- قطری وزیر اعظم اور امیر طالبان کے خفیہ مذاکرات
- انٹر کی داخلہ پالیسی تبدیل، داخلے میرٹ کے بجائے ضلعی بنیادوں پر ہوں گے
- پاکستان جونیئر ایشیا کپ کے فائنل میں پہنچ گیا، بھارت سے مقابلہ ہوگا
- کراچی: 9 مئی کے متاثرین کو نئی موٹرسائیکل لینے کیلیے مقدمہ درج کرانا ہوگا
- دراز قد کیلئے سرجری کرانے کے رجحان میں اضافہ
- حکومت کا پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 8 روپے کمی کا اعلان
- ٹک ٹاک کی بیوٹی ٹِپ نے خاتون کو اسپتال پہنچا دیا
- جن ججز کیخلاف ریفرنسز زیر التوا ہیں وہ میرٹ پر فیصلہ نہیں کرتے، پاکستان بار کونسل
- پیپلزپارٹی کسی کو مائنس کرنے کے حق میں نہیں اور مذاکرات کی حامی ہے، گیلانی
- جہانگیر ترین سے پی ٹی آئی کے 60 سے زائد اراکین اور رہنماؤں کے رابطے
- کچھ لوگوں کی انا اور ضد ملک سے بڑی ہوگئی ہے، چوہدری شجاعت
- واٹس ایپ اسٹیٹس پر اب وائس نوٹ بھی شیئر کیے جاسکیں گے!
- جنوبی پنجاب سے پی ٹی آئی کے سابق اراکین نے پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرلی
- ٹرینوں میں مسافروں کو نشہ آور چیزیں کھلا کر لوٹنے والا ملزم گرفتار
- اسٹیٹ بینک نے کریڈٹ کارڈز کی ادائیگیوں کے لیے ڈالر خریدنے کی اجازت دے دی
- افغانستان میں جنگی جرائم؛ آسٹریلوی فوجیوں کے شراب پینے پر پابندی عائد
- صحت کارڈ کا اجرا: بلوچستان کے شہریوں کو دس لاکھ روپے تک کے مفت علاج کی سہولت ہوگی
- پہاڑی سے پنیر کی لڑھکتی گیند پکڑنے کے مقابلے کا دوبارہ انعقاد
- عمران خان کو فوجی قوانین کے تحت سزا دے کر مثال بنانا چاہیے، سردار تنویرالیاس
- جنگ کا امکان؟ چین اور امریکا کے لڑاکا طیارے آمنے سامنے
دنیا کے 5 خطرناک ترین مقامات پر بنی رہائشی عمارات
![[فائل-فوٹو]](https://c.express.pk/2023/05/2486941-technology-1684776031-483-640x480.jpg)
[فائل-فوٹو]
دنیا میں کئی ایسے مقامات ہیں جہاں سنگین خطرات لاحق ہونے کے باوجود لوگ عمارات تعمیر کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ علاقے قدرتی آفات کا خطرہ رکھتے ہیں۔ اس کی چند مثالیں درجہ ذیل پیش کی جارہی ہیں:
1) معلق خانقاہیں، چین
معلق خانقاہوں کا یہ سلسلہ چین کے شانژی صوبے میں ہینگ شین پہاڑ پر واقع ہے۔ یہ 491 عیسوی میں تعمیر کیے گئے تھے جس کے بعد سے یہ کئی صدیوں بعد بھی اپنی اصل حالت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ کشش ثقل کیخلاف مظاہرہ کرتے ہوئے یہ خانقاہیں 40 کمروں پر مشتمل ہیں جو گزرگاہوں کی بھول بھلیوں کے ذریعے جڑی ہوئی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خانقاہیں صرف ایک مذہب کے لیے نہیں بلکہ تین کنفیوشس ازم، تاؤ ازم اور بدھ مت کے لیے وقف ہیں۔ اس میں 78 بُت اور نقش و نگار ہیں۔
2) کیسٹل فولیٹ ڈی لا روکا، اسپین
کیسٹل فولیٹ ڈی لا روکا کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ایک عام جگہ پر بنا قصبہ تھا لیکن کسی ناقابل یقین طاقت نے اس کے مکانات کو جیسے پہاڑ کے کنارے پر دھکیل دیا ہو۔ یہ شہر ایک ہزار سال سے بھی زیادہ عرصے سے آباد ہے۔ قصبوں میں تنگ گلیاں ہیں جو اب بھی اپنے قرون وسطیٰ کی خصوصیات رکھتی ہیں۔ عمارتوں کا خطرناک مقام اور اس عرصہ دراز میں بنیادوں کی ممکنہ کمزوری بہتوں کے نزدیک خطرے کی گھنٹی ہے۔ لوگوں کا کافی عرصے سے ماننا ہے کہ زلزلے کے معمولی جھٹکے کی دیر ہے اور سب ختم ہوجائیگا لیکن اس کے باوجود یہ قصبہ اب بھی آباد ہے اور اسپین میں سیاحوں کی توجہ کا ایک مقام ہے۔
3) شیڈوکلیف، مشیگین جھیل، شمالی امریکا
20 ویں صدی کے نصف آخر میں ہیری نام کا ایک ممتاز معمار گزرا ہے جس کا تعلق امریکی شہر شکاگو سے تھا۔ ہیری نے اپنے کیریئر میں کئی ایک خوبصورت عمارتیں تعمیر کروائیں لیکن اس کی سب سے متنازع عمارت مشی گن جھیل پر بنا شیڈو کلف مینشن ہے۔ گھر کو بزنس ایگزیکوٹیوز کے چھٹیاں گزارنے کے مقام کے طور پر بنایا گیا تھا۔ سامنے سے دیکھا جائے تو عمارت بہت عام دکھائی دیتی ہے لیکن جب لوگ اس کے کمرے میں داخل ہوتے ہیں تو انہیں احساس ہوتا ہے جیسے کہ وہ شیشے کے ڈبے میں زمین سے ہزاروں فٹ کی بلندی پر لٹکے ہوئے ہوں۔.
4) لشٹینسٹائن قلعہ، جرمنی
لشٹنسٹائن قلعہ (Lichtenstein Castle) کو پریوں کا قلعہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ قلعہ دراصل ایک سابق قلعے کے کھنڈرات پر بنایا گیا تھا جس کی تعمیر 1842 میں مکمل ہوئی۔ اسے قرون وسطی کے انداز میں بنایا گیا ہے۔ عمارت کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ قلعے کی بیرونی دیوار ایک چٹان کے بالکل کنارے پر بنائی گئی ہے۔ عمودی نظارہ دلیر ترین سیاحوں کو بھی پریشان کرنے کے لیے کافی ہے۔ معماروں کا دعویٰ ہے کہ قلعہ مضبوط ہے لیکن بنیادوں میں کسی بھی قسم کی حرکت عمارت کے گرنے کا سبب بن سکتی ہے۔
5) میٹیورا موناسٹریز
کیا آپ اس خانقاہ میں رہنا چاہیں گے؟ اگر ہاں تو ہر روز گھر سے باہر محض چہل قدمی بھی کرنا آپ کیلئے ناممکن ہوگا۔ اسے 14ویں صدی میں تعمیر کیا گیا تھا، لوگوں کا اس خانقاہ تک پہنچنے کا واحد راستہ رسی تھی یا سیڑھی یا پھر لٹکی ہوئی ٹوکری جس میں وہ بیٹھ کر اوپر آتے تھے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔