- بشریٰ بی بی کا آڈیو لیک کیخلاف اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع
- بھارت میں آنکھوں کے ڈاکٹر نے بیوی اور 2 بچوں کو قتل کرکے خودکشی کرلی
- غزہ پر عرب لیگ اجلاس نشستن برخواستن ہے، نگراں وزیر مذہبی امور
- اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کی بڑی کامیابی
- فلسطین کا دوریاستی حل کسی صورت قبول نہیں، مفتی تقی عثمانی
- ذوالفقار بھٹو پھانسی: صدارتی ریفرنس جلد سماعت کیلیے مقرر ہونیکا امکان
- منشیات اسمگلنگ کیلیے خواتین کو استعمال کرنے کے رجحان میں اضافہ
- 190 ملین پاؤنڈ کیس میں بشریٰ بی بی پر گرفتاری کا منڈلاتا خطرہ ٹل گیا
- پاکستان اسرائیل کو دھمکی دے تو غزہ جنگ رک سکتی ہے، سربراہ حماس
- نسیم شاہ فٹ ہوگئے! چھوٹے رن اَپ کیساتھ بالنگ شروع کردی
- چیف الیکشن کمشنر کا خیبرپختونخوا میں الیکشن کی تیاریوں پر اظہاراطمینان
- امریکا نے مغربی کنارے میں تشدد میں ملوث یہودیوں پر پابندی عائد کردی
- نواز شریف کی چوہدری شجاعت کے گھرآمد، سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی پیشکش
- چڑیا گھر بہاولپور میں شیر کے پنجرے میں ایک شخص ہلاک
- سونے کی فی تولہ قیمت میں 1300روپے کی کمی
- مشفق الرحیم عجیب انداز میں وکٹ گنوانے والے پہلے بنگلادیشی کھلاڑی بن گئے
- توہین الیکشن کمیشن کیس؛ عمران خان، فواد چوہدری کے جیل ٹرائل کا فیصلہ
- جنگ کے بعد غزہ میں بین الاقوامی مداخلت ناقابل قبول ہے، اسرائیلی وزیراعظم
- جسٹس اعجاز الاحسن کی سپریم جوڈیشل کونسل میں بطور ممبر شمولیت چیلنج
- لاہور میں گرفتار تمام کم عمر گرفتار ڈرائیورز مقدمات سے ڈسچارج
اندرونی قرض، مارک اپ ادائیگی خطرناک حد تک بڑھ گئی

قرض ادائیگی ری شیڈول کرنے کا حکومتی اختیار معیشت کیلیے تباہ کن،ثنا توفیق، فرحان رضوی۔ فوٹو: فائل
کراچی: پاکستان قرضوں کے جال میں پھنس چکا ہے،اس کا اندرونی قرض اور مارک اپ ادائیگی خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔
حکومت کے پاس معیشت کی بحالی اور مالیاتی گنجائش پیدا کرنے کیلئے قرض ادائیگی کو ری شیڈول کرنے کا اختیار ہو تا ہے، تاہم ایسا کرنے سے ملکی بینکوں کے بری طرح متاثر اور معیشت کے تباہ ہونے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔
ری شیڈول کرنے میں قرض کی ادائیگی کیلیے مدت کا دوبارہ تعین کرنا، مارک اپ کی ادائیگیوں کو موخر کرنا یا قرض کی مقدار میں کمی کرنا، یعنی ملکی بینکوں کو مقررہ رقم سے کم ادائیگی کرنا شامل ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سرکاری قرضے سسٹین ایبل لیول سے بلند رہنے کے خطرات
عارف حبیب لمیٹڈ کے تجزیہ کاروں ثنا توفیق اور فرحان رضوی کی تحریر کردہ ’پاکستان اکانومی: کیا اندرونی قرض کی ریسٹرکچرنگ قابل عمل ہے‘ کے عنوان سے ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دسمبر 2022 تک پاکستان کا اندرونی قرض 3.8 ٹریلین روپے یعنی جی ڈی پی کا 45 فیصد، کل قرض کا 53 فیصد ہے،یہ قرض پچھلے پانچ سال میں دوگنا سے بھی زیادہ ہو گیا ہے، کل سرکاری قرض 52.5 ٹریلین روپے جی ڈی پی کا 73.5 فیصد مقرر کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بڑے مالی خسارے اور غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری اور غیر ملکی پورٹ فولیو سرمایہ کاری کی آمد میں کمی کے درمیان گزشتہ دہائی کے دوران قرض کی رفتار میں تیزی آئی ہے،موجودہ مالی سال 2023 میں کل ملکی قرضوں پر ڈیٹ سروسنگ (مارک اپ ادائیگی) کا حجم تقریباً 5.6 ٹریلین روپے لگایا گیا ہے جو ٹیکسوں کی مد میں ہونے والی آمدنی کا 76 فیصد حصہ ہے، مارک اپ ادائیگیاں خطرناک حد تک بڑھ گئی ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔