ایک بہتر دنیا کی امید

آفتاب احمد خانزادہ  جمعـء 25 اپريل 2014

1818 میں واٹرلو کی لڑائی لڑی جا چکی تھی انقلاب مرچکا تھا اورفرزند انقلاب نپولین سینٹ ہیلینا کے دور افتادہ جزیرے کی ایک چٹان  پر اپنی زندگی کے دن  پورے کر رہا تھا۔ گوئٹے نے کہا تھا ’’میں خدا کا شکرادا کرتا ہوں کہ میرے شباب کا زمانہ اس دنیا میں نہیں گذرا جو ہر طرح ختم ہوچکی ہے ۔‘‘ تمام یورپ ویران ہو چکا تھا ،لاکھوں جوان موت کے گھاٹ اتر چکے تھے، لاکھوں ایکڑ زمین غیر مزروعہ پڑی تھی یا غارت ہوچکی تھی۔ دیہاتوں میں غلا ظت اور ابتر ی پھیلی ہوئی تھی زمین دار قلاش ہوچکے تھے شہروں میں بھی لوگ مضطرب اور پریشان حال تھے جن ملکوں سے نپولین اور اس کے دشمنوں کی فوجیں گزری تھیں وہاں ہر طرف غارت گری کے آثار نمایاں تھے، ماسکو راکھ کا ڈھیر بن چکا تھا ۔انگلستان کو فتح حاصل ہوئی تھی لیکن گند م کی قیمت اتنی گری کہ زمین دار تباہ ہوگئے۔

ادھر کارخانہ داری کا نظام جو روز افزوں ترقی کر رہا تھا وہ بھی قابو سے باہر ہو گیا۔ سپاہیوں کو برطرف کیا گیا تو بے روزگاری بڑھ گئی۔ کارلائل لکھتا ہے’’ میں نے اپنے والد کو یہ کہتے سنا ہے کہ جن دنوں جئی کا آٹا دس شلنگ فی سٹون بکتا تھا مزدور بیچارے کسی چشمے کے کنارے ایک دوسرے سے ہٹ کر جا بیٹھتے تھے اور صرف پانی پی کر گذارا کر لیتے تھے ان کی کو شش یہ ہوتی تھی کہ ان کی مفلسی دوسروں پر ظاہر نہ ہو ‘‘۔ زندگی ذلت  کے پست ترین مقام تک جا پہنچی تھی ۔ بد نصیبی اور وحشت کے ان تاریک دنوں میں اکثر غریب لوگوں کو مذہبی امیدیں سہارا دیتی تھیں لیکن اونچے طبقے کے اکثر افراد کا یہ عالم تھا کہ آخرت پر سے ان کا اعتقاد ہی اٹھ چکا تھا انھیںتو یہ نظر آتا تھا کہ دنیا تباہ ہوچکی ہے۔ اس زمانے میں اس کرہ زمین کی جو درد ناک حالت تھی اس ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس بات پر ایمان لانا دشوار تھا کہ تمام اختیار دراصل خدا کے ہاتھ میں ہے، موت یورپ کی ساٹھ فیصد آبادی کو ہڑپ کر چکی تھی ۔لیکن 1850 تک یورپ کی توانائی پھر زندہ ہوئی زندگی اور ادب کی تحریک  نے دوبارہ جنم لیا۔

ایجادات نے صنعتی فتوحات کی بنیاد ڈالی ، ریل گاڑیاں ، دخانی کشتیاں قوموں اور تہذیبوں کو اشیاء اور افکار کے مبادلہ سے متحد کرنے لگیں، یہ ہی زمانہ جدید زمانے کی انقلابی فتوحات کے آغاز کا دور ہے جس میں ہیو گو نے 1830 میں ہرنائی لکھا ،  ہالنے اور ہیوگو شعر و سخن اورسینٹ بیویو اورٹین تنقید نگاری کی تکمیل میں مصروف تھے۔ ٹینی سن اور برائوننگ نے اپنے پہلے دیوان شایع کیے، ڈکنز اورتھیکر ے کی رقابت کا آغاز ہوا، تر خیف ، دوستو وسکی اور ٹالسٹائی روس میں پھل پھول رہے تھے، ڈیلا کر دا مصوری میں قدامت پرستی کے خلاف اپنی پہلی جنگیں لڑرہا تھا ، ٹرنر انگلستان کو آفتاب کی شعاعوں سے لبریز کر رہا تھا، ڈارون جدید سائنس کے اہم ترین معرکہ کے لیے مواد جمع کر رہا تھا اسپنسر ایک نیا فلسفہ تعمیر کرنے میں مصروف تھا۔ رینان نے ایک بہتردنیا کی امید میں اپنی کتاب سائنس کا مستقبل لکھی مختصر یہ کہ ہر طرف احیاء کا دور دورہ تھا۔

جنگ کے بعد کبیر لنگ کے فلسفے نے جو مہاتما بدھ اور کنفیوش کی صدائے بازگشت تھا، یورپ کو یقین دلایا کہ پرانی تہذیب ختم ہو رہی ہے۔ اس زمانے میں عظیم پروفیسر فلنڈز پیٹری نے یہ اعلان کیا کہ ایک نئی تہذیب کی تخلیق کے لیے لازمی ہے کہ مختلف نسلیں آپس میں مل جائیں، اس کا خیال تھا کہ تہذیب 1800 میں اوج کمال پر پہنچ چکی تھی اور انقلاب فرانس کے بعد اس کا زوال شروع ہوگیا تھا۔ چار یا پانچ صدیوں میں ایک نئے نسلی امتزاج سے ایک نئی نسل پیدا ہوگی جو ایک نئی تہذیب کی داغ بیل رکھے گی ۔ تہذیب ہمیشہ تین منزلوں سے گذرتی آئی ہے، پہلی منزل وحشت کی تھی جس میں فکر کا گذر نہیں تھا، فقط جذبات تھے دوسری منزل بربریت کی تھی جس میں تخیلی علم نے ہومر اور ڈانٹے اوردیگر عظیم لوگوں کے عہد تخلیق کیے ۔

تیسری منزل تہذیب کی ہے جس  میں سائنس ، قانون اور ریاست کو وہ جنم دیتی ہے ویکو کے خیال کے مطابق بربریت سرداروں کو وجود میں لاتی ہے جو بعد میں رئیس طبقے کی صورت میں منظم ہوجاتے ہیں رئیسوں کے ظلم و ستم انقلاب پیدا کرتے ہیں اور پھر جمہوریت جنم لیتی ہے اور جمہوریت کے انتشار کی بدولت بربریت واپس آجاتی ہے ۔ ڈانٹے نے جب جہنم کی تصویر کھینچنی چاہی تو اس کا مواد ہماری دنیا کی مصیبتوں ہی نے مہیا کیا تھا اور اس نے جہنم کی نہایت اچھی تصویر کھینچی لیکن جب اس نے جنت اور وہاں کی سعادتوں کا نقشہ کھینچنا چاہا تو ناقابل تصور مشکلات میں الجھ کر رہ گیا کیونکہ ہماری دنیا میں کوئی ایسی چیز نہ تھی جو جنت کی تخلیقی تصویر کے لیے آب و رنگ کا کام دے سکتی ۔

لائبنیز ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ دنیا کے شر کا جواز یہ ہے کہ شر سے کبھی کبھی خیر بھی پیدا ہوجاتا ہے ۔ والٹیئر نے لائبنیز کے افکار و تصورات سے متاثر ہو کر کنیڈیڈ لکھی تھی ۔ خیر ہمیشہ ارادہ سے پیدا ہوتا ہے جسم بھی ارادے ہی تخلیق کی ہے۔ زندہ رہنے کی آرزو اور تبدیلی کا جذبہ ارادے ہی کا دوسرا نام ہے، عقل تھک جاتی ہے مگر ارادہ نہیں تھکتا ،عقل نیند کی محتاج ہے لیکن ارادہ نیند میں بھی بر سر کار رہتا ہے ۔ طاقت ارادے کی ایک صورت ہے یہ ارادہ ہی تھا جس نے یورپ کو دوبارہ زندہ کیا ۔ ٹیگور نے کہا تھا فکر فکر کو دور کرتی ہے۔ ایک دفعہ نہیں بلکہ ہزاروں مرتبہ یہ ثابت کیا جا چکا ہے اوردنیا اسے قبول کرتی ہے کہ پاکستان تمام مہذب ممالک میں آج کل سب سے زیادہ مفلس ہے ہم اپنے قاتل خود ہی نکلے ہیں۔

پہلے پہل ہم نے اپنے رسم و رواج کو قتل کیا پھر برداشت، رواداری ، محبت و اخوت کے قاتل ٹھہرے، یہ ہی وجہ ہے کہ آج پاکستان پر تعصب ، نفرت، عدم برداشت ، عدم مساوات اور عدم رواداری کا مکمل راج قائم ہے اور دوسری طرف دہشت گردی ، بدامنی، بھوک ، افلاس ، غربت کے ہاتھوں لاکھوں زندہ انسان وقت سے پہلے اپنی اپنی قبروں میں جا کر سو گئے ہیں۔ ہمارا سماج ایسا لٹا پٹا ہے کہ جسے دیکھ کر کپکپی ختم ہی نہیں ہوپاتی ہے لیکن بے حسی کی انتہا تو یہ ہے کہ ہمیں احساس تک نہیں ہے کہ ہمارے اپنے ہاتھوں کیا سے کیا ہو چکا ہے نہ ہم جمہوری سوسائٹی بن سکے اور نہ ہی قانون پسند سوسائٹی ، ہم صرف لا قانونیت کی ایک کالونی بن کے رہ گئے ہیں اور لا قانونیت کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے پاکستان کے بڑے بڑے جاگیردار ، بڑے بڑے سیاست دان ، بیوروکریٹس ، بڑے تاجر  اپنے آپ کو ہر قانون سے مبرا سمجھتے ہیں، بغیر تحقیق کے الزامات کی بوچھاڑ کر دی جاتی ہے ۔ یہ سب کے سب اپنے آپ کو ملک سے بھی بڑی چیز سمجھتے ہیں۔

خوبیاں قربانیوں سے پیدا ہوتی ہے لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے مشکل کشائوں نے قربانیاں دینا نہیں بلکہ لینا سیکھا ہے۔ پاکستان بھی یورپ کی طرح نیا جنم لے سکتا ہے لیکن یہ صرف اس وقت ہوسکتا ہے جب ہم یعنی ملک کے 18 کروڑ انسان ایک ساتھ مل کر نئے پاکستان کے جنم کے لیے جدوجہد کا آغاز کردیں۔ اس پاکستان کے لیے جو استحصال، کرپشن ، لوٹ مار، چور بازاری ، اقربا پروری ، عدم برداشت ، عدم رواداری سے پاک ہو جہاں فکر کی آزادی ہو جہاں وحشت اور بربریت کا  گذر نہ ہو جہاں تہذیب و تمدن کا بول بالا ہو ۔ یہ کام اب ہمیں 18 کروڑ انسانوں کو خود کرنا ہو گا جس طرح یورپ کے لوگوں نے کیا تھا ۔ ظاہر ہے یہ کام کرنے فرشتے تو نہیں آئیں گے ۔ لہذا یہ کام صرف اور صرف ہم ہی کرسکتے ہیں۔ آئیں آج ہی سے ہم اس کام کا آغاز کر دیں ۔ کیونکہ خیر ہمیشہ ارادے سے ہی پیدا ہوتی ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔