کل کی بات

رفیع الزمان زبیری  منگل 22 اپريل 2014

محمد کاظم کی کتاب ’’کل کی بات‘‘ کا تعارف یہ ہے کہ ’’فنون‘‘ میں چھپنے والے کتابوں پر ان کے تبصرے بذات خود قارئین کو محمد کاظم کی علمی و فکری اٹھان سے متعارف کرواتے ہیں کیونکہ وہ نہ صرف موضوع سے متعلق بہت سی کتابوں سے متعارف کرواتے جاتے ہیں بلکہ مصنف اور مولف کے بارے میں بھی تفصیل سے ذکر کر دیتے ہیں۔ یوں قاری کو نہ صرف کتاب کے پس منظر سے آگاہی ہوتی ہے بلکہ وہ لکھنے والے کی خامیوں اور خوبیوں کو بھی جان لیتا ہے ’’کل کی بات‘‘ میں جو تبصرے شامل ہیں ان کا زمانہ 1964سے شروع ہوکر تیس برسوں پر پھیلا ہوا ہے۔ مسعود حسن شہاب کی کتاب ’’خواجہ غلام فرید‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے محمد کاظم لکھتے ہیں:

’’خواجہ غلام فرید نہ صرف خود بڑے پائے کے صوفی تھے بلکہ ایک خانوادہ صوفیہ و اولیا کے فرزند تھے۔ ان کے دادا میاں احمد صاحب کے مرتبے کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ وہ تونسہ شریف کے خواجہ محمد سلیمان کے استاد و مرشد تھے۔ ان کے پردادا قاضی محمد عاقل بہادر شاہ ظفر کے زمانے میں ان کے پیرو مرشد مولانا فخر الدین کی خدمات میں ہدیہ ارادت پیش کرنے دلی جایا کرتے تھے اور قلعہ شاہی میں ایک معزز و محترم مہمان کی حیثیت سے ٹھہرا کرتے تھے‘‘۔ وہ لکھتے ہیں کہ خواجہ غلام فریدؒ کے حالات زندگی، ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں اور ان کے فن کی مختلف خصوصیتوں کے بارے میں جتنا مواد مسعود حسن شہاب کی کتاب میں ہے اتنا کسی اور کتاب میں نہیں۔

محمد کاظم لکھتے ہیں ’’خواجہ غلام فریدؒ کی شخصیت میں دو پہلو نمایاں نظر آتے ہیں۔ ایک ان کا تصوف اور علمی مرتبہ اور دوسرا ان کی رومانوی شاعری اور واردات عشق جس کا موضوع کوئی خیالی پیکر نہیں بلکہ بھاولپور کے ریگستانی علاقے روہی کی ایک دوشیزہ ہے۔ ان کا یہ عشق ناکام نہ تھا، وہ اپنی محبوبہ کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور اس سے شادی کر کے اسے چاچڑاں لے گئے۔’’اقبال کا علم کلام‘‘ پر جو سید علی عباس جلال پوری کے مضامین کا مجموعہ ہے تبصرہ کرتے ہوئے محمد کاظم لکھتے ہیں ’’جن لوگوں کو سید علی عباس جلال پوری کی چیزیں پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے وہ جانتے ہیں کہ سید صاحب لگی لپٹی کے قائل نہیں جس چیز کو وہ صحیح سمجھتے ہیں اسے برملا کہتے ہیں۔ اور دلیل کے ساتھ کہتے ہیں چاہے اس کی زد میں کتنی ہی بڑی شخصیت کیوں نہ آ جائے۔

اس کتاب میں بھی انھوں نے اقبالؔ کے علم کلام کے بعض ایسے پہلو بے نقاب کیے ہیں جو قرآنی تعلیمات اور اسلامی روایات سے مطابقت نہیں رکھتے یا جن میں انھوں نے واضح طور پر مغربی فلاسفہ کی تقلید کی ہے۔ یہ چیز بہت سے عقیدت مندان اقبالؔ کو گراں گزرے گی لیکن اس کا کیا علاج کہ سید صاحب نے یہ نتائج خود علامہ کی تحریروں اور ان کے اشعار سے مرتب کیے ہیں اور ان کو جھٹلانے کے معنی خود اقبال کو جھٹلانے کے ہوں گے۔ تاہم اقبال کے تنقیدی جائزے کا یہ مطلب لینا بھی صحیح نہیں ہو گا کہ سید علی عباس جلال پوری شاعر اقبال کی عظمت کے قائل نہیں۔‘‘

سید علی عباس جلالپوری نے اپنی کتاب میں ایک فلسفی اور متکلم کا فرق بتاتے ہوئے اس بات کی نشان دہی کی ہے کہ علامہ اقبال اصل میں ایک متکلم تھے، فلسفی نہیں تھے اور اسی نکتہ نظر سے انھوں نے علامہ کے علم کلام کا جائزہ لیا ہے۔

حکیم محمد سعید کے جرمنی کے سفرنامے پر تبصرہ کرتے ہوئے محمد کاظم لکھتے ہیں کہ یہ فرانس بیکن کے اسٹائل میں ہے جس کا کہنا یہ تھا کہ سفرنامے میں شہر کی دیواروں، قلعوں اور فیصلوں، وہاں کے آثار قدیمہ، کھنڈرات، دریا اور ساحل، درس گاہوں اور کتب خانوں، مکانوں اور باغوں کا ذکر لازمی طور پر ہونا چاہیے، باقی رہیں وہاں کی دعوتیں تقریبات رسومات اور تماشے تو ان کی طرف دھیان دینے کی ضرورت نہیں۔ حکیم صاحب کے سفر نامے ’’جرمنی نامہ‘‘ میں جہاں یہ سب کچھ ہے وہیں ان کی اپنی شخصیت کی جھلکیاں بھی جگہ جگہ نظر آتی ہیں۔ وہ اہل زبان ہیں اس لیے انھوں نے اپنے سفر نامے میں جو انداز بیان اختیار کیا ہے اس نے اس کتاب کو بہت دلچسپ اور قابل مطالعہ بنا دیا ہے۔ ان کی تحریر میں لطافت اور چاشنی ہے۔

رشید اختر ندوی کی کتاب ’’خلافت راشدہ اور جمہوری قدریں‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے محمد کاظم نے بڑی صاف گوئی سے کہہ دیا ہے کہ اس کتاب کے عنوان سے جو تصور اس کے مضامین کے بارے میں قائم ہوتا ہے کہ اس میں خلفائے راشدین کے عہد کے ان واقعات اور پالیسیوں کا تذکرہ ہو گا جن سے جمہوری اقدار کا تعین ہوتا ہے وہ بالکل نہیں ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’اس کتاب کے سمندر میں چند صفحے اترتے ہی پتا چل جاتا ہے کہ نیچے کی زمین بالکل ہموار ہے۔ یہاں سے وہاں تک صرف کمر کمر پانی ہے۔‘‘ محمد کاظم لکھتے ہیں ’’خلافت راشدہ کا دور اسلامی تاریخ کا زریں دور کہلاتا ہے لیکن اس دور میں جو واقعات خصوصاً آخری دو خلفا کے زمانے میں پیش آئے، ان کی تفصیل میں جا کر کسی بھی سوچنے والے مسلمان کا ذہن دھچکا کھائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ یکایک یہ سب کچھ کیسے ہو گیا اور کیوں ہو گیا۔

اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ہماری تاریخ کے اس دور کے جو واقعات مختلف روایتوں سے مشہور ہیں، صرف ان کو مدون کر دینا ہی کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ایک ایسے رواں تبصرے اور تجزیے کی بھی ضرورت ہے جو قاری کو ساتھ ساتھ یہ بھی بتاتا چلے کہ ایک خاص واقعہ کیونکر ظہور میں آیا اور اس کے پیچھے کون کون سے عوامل، تاریخی، سماجی، معاشی اور انفرادی کار فرما تھے۔ ایسے تجزیے میں ظاہر ہے بعض مقتدر شخصیتیں بھی تنقید کی زد میں آ سکتی ہیں لیکن تاریخ کے صحیح اور دیانت دارانہ مطالعے کے لیے اس سے مفر نہیں۔ ہمیں آج نہیں تو کل یہ کام کرنا ہی پڑے گا۔‘‘علامہ ابوالبرکات محمد عبدالمالک کی تصنیف ’’حسن الجردہ فی شرح القصیدۃ البردہ‘‘ عربی کی مشہور نعتیہ نظم قصیدہ بردہ کی اردو میں ایک عالمانہ اور دلچسپ شرح ہے۔ محمد کاظم نے اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے نہ صرف قصیدہ بردہ کی بلکہ عربی شاعری میں مدح نبوی کی تاریخ اور اہمیت بھی بیان کر دی ہے۔

وہ لکھتے ہیں ’’اردو زبان میں ہم جسے نعت کہتے ہیں یا نعتیہ شاعری وہ ایسی نظمیں ہیں جو رسول خداؐ کی تعریف میں کہی جاتی ہیں۔ عربی میں ایسی نظموں کو المدائح النبویہ کا نام دیا جاتا ہے۔ المدح دراصل عربی شاعری کے روایتی موضوعات میں سے ایک اہم موضوع رہا ہے۔ ایام جاہلیت میں شاعروں کی یہ مدح یعنی تعریف و تحسین امرا، حکمرانوں اور قبائلی سرداروں کے لیے ہوتی تھی۔ بعد میں جب اہل عرب کے درمیان رسول اللہؐ نے ظہور فرمایا اور آپ کی پیغمبرانہ شخصیت نے بیک وقت اپنی ہیبت اور محبوبیت سے لوگوں کو متاثر کیا تو شاعروں کو مدح کے لیے ایک نئی سمت میسر آ گئی۔ آنحضرتؐ کی مدح میں سب سے پہلے اہم کلام، شاعر کعب بن زہیر کا قصیدہ ’’بانت سعاد‘‘ ہے جس نے عربی کی نعتیہ شاعری کے ابتدائی خطوط متعین کیے۔

بانت سعاد کی اہمیت ایک تو اس کی اولیت کی وجہ سے ہے دوسرے اس وجہ سے کہ رسول اللہؐ نے یہ نظم خود سنی اور اس سے خوش ہو کر اسے اپنی چادر انعام میں عطا فرمائی۔ کعب بن زہیر کے بعد حضرت حسان بن ثابتؓ آتے ہیں جو شاعر نبی کے لقب سے مشہور ہیں۔‘‘قصیدہ بردہ کے بارے میں محمد کاظم کہتے ہیں کہ ’’عربی زبان کے نعتیہ ادب کی اس بے حد جلیل القدر نظم میں جذبہ اگرچہ سچا ہے لیکن سادہ ہے اور خیال اگرچہ پاکیزہ ہے لیکن اپنی پرواز میں وہ ارضی حقیقتوں سے دور نہیں جاتا البتہ مواد کے اعتبار سے یہ نظم مالا مال ہے، اس کا سب سے بڑا حسن اور اصل تاثیر اس کے الفاظ کی نشست اور تراکیب کی بندش ہے۔ موتیوں کے سے الفاظ جو بحر بسیط کی موسیقی میں اس خوبصورتی سے کمپوز کیے گئے ہیں کہ ان کی نغمگی اور شاعر کے خلوص نے مل کر نظم میں ایک جادوئی کیفیت پیدا کر دی ہے۔‘‘

قصیدہ بردہ کے مصنف ابوعبداللہ شرف الدین محمد بن سعید البوصیری بربری نسل کے ایک عربی شاعر اور صوفی تھے۔ پیدائش 1212 میں ہوئی 1297 میں انتقال فرمایا۔ اس قصیدے کی تخلیق کے ضمن میں محمد کاظم نے ابن شاکر الکتبی کے حوالے سے یہ واقعہ لکھا ہے کہ جب بوصیری پر فالج کا حملہ ہوا اور ان کا آدھا جسم بیکار ہو کر رہ گیا تو وہ بہت دلگرفتہ تھے۔ اس حالت میں انھوں نے یہ قصیدہ نظم کرنا شروع کیا۔ جب یہ مکمل ہو گیا تو اسے بار بار پڑھتے اور اپنی صحت کے لیے خدا تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا کرتے۔ ایک رات اسی حالت میں سو گئے تو خواب میں دیکھا کہ سرکار دو عالمؐ تشریف لائے ہیں۔ آپؐ نے اپنا دست مبارک ان کے جسم پر پھیرا اور ان پر ایک چادر ڈال دی۔ جب یہ صبح بیدار ہوئے تو اپنے آپ کو بالکل تن درست اور صحت یاب پایا۔ اس واقعے کا ان پر بہت اثر ہوا اور انھوں نے اسی کی مناسبت سے اپنے قصیدے کا نام قصیدۃ البردہ (بردہ عربی میں دھاری دار یمنی چادر کو کہتے ہیں) رکھ دیا اور آگے چل کر یہ قصیدہ اسی نام سے مشہور ہوا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔