سے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔کئی سماجی تنظیموں نے بھی نجی چینل سے اظہارِ یکجہتی کا دعویٰ کیا ہے۔جب کہ ایک سرکردہ قوم پرست رہنما نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے صوبے کے دوسرے بڑے شہر کے مقامی پریس کلب کے سامنے احتجاجی دھرنے کا اعلان کیا ہے۔

ملک کے سب سے گنجان شہر میں آج بھی خون کی ہولی جاری رہی۔مختلف علاقوں سے متعدد لاشیں ملی ہیں۔ان میں سے ایک کی شناخت ہو گئی ہے۔مقتول کے ایک قریبی رشتے دار نے ایک غْیر ملکی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ وہ ایک سرکاری تعلیمی ادارے میں پڑھاتا تھا اور اس کا کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں تھا۔تاہم شبہہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ مقتول کو ایک نیم مسلح کالعدم تنظیم نے ایک حساس ادارے کا مخبر ہونے کے شبہے میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا ہے۔دریں اثنا مقامی انتظامیہ نے عینی شاہدوں کی مدد سے نامعلوم قاتل کا خاکہ جاری کردیا ہے۔

اب تک میں نے نامعلومستان کے جتنے ابلاغی و نیم ابلاغی نمونے پیش کیے ان کے بارے میں اگر کوئی غیر نامعلومستانی یہ سوال کرے کہ ایک عام شہری کو ایسی بجھارتی اطلاعات سے کیسے پتہ چلتا ہے کہ کس شخص ، ادارے یا خیال کا تذکرہ ہو رہا ہے ؟ عرض یہ ہے کہ کوئی تو بات ہوگی کہ اسے مملکتِ خدادادِ نامعلومستان کہا جاتا ہے۔ نامعلومستان کے شہریوں نے ان خبری پہلیوں کو بوجھنے کے لیے ایک سینہ بسینہ گائیڈ تیار کر لی ہے۔لہٰذا وہ کیا کیوں کیسے کون کب کی پخراٹ میں پڑے بغیر فوراً معاملے کی تہہ تک پہنچنے میں یدِ طولی رکھتے ہیں۔

مثلاً کسی نامعلومستانی کے لیے یہ جاننا ہرگز ضروری نہیں کہ ایک بین القوامی دھشت گرد تنظیم کا سربراہ ملک کے ایک حساس شہر میں کیسے برسوں رہتا رہا۔کیونکہ کامن سنس کی بات ہے کہ وہ کسی کے مکان میں اسی طرح رہتا رہا جیسے لاکھوں دیگر غیر ملکی غیر قانونی طور پر کسی بھی ملک میں رہتے ہیں اور اپنی شناخت چھپاتے پھرتے ہیں۔ مبادا کسی حساس یا غیر حساس ادارے کے ہتھے نہ چڑھ جائیں۔اس بارے میں ایک خاص ملک کے مبینہ دباؤ پر جو تحققیاتی کمیشن بنا۔ اس کی رپورٹ میں بھی غالباً یہی نتیجہ اخذ کیا گیا ہوگا۔(اگر کبھی شایع ہوئی تو خود پڑھ لیجے گا )۔

ویسے بھی نامعلومستان میں آج تک جتنے معاملات پر جتنے بھی تحقیقاتی کمیشن بنے۔ انھوں نے بالاخر یہی نتیجہ اخذ کیا  کہ اس چوری کی تفصیلی تحقیق اور مستند شہادتوں اور شواہد سے یہ بات بلا شک و شبہہ ثابت ہوگئی ہے کہ یہ کام یقیناً کسی چور کا ہے۔

دیگر صوبوں کی نسبت نامعلومستان کے ایک صوبے میں زیادہ لوگ اچانک کیسے غائب ہوجاتے ہیں ؟ ہوسکتا ہے غیر ملکیوں کو یہ بات بھی عجیب لگے۔لیکن سب مقامی لوگوں جانتے ہیں کہ اس خاص صوبے میں شدید سردی اور شدید گرمی پڑتی ہے لہٰذا بہت سے لوگ جب بغیر احتیاطی تدبیر کے گھر سے نکلتے ہیں تو راستے میں لو یا پالا لگنے سے کسی سڑک کے کنارے یا کسی پگڈنڈی پر یا کوئی ویران جگہ عبور کرتے ہوئے پٹ سے گر پڑتے ہیں اور مرجاتے ہیں۔ان میں سے بہت سوں کے جسم درست حالت میں مل جاتے ہیں۔کئی گرے ہوؤں کو جنگلی جانور موقع پا کر بھنبھوڑ لیتے ہیں اور کچھ بدقسمت عالمِ بے ہوشی میں صحرائی جھکڑوں یا طوفانِ بادوباراں کے سبب مٹی یا ریت کے نیچے آدھے دفن ہوجاتے ہیں۔ہوسکتا ہے  ان میں سے کچھ کو کسی ذاتی دشمنی یا رنجش کے سبب کوئی اغوا کرکے بھی ماردیتا ہو۔یہ بھی ممکن ہے کہ انھوں نے تنگ آ کر دنیا ہی تیاگ دی ہو اور بطور سادھو ویرانوں کا رخ کرلیا ہو۔مگر پروپیگنڈہ یہی ہوتا ہے کہ انھیں کسی بے حس گروہ یا حساس ادارے نے زبردستی اغوا کرکے مارا ہے۔آپ ہی دل پر ہاتھ رکھ کے بتائیے کہ کسی پر بے بنیاد بہتان طرازی اور خامخواہ کی الزام تراشی کرنے والے دنیا میں کہاں نہیں پائے جاتے۔ ایسے عناصر صرف نامعلومستان میں تھوڑی ہوتے ہیں۔

اچھی بات یہ ہے کہ نامعلومستان میں ہر شہری ، تنظیم ، گروہ اور ادارہ مکمل آزاد ہے۔حکومت ان آزادیوں میں کم سے کم مداخلت پر یقین رکھتی ہے۔کوئی کسی بھی معاملے میں کسی کا نام لینا اس لیے پسند نہیں کرتاکیونکہ جب ہر چیز دوسری چیز سے جڑی ہوئی ہے تو پھر نام لینا نہ لینا بے معنی اور اپنا اور دوسروں کا وقت ضایع کرنے والی بات ہے۔بھلا یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایسی آزادیاں اگر مغربی دنیا میں ہوں تو انھیں سراہا جاتا ہے اور آئیڈیالائز کیا جاتا ہے اور مثالی معاشرے کہا جاتا ہے اور اگر یہی آزادیاں نامعلومستان میں ہوں تو انھیں افراتفری ، لاقانونیت ، منافقت اور جانے کیا کیا کہہ کر کوسا جاتا ہے۔جلنے والے جلا کریں مگر نامعلومستان کی اپنی شناخت ، اپنا نظام اور اپنی سوچ ہے۔اسی لیے تو ، اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ہم ایک ہیں۔۔۔۔

( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے )

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔