عرس اور میلے ٹھیلے

نصرت جاوید  بدھ 23 اپريل 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

ہوسکتا ہے ان دنوں میں زود رنج اور غیر ضروری طور پر حساس ہوچکا ہوں۔ مگر کچھ واقعات ایسے ہوجاتے ہیں جن کا صحافتی Treatmentخوش گوار موڈ میں بھی دیکھوں تو خون کھول جاتا ہے۔ 21اپریل کو اقبال کی برسی تھی۔ ان کا مزار اپنے صحن کے اعتبار سے دُنیا کی سب سے بڑی مسجد کی سیڑھیوں کے بائیں ہاتھ لاہورمیں بنایا گیا ہے۔ تخت لاہور پر ان دنوں شہباز شریف صاحب براجمان ہیں۔

انھیں گڈگورننس کی بھرپور علامت کے طور پر ان کے بے تحاشا مداحین بڑی شدت کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش میں دن رات مصروف رہتے ہیں۔ تعلق شہباز صاحب کا اس پاکستان مسلم لیگ سے ہے جو خود کو قائد اعظم اور نظریہ پاکستان کا اصلی تے وڈی وارث کے طور پر پیش کرتی ہے۔ اسی جماعت کے بہت سارے مفکرین ہمیں دن رات یہ ’’خبر‘‘ بھی دیتے رہتے ہیں کہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے دو قومی نظریہ کی بنیاد پر بنائے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کا تصور اقبال نے پہلی بار اپنے خطبات کے ذریعے پھیلایا۔ قائد اعظم نے ان کے خواب کو بالآخر حقیقت بنا دیا۔

یہ ساری باتیں جو میں نے آپ کو یاد دلائی ہیں ذرا ذہن میں رکھیے اور آپ کے گھر میں اگر اُردو اخبار یا اخبارات آتے ہیں تو منگل کی صبح کا شمارہ ڈھونڈ لیجیے۔ اخبار اٹھاتے ہی نہیں مگر تھوڑی دیر کے بعد شاید آپ کی نظر اس تصویر پر پڑ جائے جہاں اقبال کے مزار کو اس کی برسی کے دن ’’سیکیورٹی‘‘ کی وجہ سے بند ہوا دکھایا گیا ہے۔ یہ خبر دیکھنے کے بعد ہمارا خون کیوں نہ دماغ کی رگوں تک تیزی کے ساتھ پہنچ کر وہاں جم سا جائے۔

چند ہی روز پہلے اس کالم میں انتہائی دیانت داری سے یہ اعتراف کیا تھا کہ میری نظر میں اقبال بنیادی طور پر ایک بے پناہ شاعر ہے۔ ان کے ہنر کی آفاقیت کی چند مثالیں بھی آپ کے گوش گزار کی تھیں۔ اقبال کی شاعرانہ عظمت کو پوری طرح محسوس کرنے کے باوجود میں نے اس کی کلیات سے اپنی پسند کے اشعار ڈھونڈ کر آپ کے ذہنوں پر کوئی نظریہ کبھی مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی۔ مگر ہمارے ہی ملک میں اقبال کے بے پناہ شارحین اور بلندآہنگ مجاور پائے جاتے ہیں۔ میری بڑی خواہش تھی کہ ایسے شارحین اور مجاوروں کا ایک گروہ اقبال کے مزار پر ان کی برسی کے روز لگے تالے کو اسی شدت سے محسوس کرتا جو میں نے محسوس کی ہے۔

زیادہ بہتر تو یہ تھا کہ اگر حکومت پنجاب کو ’’حساس اداروں‘‘ کی مدد سے ایک مستند خبر ملی کہ اقبال کے مزار کو ان کی برسی کے روز دہشت گردی کا نشانہ بنانے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں تو ’’گڈگورننس کی علامت‘‘ حکومت پنجاب کے تمام تر وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اس امرکو یقینی بناتے کہ اقبال کی برسی کے روز کسی تخریب کار کو اس کے مزار کے قریب پھڑکنے بھی نہیں دیا جائے گا۔ سیکیورٹی کا مناسب بندوبست کرنے کے بعد شہباز صاحب اپنے وزیروں اور افسروں کے ہمراہ نہیں بلکہ قائد اعظم اور نظریہ پاکستان کی اصلی تے وڈی وارث بنی پاکستان مسلم لیگ کے ایک بڑے ہجوم کے ساتھ اقبال کے مزار پر حاضری دیتے۔

پوری دنیا کو پیغام مل جاتا کہ مفکرِ پاکستان کے اصلی تے وڈے وارث بنے لوگوں میں کم از کم اتنی لگن اب بھی پائی جاتی ہے وہ اس کی برسی کو بھرپور نہ سہی مناسب انداز میں مناتے ہیں۔ مسئلہ ہمارا مگر یہ ہے کہ اپنی ’’حب الوطنی‘‘ کا اظہار ہم ہذیانی کیفیات میں ٹیلی وژن اسکرینوں پر بیان کرتے ہیں یا ایسے مضامین لکھنے کے ذریعے جن کا مقصد اقبال کو مفکر اور علامہ تو ثابت کرنا ہوتا ہے مگر ایک بھرپور شاعر نہیں۔ گفتار اور کردار کے ’’غازیوں‘‘ کے درمیان فرق کا نوحہ بھی تو اقبال ہی نے لکھا تھا۔ اس کے شارحین اور مجاور اس فرق کو مٹاکیوں نہیں دیتے۔

مسئلہ مگر اقبال کے مزار کی سیکیورٹی کے خدشات کی بنا پر بندش تک محدود نہیں۔ اصل رونا اس بے حسی پر آتا ہے جو افراتفری کے موجودہ ماحول میں ہمارے دلوں میں پائی جانے والی بے بسی کا خوفناک حد تک متبادل بن چکی ہے۔ بری امام کا عرس 1960ء کی دہائی میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دارالخلافہ بنائے گئے اسلام آباد میں صدیوں سے بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا تھا۔ دوردراز کے قصبوں اور شہروں سے لوگ ڈالیاں لیے اس جنگل میں آکر اسے منگل بنادیتے۔ پھریہ مزار تخریب کاریوں کا نشانہ بنا اور پوٹھوہار کو ایک شاندار ثقافتی روایت سے محروم کردیا گیا۔ میرا شہر لاہور ہجویر سے آئے داتا کی نگری بھی کہلاتا ہے۔ ’’سیکیورٹی‘‘ کے خدشات یونہی لاحق رہے تو میرے منہ میں خاک کبھی داتا کا عرس بھی روکا جاسکتا ہے۔

مادھولال حسین کا میلہ چراغاں خدانخواستہ برقرار نہ رہا تو ہماری آنے والی نسلوں کو یاد کیوں رہے گا کہ صوفی دُنیا تیاگ کر غاروں میں پناہ گزین نہیں ہوا کرتے۔ کچھ شاہ حسین جیسے دبنگ ملامتی بھی ہوا کرتے ہیں جو گفتار کے غازیوں کی مسلط کردہ منافقت کو سرخ لباس پہن کر دھمال ڈالتے ہوئے پاش پاش کردیتے ہیں۔’’معصوم جانوں‘‘ کو بچانے کے نام پر لاہور کو ہم کئی برسوں سے بسنت پالا اڑنت والے بہاریہ تہوار سے محروم کرچکے ہیں۔ برسیاں، عرس اور میلے ٹھیلے باقی نہ رہیں تو صرف ہذیان ہی باقی رہ جاتا ہے۔ اس کالم کو اٹھاکر زمین پر پٹخ ڈالیے اور ریموٹ اٹھائیے اور گفتار کے بے تحاشہ غازیوں کے لسانی کمالات سے اپنا خون گرمائیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔