- چیئرمین پی ٹی آئی کا چیف جسٹس کو خط، بنیادی حقوق کے تحفظ کا مطالبہ
- کلائنٹ اور وکیل کی ذاتی آڈیو لیک کرنیوالوں کو شرم آنی چاہیے، لطیف کھوسہ
- ترجیح ڈومیسٹک کرکٹ ہے؛ احمد شہزاد کی ابوظہبی میں لِیگ کھیلنے سے معذرت
- سرکاری نمبر والی ڈبل کیبن گاڑیوں میں شہریوں کو اغوا کرنے والا گروہ گرفتار
- نگراں وزیراعلیٰ سندھ نے فلسطینی طلباء کیلیے اسکالر شپ کی منظور دیدی
- عالمی مارکیٹ میں سونامہنگا ہوگیا، مقامی سطح پر قیمت مستحکم
- عمران خان کی اہلیہ اور بہنوں میں اختلافات کھل کر سامنے آگئے، فون کال لیک
- امریکا کے سابق وزیرِ خارجہ ہنری کسنجر 100 سال کی عمر میں چل بسے
- 190 ملین پاؤنڈز کرپشن کیس؛ عمران خان کی درخواستِ ضمانت بعد از گرفتاری دائر
- ٹک ٹاکر کو چوری اور قتل کے جرم میں سزائے موت
- جسٹس مظاہر نقوی نے جوڈیشل کونسل کے دونوں شوکاز نوٹس چیلنج کردے
- پنجاب حکومت کا لاہور میں مصنوعی بارش کا منصوبہ ناکام
- منی لانڈرنگ کیس؛ مونس الہی کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی شروع
- توہین الیکشن کمیشن کیس؛ وزارت داخلہ نے عمران خان کو پیش نہ کرنے کی رپورٹ جمع کرادی
- شان مسعود کی پی سی بی سینٹرل کنٹریکٹ میں ترقی
- ایڈز کا عالمی دن اور کمیونٹیز کی قیادت
- نواز شریف توشہ خانہ ریفرنس میں شامل تفتیش ہوگئے
- حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی میں مزید ایک دن کی توسیع
- پی ٹی آئی رہنما کو بیرون ملک جانے سے روکنے پر حکومت سے جواب طلب
- کراچی؛ گلستان جوہر میں خاتون 3 کم سن بیٹوں سمیت ذبح، شوہر گرفتار
جامعات میں وائس چانسلرز لگانے کا اختیار صوبوں سے واپس لینے کا بل قومی اسمبلی میں جمع

فوٹو: فائل
کراچی: جامعات میں وائس چانسلرز کے تقرر کا اختیار صوبوں سے واپس لینے کا بل قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرادیا گیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت نے 18 ویں ترمیم میں صوبوں کو تعلیم کے شعبے میں دی گئی خود مختاری ختم کرنے کے لیے کوششیں شروع کردی ہیں اور اس سلسلے میں کچھ اراکین قومی اسمبلی کے ذریعے پرائیویٹ ممبر بل کی صورت میں اعلیٰ تعلیمی کمیشن آف پاکستان کے ایکٹ میں تبدیلی کا بل قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کرادیا گیا ہے۔
اس بل کی منظوری کی صورت میں صوبائی سرکاری جامعات کے وائس چانسلرز کے انتخاب کا اختیار صوبائی حکومتوں سے اعلیٰ تعلیمی کمیشن آف پاکستان کو منتقل ہو جائے گا جبکہ نئی قائم ہونے والی سرکاری و نجی جامعات کی واحد اور مکمل ریگولیٹری اتھارٹی وفاقی ایچ ای سی ہوگی جبکہ اس وقت صوبائی سطح پر نجی و سرکاری جامعات صوبائی اسمبلی سے قانون منظور کیے جانے کی صورت میں قائم ہوتی ہیں اور سندھ میں نجی جامعات یا اسناد تفویض کرنے والے اداروں کو چارٹر دینے کی سفارش صوبائی ایچ ای سی کرتی ہے۔
یہ پرائیویٹ بل اراکین قومی اسمبلی ڈاکٹر ذوالفقار علی بھٹو، ڈاکٹر ثمینہ مطلوب اور زہرا ودود فاطمی کی جانب سے قومی اسمبلی میں جمع کرایا گیا ہے جبکہ بل پر اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے سندھ اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر طارق رفیع اور پنجاب اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر شاہد منیر نے اپنے اپنے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو خطوط بھی تحریر کردیے ہیں جس میں اس بل کو اٹھارویں ترمیم کے منافی اور صوبائی معاملات میں بدترین مداخلت قرار دیا گیا ہے۔
بل میں کہا گیا ہے کہ صوبائی اور وفاقی حکومت کی تحریری درخواست پر فیڈرل کمیشن جامعات میں وائس چانسلر کے تقرر کے لیے سرچ کمیٹی قائم کرے گا جس کی سربراہی چیئرمین ایچ ای سی کا نمائندہ کرے گا، واضح رہے کہ اس وقت سندھ میں اسمبلی سے قانون کی منظوری کے بعد سرچ کمیٹی قائم ہے اور بربنائے عہدہ چیئرمین سندھ ایچ ای سی اس کمیٹی کے سربراہ جبکہ دیگر اراکین بھی بلحاظ عہدہ کمیٹی کا حصہ ہوتے ہیں وزیر اعلیٰ سندھ اس کمیٹی کی سفارش پر ہی صوبائی جامعات میں وائس چانسلر کا تقرر کرتے ہیں۔
“ایکسپریس” نے اس سلسلے میں جب چیئرمین ایچ ای سی اسلام آباد ڈاکٹر مختار احمد سے رابطہ کرکے اس بل کے بارے میں دریافت کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ” ایسا کرنا کسی کی خواہش تو ہوسکتی ہے لیکن عملی طور پر ممکن نہیں، انہوں نے کہا کہ اس بل کے بارے میں میں بھی سن چکا ہوں تاہم وزارت تعلیم نے خود ایک ترمیمی بل تیار کیا ہے اور اس پر جائزے کے لیے ہمارے دو اجلاس بھی ہوچکے ہیں۔
علاوہ ازیں سندھ ایچ ای سی کے چیئرمین ڈاکٹر طارق رفیع کی جانب سے صوبائی حکومت کو اس سلسلے میں بھجوائے گئے خط میں بل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایچ ای سی اسلام آباد کے ایکٹ 2002 کے سیکشن 4 میں مجوزہ ترمیم میں کہا گیا ہے کہ ملک میں اعلیٰ تعلیم کی واحد ریگولیٹری اتھارٹی ہائر ایجوکیشن کمیشن ہوگا۔
خط میں کہا گیا ہے کہ اس بل کے مجوزہ کچھ سیکشن کے میں کمیشن کو اس قدر اختیارات دینے کی بات کی گئی ہے جس سے وفاق اور صوبائی حکومتوں کے اسٹرکچر کو ضرب لگ رہی ہے اور چونکہ یہ بل صوبائی حکومتوں کی مشاورت کے بغیر ہی لایا جارہا ہے لہذا یہ 26 فروری 2022 کے مشترکہ مفادات کی کونسل کے منعقدہ اجلاس اور اس کے فیصلوں کی نفی کرتا ہے، ادھر ذرائع کہتے ہیں کہ بعض قوتیں تعلیمی اسٹیک ہولڈرز کو اس بل میں الجھا کر وزارت تعلیم کے بل کو منظور کرانا چاہتی ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔