- پی ایس ایل 9 ؛ افتخار احمد ملتان سلطانز کا حصہ بن گئے
- مہینوں سے سردرد میں مبتلا شہری کی کھوپڑی سے کیا نکلا، ڈاکٹر حیران
- دنیا کی پہلی مسافر برقی ’فلائنگ‘ شپ سروس کا آغاز آئندہ برس سے ہوگا
- دل کے دورے کا خطرہ کم کرنے والا نیا خون کا ٹیسٹ
- ایف بی آر نے پی آئی اے کے منجمد بینک اکاونٹس بحال کردیئے
- دنیا کے سستے ترین شہروں میں ایک پاکستانی شہر بھی شامل
- ایک بیٹا 3 مائیں، نادرا کا انوکھا کارنامہ
- جو لیڈر ملک کو آگے لے جائے بعض قوتیں اسے پیچھے کھینچتی ہیں، آصف زرداری
- ن لیگ ناکام ہوچکی یہ سیاست کے شوباز ہیں، بلاول بھٹو
- پاکستان جاکر اسلام قبول کرکے شادی کرنیوالی انجو بھارت پہنچ گئیں
- اردو یونیورسٹی؛ ڈیڑھ سال بعد مستقل وائس چانسلر کے انتخاب کیلیے کارروائی شروع
- راولپنڈی: والد پر تشدد کرنے والا ناخلف بیٹا گرفتار
- مقدمات سے بریت؛ شریف برادران کے لاڈلے ہونے میں کوئی شک باقی ہے؟ پرویز الٰہی
- چیئرمین پی ٹی آئی کا چیف جسٹس کو خط، بنیادی حقوق کے تحفظ کا مطالبہ
- کلائنٹ اور وکیل کی ذاتی آڈیو لیک کرنیوالوں کو شرم آنی چاہیے، لطیف کھوسہ
- ترجیح ڈومیسٹک کرکٹ ہے؛ احمد شہزاد کی ابوظہبی میں لِیگ کھیلنے سے معذرت
- سرکاری نمبر والی ڈبل کیبن گاڑیوں میں شہریوں کو اغوا کرنے والا گروہ گرفتار
- نگراں وزیراعلیٰ سندھ نے فلسطینی طلباء کیلیے اسکالر شپ کی منظور دیدی
- عالمی مارکیٹ میں سونامہنگا ہوگیا، مقامی سطح پر قیمت مستحکم
- عمران خان کی اہلیہ اور بہنوں میں اختلافات کھل کر سامنے آگئے، فون کال لیک
پلاسٹک کے ذرات خون اور دماغ تک پہنچ سکتے ہیں

نئی تحقیق کے مطابق پلاسٹک کے ذرات انسانی دماغ تک پہنچ سکتے ہیں۔ فوٹو: فائل
ویانا، آسٹریا: ماہرین نے چوہوں پر تجربات سے خبردار کیا ہے کہ پلاسٹک کے ذرات ماں کے دودھ، خون اور دماغ تک بھی پہنچ سکتے ہیں۔
جامعہ ویانا کے محققین نے چوہوں کے تجربات کےبعد کہا ہے کہ عین یہی معاملہ انسانوں کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔ انہوں نے پلاسٹک کے خردبینی ذرات والا پانی چوہوں کو پلایا اور نوٹ کیا کہ دو گھنٹے میں پلاسٹک ان کے دماغ تک جاپہنچا۔
’دماغ میں جانے کے بعد پلاسٹک کے ذرات اندرونی جلن (انفلیمیشن) اعصابی منفی کیفیات اوریہاں تک کہ الزائیمر اور ڈیمنشیا جیسی خطرناک بیماریوں کی وجہ بھی بن سکتے ہیں،‘ ماہرین نے کہا۔
ویانا یونیورسٹی سے وابستہ سائنسداں لیوکاس کینر کے مطابق اگرچہ اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے لیکن چوہوں پر منفی اثرات خود انسانوں پر بھی ہوسکتے ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ اگر مائیکرو(خرد) پلاسٹک دماغ تک چلے جائیں تو وہ کم وقتی اثرات مثلاً اکتسابی خرابی، اعصابی سمیت (ٹاکسی سِٹی) اور نیوروٹرانسمیٹر تک میں تبدیلی کی وجہ بن سکتے ہیں۔
ماہرین نے چوہوں کو جو پانی پلایا اس میں پولی اسٹائرین کے ذرات شامل تھے جن سے فون بنتا ہے اور کھانے کے کپ کو پیک کیا جاتا ہے۔ ان میں 0.001 ملی میٹر کے انتہائی باریک (نینو) ذرات چوہوں کے دماغ تک جاپہنچے جن کی تصدیق کمپیوٹرماڈلوں سے بھی ہوگئی۔ لیکن ماہرین اب تک یہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ آخر کس طرح پلاسٹک دماغ کے اندر پہنچے کیونکہ خون اور دماغ کے درمیان ایک خلیج ہوتی ہے جسے ’بلڈ برین بیریئر‘ کہا جاتا ہے اور یوں دماغ زہریلے جسمانی مواد سے محفوظ رہتا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ پلاسٹک کی تھیلیاں ہوں یا بوتلیں ان سے باریک ذرات نکل کر مٹی اور پانی میں مل رہے ہیں اور یوں ہم انسان روزانہ ہی پلاسٹک نگل رہے ہیں۔
پلاسٹک کے ذرات اب خواتین کے دودھ ، انسانی خون اور آنول نال میں بھی دریافت ہوچکے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔