اُردو ادب کا ایک درخشاں ستارہ

شہزاد نیاز  اتوار 14 مئ 2023
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

قمر احمد فاروقی اردو ادب کی دُنیا میں قمر جمیل کے نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ جمیل آپ کا تخلص تھا۔ 10مئی 927 کو بھارت کے شہر حیدرآباد (دکن) میں پیدا ہوئے۔ آباواجداد کا تعلق  سکندرپور، یو پی سے تھا۔

اسکول و کالج کے درجے کی تعلیم الہ آباد سے حاصل کی اور بی اے عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد سے کیا۔ تقسیم ہند  کے بعد پاکستان آگئے۔

اوائل عمری سے ہی ادبی ذوق کے مالک تھے۔ علم و ادب سے از حد لگاؤ اور  ان کا ادبی ذوق اُنہیں ایک ادبی شخصیت میں ڈھالنے کا سبب بنا۔ اپنے منفرد اور پُراثر شعری اور نثری کام کی وجہ سے آپ نے ادبی دنیا میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ آپ کے دو شعری مجموعے ’’خواب نما‘‘ اور ’’چہار خواب‘‘ کے نام سے شائع ہوئے۔

قمر جمیل نے غزل، نظم ونثری نظمیں لکھنے کے علاوہ نثری نظم کے جواز کی وضاحت کے لیے مضامین بھی تحریر کیے۔ اپنے ادبی سفر میں قمرجمیل نے ادب کی ساختیاتی تفہیم کے لیے گراں قدر مضامین لکھے جو ’’جدیدادب کی سرحدیں‘‘ کے نام سے دو جلدوں میں شائع ہوئے۔

قمر جمیل صاحب کے حوالے سے جب میں  نے یہ مضمون قلم بند کرنے کا ارادہ کیا تو  ضروری سمجھا کہ قبل از تحریر قمر جمیل صاحب کی شخصیت کے حوالے سے کچھ تحقیق کرلوں۔ اس تحقیق کے دوران آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی کی شائع کردہ کتاب  بعنوان ’’قمر جمیل ایک عہدساز شخصیت۔ کچھ یادیں کچھ باتیں‘‘  جسے  محترمہ فاطمہ حسن اور  عامر بشیر نے مرتب کیا۔

میر ی نظر سے گزری۔ محترمہ فاطمہ حسن اور عامر بشیر کے علاوہ اس کتاب میں شمس الرحمٰن فاروقی، جاذب قریشی، ضمیر علی بدایونی، شعیب غفار، سائرہ غلام نبی اور مرزا یاسین بیگ جیسی معتبر ادبی ہستیوں نے قمر جمیل کے فن اور شخصیت کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ میں اس کتاب سے قمر جمیل کے فن و شخصیت پر لکھے گئے مضامین کے کچھ اقتباسات آپ کی سماعتوں کی نذر کرنا چاہوں گا۔

شمس الرحمٰن  فاروقی  قمر جمیل کی کتاب ’’چہار خواب‘‘ کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کرتے  ہیں:

’’قمر جمیل کی غزل مختلف ذائقے اور لہجے کی غزل ہے لیکن ان کے ذوق میں اتنی وسعت ہے کہ وہ غزل کے ہر رنگ کو سمجھ سکتے ہیں اور اس سے لُطف اندوز ہو سکتے ہیں۔

قمر جمیل کی غزل پر محزونی اور تھوڑی بہت گم کردہ راہی کی فضا حاوی ہے۔ یہ ویسی فضا ہے کہ اگر شاعر ذرا کم زور شخصیت کا حامل ہو تو غزل پر بہت جلد خود ترحمی کی نیم گرم بارش ہونے لگتی ہے۔ قمر جمیل کے یہاں جس شخصیت (یعنی غزل کے متکلم) سے ہم دو چار ہوتے ہیں وہ محزوں اور واماندہ راہ تو ہے، لیکن بے وقار اور بے تکلمیں نہیں۔ اس میں کچھ عارفانہ سا طنطنہ بھی ہے۔ ملاحظہ ہو:

دیواروں پر دیے جلانا پھول کھلانا باغوں میں

اس بستی میں سب کچھ کرنا ہم سے محبت مت کرنا

اجنبی ملکوں اجنبی لوگوں میں آ کر معلوم ہوا

سہنا سارے ظلم وطن میں لیکن ہجرت مت کرنا‘‘

’’چہار خواب‘‘ پر ہی تبصرہ فرماتے ہوئے شمس الرحمٰن فاروقی نے ایک اور جگہ قمر جمیل کی شاعری کے بارے میں اپنی تشنگی کا اظہار کچھ اس طرح سے کیا ہے:

’’غالب نے حالی سے کہا تھا کہ تم اگر شعر نہ کہو گے تو اپنی طبیعت پر ظلم کرو گے۔ قمر جمیل سے بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ جنابِ والی گنجِ گہر کے دروازے کو ذرا دیر تک کھلا رکھیں، دس سال کی مدت میں بمشکل مُٹھی بھر گہر نکالے۔ بڑا ظلم کیا۔ اب تک تو چہار خواب کی ضخامت کے دو اور مجموعے آ جانا چاہیے تھے۔ اتنی کنجوسی اچھی نہیں۔‘‘

یہاں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ شمس الرحمٰن فاروقی کا ’’چہار خواب‘‘ پر یہ مضمون قمر جمیل صاحب کی زندگی میں ہی  15 جون 1995ء  کو لکھا گیا تھا۔

محترم جاذب قریشی نے قمر جمیل صاحب کے فن و شخصیت پر  اپنے تاثراتی مضمون بعنوان ’’آوازوں کے بادبان‘‘ میں یُوں لکھا ہے:

’’قمر جمیل کی گفتگو نے نوجوانوں کو تو متاثر کیا ہی ہے جدیدیت اور نثری نظم کے حوالے سے رئیس فروغ اور رؔسا چغتائی  جیسے سن رسیدہ لوگ بھی زیرِاثر آئے ہیں۔ قمر جمیل کی شخصیت میں ایک سچی معصومیت اور ایک خوابی ذہانت کا طلسم موجود ہے۔

جن لوگوں نے قمر جمیل کو گفتگو کرتے ہوئے دیکھا ہے وہ مجھ سے اختلاف نہیں کریں گے کہ ان کو بولتے ہوئے دیکھ کر  ایسا لگتا ہے کہ یونانی اساطیری کردار کی کوئی زخمی روح ان کی آواز میں اتر آئی ہے۔ یہاں میں ان کی گفتگو کا ایک مختصر اقتباس پیش کرنا چاہتا ہوں۔ رئیس فروغ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’قمر جمیل کا لیکچر جاری ہے موسیقی کا گھوڑا جس پر اردو شاعری سوار تھی اب ایسی انرجی میں تبدیل ہو رہا ہے جو ایک نئے آہنگ میں ظاہر  ہونے کو ہے۔

یہ نیا آہنگ ابھی مستقبل کے بطن میں ہے۔ نرم و نازک غزل کی پالکی میں آپ کب تک بیٹھے رہیں گے اپ کی غزل کی پالکی تو آپ ہی کے گھر کے چکر لگا رہی ہے بے چارے قاری کے گھر کب اُترے گی۔‘‘

قمر جمیل اردو ادب میں جدید رجحانات متعارف کرانے کے لیے مشہور ہوئے اور انھیں نثری شاعری کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ پاکستان کے معروف نقادوں، ادیبوں، شاعروں اور ایڈیٹروں میں سے تھے۔

وہ طویل عرصے تک ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے۔ قمر جمیل نے کراچی سے نثری شاعری کی تحریک شروع کی تو ادیب اور شاعر اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور ان کی تحریک نے تخلیق کے میدان میں ایک نئے رجحان کو جنم دیا۔

قمر جمیل کو اردو کے علاوہ انگریزی ادب کا شوق بھی تھا۔ انہوں نے عالمی ادب کا مطالعہ کیا اور نئے خیالات اور رجحانات پر گہری نظر رکھی۔ قمر جمیل نے دریافت کے نام سے ایک ادبی جریدہ بھی نکالا۔ ادبی دُنیا کی اس نابغۂ روزگار ہستی کا انتقال  27 اگست 2000 ء کو کراچی میں ہوا اور عزیز آباد قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ آخر میں  قمر جمیل کی دو چنیدہ غزلیں قارئین کی نذر کرتا ہوں:

سایہ نہیں ہے دور تک سائے میں آئیں کس طرح

ہم آ گئے ہیں کس طرف تم کو بتائیں کس طرح

یہ پھول پتے چاندنی یہ صورتیں من موہنی

ایسے میں اپنی جانکنی ان سے چھپائیں کس طرح

عالم بہاراں کا سہی منظر گلستاں کا سہی

بستی بیاباں کی سہی دامن بچائیں کس طرح

جس پھول کی ہر پنکھڑی ہوتی ہے موتی کی لڑی

اس پھول کی خاطر کبھی آنسو بہائیں کس طرح

۔۔۔۔۔۔

کس سفر میں ہیں کہ اب تک راستے نادیدہ ہیں

آسماں پہ شمعیں روشن ہیں مگر خوابیدہ ہیں

کتنی نم ہے آنسوؤں سے یہ صنم خانے کی خاک

یہ طواف گل کے لمحے کتنے آتش دیدہ ہیں

یہ گلستاں ہے کہ چلتے ہیں تمناؤں کے خواب

یہ ہوا ہے یا بیاباں کے قدم لرزیدہ ہیں

ایک بستی عشق کی آباد ہے دل کے قریب

لیکن اس بستی کے رستے کس قدر پیچیدہ ہیں

آج بھی ہر پھول میں بوئے وفا آوارہ ہے

آج بھی ہر زخم میں تیرے کرم پوشیدہ ہیں

آج گھر کے آئینے میں صبح سے اک شخص ہے

اور کھڑکی میں ستارے شام سے پیچیدہ ہیں

رہ گزر کہتی ہے جاگ اے ماہتاب شام یار

ہم سر بازار چلتے ہیں مگر خوابیدہ ہیں

آئینے میں کس کی آنکھیں دیکھتا ہوں میں جمیلؔ

دو کنول ہیں بیچ پانی میں مگر نم دیدہ ہیں

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔