نفسیاتی علاج کیا ہے

بہت سے غریب بھی نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہیں لیکن ان کو علم ہی نہیں کہ یہ نفسیاتی بیماریاں ہیں


بہت سے غریب بھی نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہیں لیکن ان کو علم ہی نہیں کہ یہ نفسیاتی بیماریاں ہیں۔ فوٹو : فائل

جسمانی بیماریوں کی طرح نفسیاتی بیماریاں بھی عام ہیں۔ ایک پرانے سروے کے مطابق تقریباً ہر چوتھے فرد کو نفسیاتی مدد کی ضرورت ہے۔ مزید براں 50 فیصد سے 80 فیصد جسمانی بیماریوں کی وجہ بھی نفسیاتی ہوتی ہے۔

پہلے خیال تھا کہ نفسیاتی بیماریوں کا شکار صرف خوشحال لوگ ہوتے ہیں۔ اب پتہ چلا ہے کہ بہت سے غریب بھی نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہیں لیکن ان کو علم ہی نہیں کہ یہ نفسیاتی بیماریاں ہیں۔ وہ ان کو جادو اور جن بھوت کا اثر سمجھتے ہیں۔ وہ ماہر نفسیات سے اپنی نفسیاتی بیماریوں کا علاج بھی نہیں کراسکتے کیونکہ یہ ایک نسبتاًمہنگا علاج ہے۔ ایک سے زیادہ سیشن ہوں تو فیس افورڈ کرنا عام آدمی کے لئے مشکل ہوجاتا ہے۔

پاکستان آج کل شدید مہنگائی اور سیاسی افراتفری کا شکار ہے۔ جس کی وجہ سے تقریباً ہر پاکستانی ذہنی دباؤ، ٹینشن، خوف اور ذہنی انتشار کا شکار ہے اور ڈپریشن اور انگزائٹی عام ہے۔ لوگ خودکشی کر رہے ہیں اس صورتحال کے پیش نظر اہل پاکستان کو نفسیاتی مدد کی زیادہ ضرورت ہے۔ نفسیاتی بیماریوں کے دو معروف علاج ہیں۔

-1 میڈیسن سے علاج -2 نفسیاتی علاج

میڈیسن شدید ذہنی بیماریوں مثلا شیزوفرینیا وغیرہ کے لئے بہت موثر ہے۔ ایسے مریضوں کے لئے میڈیسن خدا کی طرف سے ایک عظیم تحفہ ہے۔ ایسی بیماریوں کے علاج کے لئے نفسیاتی علاج کا کردار زیادہ نہیں لیکن عام نفسیاتی بیماریوں مثلا انگزائٹی اور ڈپریشن وغیرہ کے لیے میڈیسن کا کردار زیادہ اہم نہیں کیونکہ -1 میڈیسن کا اثر دیر سے شروع ہوتا ہے۔ -2 میڈیسن کے نقصانات بھی ہیں۔ -3 میڈیسن لمبا عرصہ کھانی پڑتی ہے۔ -4 مریض اسے چھوڑ نہیں سکتا۔ نفسیاتی مریض 20,20 سال سے میڈیسن کھارہے ہیں مگر جونہی وہ دوائی کو چھوڑتے ہیں بیماری پھر آجاتی ہے اور عموماً پہلے سے شدید ہوتی ہے۔

نفسیاتی علاج کے تقریباً 500 کے لگ بھگ معروف طریقے ہیں۔ ان میں سب سے مشہور تحلیل نفسی ہے۔ یہ معروف ماہر نفسیات فرائڈ کی تخلیق ہے' تحلیل نفسی نہ صرف زیادہ کامیاب طریقہ علاج نہیں بلکہ بہت طویل بھی ہے۔ اس کی کامیابی کی شرح امریکہ جیسے ملک میں جہاں اول درجے کے ماہرین موجود ہیں، صرف 38 فیصد ہے جبکہ سیشن کی اوسط تعداد 600 ہے۔ لگ بھگ دو سال، امریکہ میں میرے ایک استاد فرمایا کرتے تھے دوسال میں تو بہت سے لوگ بغیر علاج کے ٹھیک ہوجاتے ہیں۔

آج کل ہپناٹزم سے علاج کا طریقہ بھی بہت معروف ہے۔یہ ایک کامیاب طریقہ علاج ہے۔ اس کی کامیابی کی شرح 93 فیصد اور سیشن کی اوسط تعداد 12 ہے اس کا دائرہ کار بھی بہت وسیع ہے۔

CBT اس وقت ساری دنیا میں استعمال ہورہا ہے۔ پاکستانی ماہرین نفسیات بھی اسی طریقہ سے آگاہ ہیں۔ ہماری یونیورسٹیوں میں یہی طریقہ سکھایا جاتا ہے۔ پاکستانی ماہرین نفسیاتی علاج کے لئے اسی طریقہ کو استعمال کرتے ہیں۔ اس کی کامیابی کی شرح 80 فیصد ہے اور سیشن کی اوسط تعداد 5 سے 20 ہے جوکہ زیادہ ہے۔ ایک عام پاکستانی کے لئے 20 سیشن کی فیس ادا کرنا مشکل ہے۔

میں نفسیاتی علاج کے وقت کو کم کرنا چاہ رہا تھا تاکہ لوگوں کا علاج جلد ہوسکے۔ اس کے لئے میں نے سب سے پہلے ہپناٹزم سے علاج کا پہلا کلینک 1989ء میں لاہور میں شروع کیا۔ یہ پاکستان میں ہپناٹزم سے علاج کا پہلا کلینک تھا۔ اس کی کامیابی کی شرح 93 فیصد اور سیشن کی اوسط تعداد 12 ہے۔

میں سیشن کی تعداد مزید کم کرنا چاہ رہا تھا۔ خدا نے میری خصوصی مدد فرمائی اور میں ''مختصر نفسیاتی علاج'' (Brief Psychotherapy) بنانے میں کامیاب ہوگیا۔ اس کی کامیابی کی شرح 98 فیصد اور سیشن کی اوسط تعداد 1 تا 6 ہے۔ ہمارے بہت مریض اس تھیراپی سے صرف ایک سیشن میں ٹھیک ہوگئے۔ مختصر نفسیاتی علاج کا دائرہ کار بھی بہت وسیع ہے۔

نفسیاتی مسائل کے علاوہ شخصیت کے مسائل، تعلیمی مسائل، شادی کے مسائل اور ترک عادت کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ 50 سے 80 فیصد جسمانی بیماریوں کی وجہ بھی نفسیاتی ہوتی ہے۔ ان کے علاج کے لیے بھی ''مختصر نفسیاتی علاج'' بہت موثر ہے۔ ہم نے اس تھراپی کو حکومت کی درخواست پر مجرموں کی تلاش میں استعمال کیا۔

کاش حکومت Brief Psychotherapy کی طرف توجہ دے اور تعلیمی اداروں کے نفسیاتی شعبوں میں CBT کے علاوہ Brief Psychotherapy کو بھی سکھایا جائے۔ اس سے بے شمار ایم اے نفسیات طلبہ کو روزگار ملے گا اور عوام نفسیاتی بیماریوں سے جلد چھٹکارا حاصل کرسکیں گے۔

نفسیاتی علاج کی سہولت چند بڑے شہروں تک محدود ہے۔ زیادہ تر وہاں بھی سکائٹرسٹ ہی لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ جہاں ایک سکائٹرسٹ لوگوں کی مدد کرتا ہے وہاں کم از کم 5 ماہرین نفسیات کی ضرورت ہے کیونکہ سائیکالوجسٹ ایک گھنٹہ میں ایک مریض دیکھتا ہے جبکہ سکائٹرسٹ ایک گھنٹہ میں تقریباً 6 مریض تو دیکھ لیتا ہے۔

(پروفیسر ارشد جاوید، معروف ماہر نفسیات ہیں اور لاہور میں پریکٹس کرتے ہیں)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں