گابو سے میرا گہرا قلبی تعلق ہے

نصرت جاوید  منگل 22 اپريل 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

بڑی فکر مندی اور انتہائی دیانت داری کے ساتھ مجھے یہ خوف کھائے جا رہا ہے کہ کراچی میں ہونے والے ایک قاتلانہ حملے کے بعد بحث کا رُخ جس طرف چل نکلا ہے اس کا بالآخر نقصان صرف میرے جیسے ان لوگوں کو ہو گا جنھیں صحافت کے سوا اور کوئی کام نہیں آتا۔ کچھ اور کرنا چاہیں بھی تو عمر کے اس حصے کو پار کر چکے ہیں جب کسی ایک شعبے میں ترقی کی گنجائش باقی نہ رہے تو کسی اور شعبے کی طرف رجوع کر لیا جائے۔ دل میرا ان دنوں ویسے ہی بہت ادا س ہے۔ موت برحق ہے۔ اس کا ایک دن معین ہے جسے ٹالا نہیں جا سکتا۔ عالمی شہرت یافتہ گبرائیل گارسیا مرکیز جنھیں ان کے مداح صرف گابو کہہ کر پکارتے تھے ویسے بھی عمر کے اس حصے میں پہنچ چکے تھے جہاں موت کا انتظار رہتا ہے۔ ایک ایسے ادیب کی طبعی اور ایک حوالے سے غیر معمولی نہ دکھنے والی موت پر میرا اتنا دُکھی ہو جانا شاید آپ کو بہت عجیب محسوس ہو۔

وہ اُردو میں نہیں لکھتا تھا۔ اس کا تعلق لاطینی امریکا سے تھا اور یہ وہ خطہ ہے جس سے ہم پاکستانیوں کا ذرا سا بھی تعلق یا واسطہ نہیں۔ میں اس کی موت کی خبر سن کر شدید ڈیپریشن میں چلا گیا تو ایک گہرے قلبی تعلق کی وجہ سے اور یہ تعلق صرف اور صرف اس کی تحریروں کی وجہ سے قائم ہوا۔

1982 تک میں اس کے نام سے بھی واقف نہ تھا۔ مگر اس سال جب اسے ادب کا نوبل پرائز ملا تو میں لندن میں تھا۔ اس شہر میں میرا دل بہت اچاٹ رہتا تھا۔ مجھے ہر وقت پاکستان کی افراتفری اور گہماگہمی یاد آتی تھی۔ اپنے ملک میں رہتے ہوئے ذرا دبنگ نوعیت کی صحافت کرنا چاہتا تھا مگر جنرل ضیاء الحق کی وجہ سے کسی اخبار میں پروف ریڈر بننے کی بھی گنجائش نہ تھی۔ گابو کو نوبل انعام ملنے کی خبر ملنے کے بعد اس کی تحریروں کے بارے میں تجسس پیدا ہوا۔ بازار گیا اور One Hundred Years of Solitude خرید لی۔

’’سوسال کی تنہائی‘‘ کی پہلی سطر پڑھتے ہی میں اس کے سحر میں گرفتار ہو گیا اور بغیر کچھ کھائے پیئے پورے دو دن مسلسل جاگ کر اس ناول کو ختم کیا۔ اس ناول کے پلاٹ سے کہیں زیادہ حیران کن اس کی کہانی میں موجود چند نسوانی کردار تھے۔ زندگی کی سختیوں کا یہ عورتیں بہت بہادرانہ انداز میں مقابلہ کرتیں اور ایسی شاندار بہادری کے باوجود خود کو عام عورتیں ہی سمجھتیں۔ اپنے روزمرہّ معمولات کی قیدی یہ عورتیں بہت سادہ لوح بھی نظر آتیں۔ کم از کم دو عورتوں کے عمومی رویے دیکھ کر مجھے یہ محسوس ہوا جیسے گابو گھنٹوں میری ماں کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرتا رہا ہے۔ اس کے لکھے نسوانی کرداروں میں اپنی ماں دریافت کرنے کی وجہ سے میں گابو کے ساتھ قلبی طور پر وابستہ ہو گیا اور یہ وابستگی پوری شدت کے ساتھ میرے اندر اب بھی موجود ہے۔

لاطینی امریکا کے بیشتر ممالک بھی ہماری طرح برسوں تک سامراجی قوتوں کے غلام رہے ہیں۔ ہمارے مقابلے میں وہاں برپا ہونے والی آزادی کی تحریکیں مگر پر امن نہ تھیں۔ ہزاروں دیوانوں نے کئی برسوں کی مسلح جدوجہد کے ذریعے اپنے وطن کو غیر ملکی غلامی سے آزاد کروانے کی جدوجہد کی۔ آزادی مل جانے کے بعد ان ممالک میں لیکن سیاسی تقسیم پوری شدت کے ساتھ موجود رہی اور متحارب سیاسی گروہوں نے صرف اور صرف بندوق کے زور پر اپنے نظریات کو پورے معاشرے میں مسلط کرنا چاہا۔ مسلسل ہوتی خانہ جنگیوں کی وجہ سے لاطینی امریکا کے بیشتر ممالک میں انتہائی ظالمانہ فوجی آمروں نے طویل حکمرانی کے ادوار بھی سہے۔ گابو واضح طور پر سیاسی سوالات نہ اٹھاتا اور نہ ہی سیاست اس کے ناولوں کا اصل موضوع ہوتی۔

وہ زندگی کو عام انسان کی طرح دیکھتے ہوئے بھی بڑی مہارت سے یہ بات دریافت کر لیتا کہ ’’خوئے غلامی‘‘ بھلے چنگے انسانوں کو تباہ کر دیتی ہے۔ بلھے شاہ نے ’’شک شبے داویلا‘‘ پہچان لینے کے بعد اپنے وقت کے پنجاب پر حاوی انسانی دلوں میں جاگزیں اس نام نہاد پارسائی کی جارحانہ مذمت کرنا شروع کر دی تھی جس کے باعث دوسرے انسانوں کو اپنے سے کم تر سمجھ کر حقارت سے دھتکار دینا ہے۔ گابو کی دریافت کردہ ’’خوئے غلامی‘‘ کی جڑیں بھی ایک ایسے معاشرے میں موجود نظر آتی ہیں جہاں کوئی فرد کسی بھی دوسرے فرد پر اعتبار نہیں کرتا۔ ہر ایک کو شک و شبے کی نظر سے دیکھتا ہے۔ یہ اعتبار کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتا کہ کم از کم چند لوگوں کی نیت ہرگز کھوٹی نہیں ہوا کرتی۔

وقت کے ساتھ ساتھ میرے خیالات میں جو تھوڑی بہت پُختی آئی اس کی بدولت میں ’’سو سالہ تنہائی‘‘ کو لیکن گابو کا ایک ضرورت سے زیادہ مشہور ناول سمجھنا شروع ہو گیا۔ میری دانست میں اس کا اصل شاہکار Autumn of a Patriarch ہے۔ اپنے ہاں کے چند ٹھوس حوالوں کی وجہ سے میں اس کا ترجمہ ’’فوجی آمر کی خزاں‘‘کے طور پر کرنا چاہوں گا۔ ایک انتہائی سفاک آمر کی یہ داستان، جو اپنے سایے پر بھی اعتبار نہیں کرتا، دل دہلا دیتی ہے۔ اس کا آغاز حیران کن ہے کہ وہ آمر جس کی غلام بنی قوم اپنے طور پر فرض کرچکی ہے کہ اسے کبھی موت نہیں آئے گی اور وہ ساری عمر  ان پر حکمرانی کرتا رہے گا پتہ نہیں کتنے دنوں، مہینوں یا سالوں سے مر چکا ہوتا ہے۔

شہر والوں کو مگر اس کی موت کی خبر اس وقت ملی جب گدھوں کے ایک بہت بڑے غول نے صدارتی محل کے اوپر منڈلانا شروع کر دیا اور ایوان صدر کی کھڑکیوں اور روشندانوں کو دیوانہ وار چونچیں مارتے ہوئے آمر کے مردار تک پہنچنا چاہا۔ کہنے کو یہ ایک سفاک آمر کی داستان ہے۔ مگر اسے پڑھتے ہوئے کئی مقامات پر آپ اس کی بے بسی پر بڑی شدت کے ساتھ ترس کھانا شروع ہو جاتے ہیں اور بہت مقامات ایسے بھی ہیں جہاں یہی آمر محض ایک مسخرہ نظر آتا ہے۔ نثر نگاری کی کرافٹ کے حوالے سے یہ ناول ایک شاہکار ہے۔ خشونت سنگھ کا ’’دلی‘‘ پڑھتے ہوئے کئی بار مجھے اس کرافٹ کی دانستہ نقالی ہوتی ہوئی محسوس ہوئی۔ مگر اُردو کا ایسا کوئی اور ادیب نظر نہیں آتا جس نے نثر نگاری کی ایسی مہارت اپنی کسی تحریر میں ایسی سحرانگیزی کے ساتھ برتی ہو۔

’’فوجی آمر کی خزاں‘‘ پڑھنے کے بعد میں نے فرض کر لیا کہ گابو اب کوئی معرکتہ الآرا ناول نہیں لکھ پائے گا۔ ’’ہیضے کی وباء کے دوران پلتی محبت‘‘ جو میری نظر میں “Love in Times of Cholera” کا ممکنہ ترجمہ ہو سکتا ہے مگر ایک اور شاہکار ثابت ہوا۔ محبت کی ماری دیوانگی سے اُردو شاعری بھری پڑی ہے۔ مگر نثر میں ایسا ایک کردار بھی نظر نہیں آتا جو وفاداری بشرطِ استواری کی اس معراج تک پہنچتا ہوا نظر آئے جو اس ناول کے مرکزی کردار میں نظر آتی ہے۔ میری آپ سے درد مندانہ درخواست ہے اپنے دیس میں آپادھاپی، افراتفری اور عمومی بے حسی کی جو فضاء ان دنوں ہمیں نظر آ رہی ہے اسے ذرا بہتر انداز میں سمجھنا چاہیں تو گابو کو ضرور پڑھیے۔ اسے پڑھنا شاید حساس اور ہمہ وقت کڑھتے دلوں کو کوئی علاج تو بہم نہ پہنچا سکے مگر یہ اطمینان ضرور دے سکتا ہے کہ ہم سے کہیں دور لاطینی امریکا میں بیٹھے شخص نے ہمارے دُکھوں کو بھی بیان کر دیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔