نواز شریف کی حکومت اور امریکا

نصرت جاوید  جمعـء 25 اپريل 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

نواز شریف سعودی حکمرانوں کے بڑے چہیتے ہوں گے۔ مگر مستند اطلاعات کی بنیاد پر جو میں نے بڑی عرق ریزی سے بطور رپورٹر جمع کی تھیں میں یہ دعویٰ کر رہا ہوں کہ جنرل مشرف کی قید سے رہائی کے بعد انھیں کسی غیر ملک پہنچانے کے منصوبے کی اصل پیش قدمی صدر کلنٹن کی طرف سے ہوئی تھی۔ کارگل سے صورتحال بگڑی تو نواز شریف 4 جولائی کے دن، جو امریکا کا یوم آزادی ہوا کرتا ہے، واشنگٹن پہنچ گئے۔ امریکی صدر نے پاک بھارت جنگ رکوانے کے لیے اپنی کوششیں شروع کرنے سے پہلے جو شرائط پاکستان کے وزیراعظم کے سامنے رکھیں وہ انھیں تسلیم کرنے سے ہچکچاتے رہے۔ انھیں خدشہ تھا کہ پاکستان کی عسکری قیادت ان شرائط کو ہضم نہیں کر پائے گی اور معاملہ ان کی حکومت کو برطرف کرنے تک پہنچ سکتا ہے۔

ایسا ہوا تو شاید ان کی جان بھی چلی جائے۔ نواز شریف نے اپنے خدشات کو بار بار دہرایا تو کلنٹن نے انھیں یقین دلایا کہ مصیبت کی گھڑی میں وہ ہر صورت ان کے تحفظ کے لیے اپنا پورا اثر و رسوخ استعمال کرینگے۔ نواز شریف نے اس وعدے پر اعتبار کرتے ہوئے ان کی پیش کردہ شرائط مان لیں۔ کارگل کی چوٹیوں پر امن قائم ہو گیا مگر اس کے بعد نواز شریف حکومت برقرار نہ رہ سکی۔ وزیر ا عظم کو برطرف کرنے کے بعد ان پر طیارے کے اغواء کی کوشش والا مقدمہ چلایا گیا اور عدالت نے انھیں عمر قید کی سزا سنا دی۔ دریں اثناء کلنٹن نومبر 2000ء میں اپنی دوسری معیادِ صدارت مکمل کرنے والے تھے۔ وائٹ ہائوس چھوڑنے سے پہلے انھوں نے نواز شریف کی گلوخلاصی میں مدد فراہم کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔

تاریخ بیان کرنا شروع ہو گیا ہوں تو مجھے یہ اطلاع بھی فراہم کر لینے دیں کہ نواز شریف کو معافی دینے کی بات جنرل مشرف کے ساتھ سب سے پہلے سعودی حکمرانوں نے نہیں متحدہ عرب امارات کے مرحوم صدر شیخ زاید نے کی تھی۔ اقتدار پر پوری طرح ٹک جانے کے بعد جنرل مشرف جب ان سے پہلی بار ملے تو شیخ زاید نے فتح مکہ کے بعد ہمارے نبی پاکؐ کی طرف سے اپنے دشمنوں کے لیے عام معافی کا تفصیلی ذکر شروع کر دیا۔ مشرف اس ملاقات تک سیدھے سادے کمانڈو فوجی تھے۔ ملاقات ختم ہوئی تو اپنے معاونین سے شیخ زاید کی زبان سے فتح مکہ کے بعد ہونے والے واقعات کے طویل ذکر کی وجوہات جاننا چاہیں۔

انھیں کوئی اطمینان بخش جواب نہ ملا۔ بالآخر ایک اور نسبتاََ غیر تکلفانہ ملاقات میں شیخ زاید ہی کے ایک معتمد نے انھیں سمجھایا کہ فتح مکہ کا ذکر کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات کے صدر دراصل نواز شریف کو معاف کر دینے کا مشورہ دے رہے تھے۔ جنرل مشرف کو یہ توجیہہ ہر گز پسند نہیں آئی۔ شیخ زاید کی یہ گہری گفتگو جب مدد نہ کر پائی تو کلنٹن نے سعودیوں سے رجوع کیا۔ اسے خوب علم تھا کہ ایٹمی دھماکے کر دینے کے بعد پاکستان سعودی عرب کے دیے تیل کی بدولت اپنی معیشت کو کافی حد تک بچائے ہوئے ہے اور تیل کا یہی ’’ہتھیار‘‘ بالآخر نواز شریف کی مدد کو آیا۔

کلنٹن اور سعودی عرب کا تذکرہ میں نے اس لیے چھیڑا کہ حال ہی میں جب سعودی عرب نے خاموشی سے پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالر کا ’’تحفہ‘‘ دے ڈالا تو میں نے فرض کر لیا کہ شاید واشنگٹن نے سعودی عرب کو یہ ’’تحفہ‘‘ بھجوانے کا مشورہ دیا ہو گا تا کہ پاکستان میں جمہوری حکومت کو مستحکم وغیرہ کیا جا سکے۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران لیکن میری چند سفارت کاروں سے ذرا تفصیلی بات چیت ہوئی تو حیران کن انکشاف یہ ہوا کہ پاکستان کے معاشی معاملات پر کڑی نظر رکھنے والے امریکی حکام اس ’’تحفے‘‘سے ہرگز خوش نہیں ہیں۔ ان کو بلکہ شدید فکر اس بات پر ہو رہی ہے کہ اپنے خزانے میں ڈیڑھ ارب ڈالر کے بغیر کسی تردد کے آ جانے کے بعد نواز حکومت ٹیکس نیٹ کو وسیع تر کرنے اور توانائی کے شعبوں میں Structural Reforms میں وہ مستعدی نہیں دکھا پائے گی جس کا وعدہ اس نے IMF سے کر رکھا ہے۔

’’معاشی اصلاحات‘‘ کا ذکر جب غیر ملکی امداد فراہم کرنے والے طاقت ور ممالک کرنا شروع ہو جائیں تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ ہماری معیشت کو خلوصِ دل سے بہتر ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ امریکا جیسی سپر طاقت کے ساتھ ہمارے رشتے بنیادی طور پر ان کے Geo-Strategic مفادات سے جڑے ہوتے ہیں۔ ان ہی مفادات کی بدولت جنرل ضیاء کے گیارہ سالوں میں ’’معاشی اصلاحات‘‘ پر کبھی اتنا زور نہیں ڈالا گیا۔ مرحوم ڈاکٹر محبوب الحق نے اس ضمن میں پَر پُرزے نکالنے کی کوشش کی تو جنرل ضیاء کے اصل بیوروکریٹ غلام اسحاق خان نے بطور وزیر خزانہ ان کی راہ میں روڑے اٹکائے۔ محمد خان جونیجو مرحوم نے بھی ڈاکٹر محبوب الحق کو وزارتِ خزانہ سے نکال کر وہاں یاسین وٹوکو بٹھا دیا اور وٹو صاحب نے ’’معاشی اصلاحات‘‘ کے بجائے سرکاری معیشت کو اسی انداز سے چلایا جو سیاست دان اپنے ’’ووٹوں کو پکا کرنے‘‘ والے مقصد کے تحت اختیار کیا کرتے ہیں۔

’’افغان جہاد‘‘ کی بدولت سوویت یونین کو افغانستان سے نکال دینے کے بعد ہی امریکا اور یورپ کے بڑے ممالک کو پاکستان میں ’’معاشی اصلاحات‘‘ کی ضرورت یاد آگئی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے وی اے جعفری جیسے ’’ٹیکنوکریٹس‘‘ کے ذریعے انھیں مطمئن کرنا چاہا مگر بات نہ بنی۔ نواز شریف صاحب بھی اپنے پہلے دور میں ’’معاشی اصلاحات‘‘کے بجائے موٹروے بنانے اور پیلی ٹیکسیاں بانٹنے میں مصروف ہو گئے۔ دوسرے دورِ حکومت میں انھوں نے ایٹمی دھماکا کر دیا اور اس دھماکے کے بعد پاکستان دنیا کا وہ ملک بھی کہلایا جس کا نام نہاد عالمی برادری نے عملاََ بائیکاٹ کر رکھا تھا۔

مگر یہی ’’عالمی برادری‘‘ 9/11 کے بعد ’’معاشی اصلاحات‘‘ کو بھول بھال کر جنرل مشرف کی حکومت کی ناز برداریوں میں مصروف ہو گئی۔2007ء کے بعد سے مگر ’’معاشی اصلاحات‘‘ پر دوبارہ شور مچنا شروع ہو گیا۔ پیپلز پارٹی اس ضمن میں کوئی جلوہ نہ دکھا پائی۔ کیری لوگر بل، ریمنڈ ڈیوس، ایبٹ آباد آپریشن اور پھر سلالہ کے واقعات کے بعد تو امریکا ہمیں Coalition Support Fund کی رقوم ادا کرنے میں بھی بے تحاشہ دیر لگانا شروع ہو گیا اور معاشی میدان میں کوئی استحکام نہ پیدا کرنے کی وجہ سے 11 مئی 2013ء کے دن پیپلز پارٹی کو شدید دھچکوں کا سامنا کرنا پڑا۔

امریکا نے نواز شریف کی تیسری حکومت کو فی الحال Under Observation رکھا ہوا ہے۔ ہمارا ’’موڈ‘‘ بنانے کے لیے ابھی وہ زیادہ ’’نوٹ‘‘ دکھانے پر آمادہ نہیں۔ ’’معاشی اصلاحات‘‘ کے نام پر غیر ملکی قوتوں کو فیصلہ سازی میں موثر کردار کی گنجائش ابھی نمایاں ہو رہی تھی کہ سعودی عرب سے ڈیڑھ ارب ڈالر کا ’’تحفہ‘‘ مل گیا۔ امریکی فیصلہ سازوں کے دلوں میں اس ضمن میں پایا جانے والا غصہ اب میری سمجھ میں آ چکا ہے اور میں اس کے اظہار کے چند نمونے بھی ٹی وی اسکرینوں پر ان دنوں دیکھ رہا ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔