- فلسطین کا دوریاستی حل کسی صورت قبول نہیں، مفتی تقی عثمانی
- ذوالفقار بھٹو پھانسی: صدارتی ریفرنس جلد سماعت کیلیے مقرر ہونیکا امکان
- منشیات اسمگلنگ کیلیے خواتین کو استعمال کرنے کے رجحان میں اضافہ
- 190 ملین پاؤنڈ کیس میں بشریٰ بی بی پر گرفتاری کا منڈلاتا خطرہ ٹل گیا
- پاکستان اسرائیل کو دھمکی دے تو غزہ جنگ رک سکتی ہے، سربراہ حماس
- نسیم شاہ فٹ ہوگئے! چھوٹے رن اَپ کیساتھ بالنگ شروع کردی
- چیف الیکشن کمشنر کا خیبرپختونخوا میں الیکشن کی تیاریوں پر اظہاراطمینان
- امریکا نے مغربی کنارے میں تشدد میں ملوث یہودیوں پر پابندی عائد کردی
- نواز شریف کی چوہدری شجاعت کے گھرآمد، سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی پیشکش
- چڑیا گھر بہاولپور میں شیر کے پنجرے میں ایک شخص ہلاک
- سونے کی فی تولہ قیمت میں 1300روپے کی کمی
- مشفق الرحیم عجیب انداز میں وکٹ گنوانے والے پہلے بنگلادیشی کھلاڑی بن گئے
- توہین الیکشن کمیشن کیس؛ عمران خان، فواد چوہدری کے جیل ٹرائل کا فیصلہ
- جنگ کے بعد غزہ میں بین الاقوامی مداخلت ناقابل قبول ہے، اسرائیلی وزیراعظم
- جسٹس اعجاز الاحسن کی سپریم جوڈیشل کونسل میں بطور ممبر شمولیت چیلنج
- لاہور میں گرفتار تمام کم عمر گرفتار ڈرائیورز مقدمات سے ڈسچارج
- تشدد کا شکار کمسن ملازمہ رضوانہ صحتیابی کے بعد اسپتال سے ڈسچارج
- بلوچستان میں مردم شماری کیخلاف اپیل پر اےجی بلوچستان سے جواب طلب
- ٹریفک پولیس پنجاب کا نیا ریکارڈ؛ ایک دن میں 95 ہزار ڈرائیونگ لائسنس جاری
- ٹرائل 2 سال تک مکمل نہ ہو تو ملزم ضمانت کا حق دار ہے، سپریم کورٹ
تبدیل شدہ دنیا کے ناقابل تبدیل شدہ لوگ
امریکا کے فلسفی جان ڈیوی نے کہا تھا ’’ ہم صرف اس وقت سوچتے ہیں جب مشکلات کا سامنا کرتے ہیں‘‘ ڈیوی فطرت پسند چارلس ڈارون کے نظریہ ارتقاء سے بہت متاثر تھا جس کی کتاب ’’ انواع کی ابتداء ‘‘ 1859 میں شائع ہوئی تھی۔
ڈارون نے انسانوں کو ایسی زندہ مخلوق قرار دیا تھا جو فطرت کی دنیا کا ایک حصہ ہے اور دوسرے حیوانوں کی طرح انسان اپنے بدلتے ہوئے ماحول کے تقاضوں کے مطابق ارتقا حاصل کرتا آیا ہے۔ ڈیوی ، ڈارون سے یہ تصور بھی لیتا ہے کہ ہم مجموعی طور پر ایک ایسا نظام ہیں جو مسلسل تبدیلی کی حالت میں ہے۔ تبدیلی کا یہ عمل آغاز سے آج تک مسلسل کام کر رہا ہے۔
ٹی ایس ایلیٹ نے اپنے مضمون ’’ شاعری کا سماجی منصب ‘‘ میں وہ کہتا ہے ’’ ہمارا شعور و ادراک جیسے جیسے ہمارے گرد و پیش کی دنیا بدلتی ہے خود بھی بدلتا رہتا ہے۔ مثلاً اب ہمارا شعور و ادراک وہ نہیں ہے جو چینیوں کا ، ہندؤں کا تھا بلکہ وہ اب ویسا بھی نہیں ہے جیسا کئی سو سال قبل ہمارے آباؤ اجداد کا تھا۔
یہ ویسا بھی نہیں ہے جیسا ہمارا پنے باپ دادا کا تھا ہم خود بھی وہ شخص نہیں ہیں جو ایک سال پہلے تھے۔‘‘ اگر آج ایلیٹ زندہ ہوتے اور وہ پاکستان کی سیاست پر گہری نظریں گاڑے ہوئے ہوتے تو انھیں اپنی کہی گئی بات کی خود ہی تردید کرنا پڑجاتی، اس لیے کہ پوری دنیا بدل گئی لوگ بدل گئے اور مسلسل بدل رہے ہیں لیکن ماشاء اللہ ، الحمد اللہ ہمارے کرتا دھرتا نہ تو بدلے ہیں اور نہ ہی ان کا بدلنے کا کوئی ارادہ ہے وہ سالوں پہلے بھی ایسے ہی تھے اور سالوں بعد بھی ویسے کے ویسے ہی ہیں۔
سالوں سے خود سے اور زمانے سے الجھتے ہی آرہے ہیں انھوں نے کبھی بھی نا سمجھنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ عجیب وغریب قسم کی نفسیات رکھنے والے کرتا دھرتاؤں سے ہمیں پالا پڑا ہوا ہے۔
مزے کی بات یہ ہے وہ سارا وقت اس بات پر بضد رہتے ہیں کہ ان کے ساتھ ساتھ کبھی بھی دوسرے بھی وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل نہ ہوں اور سماج اسی طرح سے مکمل جامد اور منجمد رہے جیسا کہ ہے وہ یہ سوچنا تک گوارہ نہیں کرتے ہیں کہ ہم سب ایک تبدیل شدہ دنیا میں سانس لے رہے ہیں۔
ایسی تبدیلی شدہ دنیا جو کرپشن اور لوٹ مار کو نفرت اور حقارت کی نگاہ سے دیکھتی ہے جو بد اعمالیوں اور بدعنوانیوں کو کسی صورت برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے جو آج شفافیت ، کرپشن سے پاک سماجوں کی عزت کرتی ہے جو سماجوں میں انصاف برداشت ، رواداری اور قانون کی حکمرانی پسند کرتی ہے جو عقل و شعور و فکر اور سوچ کی حاکمیت چاہتی ہے جو مسائل اور الجھنوں سے پاک سماجوں کے لیے دن رات کام کر رہی ہے، ایسے سماجوں کے لیے جہاں انسانوں کو دیوتاؤں کا درجہ حاصل ہو۔
یاد رکھیں میرے کرتا دھرتاؤں تمہارے خوفزدہ خیالات، کرپٹ تصورات ، ناجائز اختیارات اور بدنیتوں کی موت یقینی ہے اس لیے کہ سماج کی شکلیں ہمیشہ بدلتی رہتی ہیں تم لاکھ سماج کے تمام در و دروازے بند کردو، لاکھ سوچوں پر پہرے بٹھالوں ذہنوں کو لاکھ تالے لگا دو، تم پھر بھی تازہ ہواؤں، تازہ سوچوں اور فکروں کو آنے سے نہیں روک سکو گے، کرپشن و لوٹ مار سے پاک ہمارے سماج کو بننے سے اب کوئی نہیں روک پائے گا۔
ایک کہاوت ہے کہ ’’ جہاں بصیرت نہیں ہوتی وہاں لوگ تباہ حال ہو جاتے ہیں ‘‘ اسی لیے سوچ کے پرانے طریقوں سے نجات پرانے نمونوں سے نجات یہ سب کچھ تاریخ کے بڑے بڑے معرکوں میں شامل ہے۔ جب ہینری کسنجر سیکریٹری آف اسٹیٹ تھا وہ اپنے ماتحت اسٹاف سے یہ کہتا تھا کہ وہ اسے اپنی بہترین سفارشات پیش کریں وہ سفارشات کواپنے ہمراہ لے جاتا اور 48 گھنٹے تک اپنے پاس رکھتا تھا اور اس سوال کے ساتھ ان کو واپس کر دیتا تھا کہ ’’ کیا یہ بہترین ہے جو تم کرسکتے ہو؟ ‘‘ اور اس کا اسٹاف جواب دیتا کہ ’’ نہیں ہم اس پر مزید سوچ بچار کر سکتے ہیں۔
ہم اسے مزید بہتر شکل دے سکتے ہیں اور ہم دیگر نعم البدل پیش کرسکتے ہیں اور اس انجام کی نشاندہی بھی کرسکتے ہیں جس سے ہم ایسی صورتحال میں بالمقابل ہونگے جب کہ لوگ ہماری سفارشات کو قبول نہ کریں گے ‘‘ کسنجر جواب میں کہتا تھا ’’ ٹھیک ہے آپ اس پر اپنا کام جاری رکھیں۔‘‘ اب وہ دوسری مرتبہ ان سفارشات کو اس کے سامنے پیش کرتے تھے اور وہی کچھ وقوع پذیر ہوتا تھا۔
کسنجر دوبارہ ان سے دریافت کرتا تھا کہ ’’کیا یہ بہترین ہے جو تم کرسکتے ہو ‘‘ اب بہت سے لوگ اپنی پیشکش کی خامیوں سے واقف ہوچکے ہوتے تھے لیکن مکمل اسٹاف ورک کا اصول ان کو یہ ذمے داری عطا کرتا تھا کہ و ہ اپنی خامیوں کی شناخت کریں اور ان کو درست کریں یا کم از کم یہ کریں کہ اپنی خامیوں کی شناخت کریں اور ان خامیوں کے ساتھ نپٹنے کی تدابیر پیش کریں۔ کسنجر کچھ چھوٹی موٹی خامیوں کی نشاندہی کرتا تھا۔
کسنجر انہیں مشورہ دیتا تھا کہ واپس جاؤ اور اس پر اپنا کام جاری رکھو اسے بہتر بناؤ اسے تقویت بہم پہنچاؤ اوروہ ایسا ہی کرتے تھے اور اب وہ تیسری مرتبہ ان سفارشات کو کسنجر کے سامنے پیش کرتے تھے اور وہ تیسری مرتبہ یہ ہی کہتا تھا کہ ’’ کیا یہ بہترین ہے جو تم کرسکتے ہو؟ کیا یہ تمہاری حتمی سفارشات ہیں؟ کیا ان میں مزید بہتری کا امکان ہے؟ اور وہ کہتے تھے ’’ ہم ان کے بارے میں بہترمحسوس کرتے ہیں لیکن ممکن ہے کہ ہم ان کی زبان میں قدرے بہتری لاسکیں۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ ہم انہیں قدرے بہتر طور پر پیش کرسکیں۔‘‘
وہ ان پر اپنا کام جاری رکھتے تھے اور ایک مرتبہ پھر کسنجر کو پیش کرتے تھے اس مرتبہ وہ یہ کہتے تھے کہ ’’ یہ بہترین ہے جو ہم کرسکتے ہیں ہم نے ان پر کافی زیادہ غورو خوض سر انجام دیا ہے اور ہم نے واضح طور پر متبادل بھی شناخت کیے ہیں۔ انجام بھی شناخت کیے ہیں ہم نے اس پر روبہ عمل ہونے کی تجاویز بھی پیش کی ہیں اور اب ہم نے انہیں حتمی شکل دے دی ہے۔ اب ہمیں یقین ہے کہ آپ انہیں مکمل اعتماد کے ساتھ پیش کرسکتے ہیں۔‘‘ اب کسنجر جواب دیتا کہ ’’ ٹھیک ہے اب میں اسے پڑھوں گا۔‘‘ پوری دنیا مکمل اسٹاف ورک پرکہ یہ ایک بہترین آئیڈیا ہے متفق ہوچکی ہے۔
اس کا اصول یہ ہے کہ لوگ مسئلے کے بارے میں سوچتے ہیں، مسئلہ کا گہرائی میں تجزیہ سرانجام دیتے ہیں، کئی ایک متبادل حل تلاش کرتے ہیں اور ان کے انجام / نتائج زیر غور لاتے ہیں اور بالآخر ایک متبادل حل کی سفارش کرتے ہیں یہ مہارت ملکوں اور لوگوں کو خوشحال بنا نے کے قابل بناتی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔