کراچی کی تقدیر کا فیصلہ

شہریار شوکت  جمعرات 25 مئ 2023
بلدیاتی انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی پہلے، جماعت اسلامی دوسرے اور تحریک انصاف تیسرے نمبر پر ہے۔ (فوٹو: فائل)

بلدیاتی انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی پہلے، جماعت اسلامی دوسرے اور تحریک انصاف تیسرے نمبر پر ہے۔ (فوٹو: فائل)

خدا خدا کرکے کفر ٹوٹا اور کئی ماہ گزرنے کے بعد کراچی کے منتخب بلدیاتی امیدواروں نے حلف اٹھا ہی لیا۔ اس دوران تین سیاسی جماعتیں کراچی میں آمنے سامنے نظر آئیں۔

جماعت اسلامی کے لاکھ الزامات کے بعد بھی پیپلز پارٹی اس وقت بلدیاتی انتخابات کے نتائج کے مطابق کراچی کی سے بڑی جماعت ہے۔ جماعت اسلامی دوسرے اور تحریک انصاف تیسرے نمبر پر رہی۔ جبکہ ماضی کی بڑی جماعت ایم کیو ایم بلدیاتی انتخابات کے بائیکاٹ کے باعث مقابلے میں شریک ہی نہیں ہوئی۔

موجودہ ملکی سیاسی صورتحال کے باعث تحریک انصاف اور جماعت اسلامی میں اتحاد ہوچکا ہے۔ تحریک انصاف نے میئر کےلیے حافظ نعیم کی حمایت کا اعلان کردیا ہے جس کے بعد اس اتحاد کو کل 193 ووٹ حاصل ہوں گے، جبکہ پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں کے پاس 173 ووٹ ہوں گے۔

ملک میں شفاف جمہوری عمل ہو تو جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے اتحاد کے بعد میئر تو اسی اتحاد کا بنتا ہے، لیکن سیاسی شخصیات کی منڈی لگنا سیاسی نظام میں عام سی بات ہے۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ موجودہ حالات سے نالاں تحریک انصاف کا باغی دھڑا پیپلز پارٹی سے مکمل رابطے میں ہے جس کی جانب سے پیپلز پارٹی کو 9 ووٹ دیے جاسکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے صوبائی وزیر سعید غنی نے بھی یہ دعویٰ کیا ہے کہ جماعت اسلامی کو اس کے اپنے ووٹ بھی پورے نہیں پڑیں گے جبکہ تحریک انصاف کے ووٹ بھی ان کی جانب ہوں گے۔

تحریک انصاف اور جماعت اسلامی اگر انتخابات سے قبل ہی اتحاد کرلیتے تو بال باآسانی ان کے کورٹ میں ہوتی۔ سیاست کے ماضی کو دیکھ کر اب یہ کہنا مشکل ہے کہ اکثریت والے حافظ نعیم میئر ہوں گے یا مرتضیٰ وہاب؟ لیکن میئر منتخب ہونے کے بعد بھی کیا کراچی کی تقدیر بدل جائے گی؟

اس شہر پر تین دہائیوں تک خوف کے بادل چھائے رہے۔ کراچی میں آپریشن کے بعد یہاں لاشیں گرنے کا سلسلہ تو ختم ہوگیا لیکن ٹکراؤ کی سیاست اور ایک دوسرے کا مینڈیٹ تسلیم نہ کرنا اس شہر کےلیے بڑا خطرہ ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں شاید ہی کوئی ایسی برائی ہو جو نہ ملتی ہو۔ جسم فروشی سے لے کر منشیات فروشی تک، گداگری سے لے کر مانگنے والوں کے گینگ تک، نقل مافیا کے راج سے لے کر میرٹ کی دھجیاں اڑنے تک، چوری ڈکیتیوں سے لے کر آن لائن فراڈ تک، بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے واقعات سے لے کر زمینوں پر قبضہ تک، ہر مکروہ دھندا اس شہر میں عروج پر ہے۔

شہر کی سڑکوں اور اہم شاہراہوں کا یہ حال ہے کہ گاڑی چلاتے ہوئے گڑھوں میں سڑک تلاش کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ سمندر کنارے آباد اس شہر کے باسیوں کی اکثریت کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں لیکن ٹینکر مافیا شہر بھر میں باآسانی پانی بیچنے میں مصروف ہے۔ شہر میں ٹریفک کا نظام تباہ ہے۔ سندھ حکومت کی جانب سے ماس ٹرانزٹ سسٹم کےلیے کیے جانے والے اقدامات قابل تحسین لیکن ناکافی ہیں۔ کھیل کے میدانوں پر قبضہ ہوچکا ہے۔ سرکاری اسپتال بھی کروڑوں کی آبادی والے شہر کےلیے ناکافی ہیں۔ اس سے قبل اگرچہ نعمت اللہ خان اور مصطفیٰ کمال کے دور میں اس شہر کی ترقی کےلیے خصوصی اقدامات کیے گئے لیکن اس کے علاوہ تمام منتخب نمائندوں کا وتیرہ رہا ہے کہ ’کھاو، پیو، گھر جاؤ اور اگلی بار پھر میدان میں آؤ‘۔ کبھی دہشت، کبھی دھاندلی اور کبھی پیسے کے زور پر کامیاب ہوجاؤ اور پھر سے اس شہر لاوارث کو لوٹو۔

اس بار عوام کا رویہ ذرا مختلف ہے۔ تحریک انصاف کی ہوا چلنے کے باوجود عوام نے جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمان کو ووٹ دیا۔ پیپلز پارٹی بھی اس بار سمجھ چکی ہے کہ شہر میں کام کرانا ہوگا، ورنہ مسترد کردیے جائیں گے۔ شہر بھر کے مسائل کو حل کرنا اب آسان نہیں۔ یہ شہر مسائلستان بن چکا ہے۔ شہر کی ہر گلی، ہر محلہ اب مسائل کا سمندر بن چکا ہے۔ اس صورتحال میں سیاسی محاذ آرائی کسی صورت شہر کے حق میں نہ ہوگی۔ سیاسی جماعتوں کو اس بار منتخب نمائندوں کی منڈی لگانے کے بجائے ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنا ہوگا۔

موجودہ صورتحال میں شفاف طرز انتخاب کی صورت میں میئر جماعت اسلامی کا ہی منتخب ہوتا نظر آرہا ہے، جسے دوسری جماعتوں کو تسلیم کرنا ہوگا۔ اگر فیصلہ اس کے الٹ بھی ہو تو اس وقت تنقید کے بجائے مل کر بیٹھنا ہوگا۔ شہر کی تینوں بڑی جماعتوں کو اس شہر کے مسائل کے حل کےلیے ایک ساتھ کام کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر ان کا حال بھی کراچی کی اس جماعت جیسا ہوگا جس کا کبھی راج ہوا کرتا تھا جبکہ اب نام لینے والے بھی کم ہی ملتے ہیں۔

کراچی کے شہریوں کو بھی اب بیداری کا ثبوت دے کر اپنے مینڈیٹ کی حفاظت کرنا ہوگی۔ پُرامن احتجاج ہر شہری کا حق ہے لیکن انتشار سے گریزاں رہیں۔ شہریوں کو اب منتخب نمائندوں سے بھی سوال کرنا ہوگا۔ جسے ووٹ دیا اس سے سوال آپ کا حق ہے۔ اپنے حقوق کے متعلق پوچھیے، اپنی ترقی کی ڈیمانڈ کیجیے اور شہر کی تقدیر بدلیے۔ ورنہ یہ شہر مزید تباہ ہوجائے گا اور پھر اسے بدلنے کی کوئی صورت نہ ہوگی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔