سچ کو عیاں ہو جانے دیں

نصرت جاوید  جمعـء 25 اپريل 2014
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

میری یادداشت مجھ کو دھوکہ نہیں دے رہی تو شاید ٹالسٹائی نے ہی کہیں لکھا تھا کہ کوئی ادیب چاہے کتنا ہی تخلیقی کیوں نہ ہو اپنی بیان کردہ کہانیوں کو حقیقت سے زیادہ مسحور کن نہیں بنا سکتا۔ ہم بحیثیت قوم مگر وکھری نوعیت کے لوگ ہیں‘ اپنی آنکھوں کے عین سامنے ہونے والے سیدھے سادھے حقائق کو سفاکانہ حد تک نظرانداز کرتے ہوئے ان کی بابت عجیب و غریب کہانیاں گھڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔ مقصد ان کہانیوں کا لوگوں کی بَھد اُڑانا یا ان کی نیتوں کو کھوٹا ثابت کرنا ہوتا ہے۔ محض الفاظ کے استعمال کے ذریعے ہمیں ’’حق و باطل‘‘ کی جنگیں بھی پوری قوتِ ایمانی سے لڑنا ہوتی ہیں۔ ایسی کئی جنگیں میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے کئی بار برپا ہوتے دیکھی ہیں۔ نتیجہ کچھ بھی برآمد نہیں ہوتا۔ منیر نیازی کے بتائے ’’حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ‘‘ والا معاملہ ہی برقرار رہتا ہے۔ پنجابی محاورے کی اس گدھی کی مانند جو کئی اطراف کے پھیرے لگانے کے بعد بالآخر اسی برگد کے نیچے آ کھڑی ہوتی ہے جو ساری عمر اس کا مستقل ٹھکانہ بنا رہتا ہے۔

محض الفاظ کے استعمال کے بجائے میں نے اپنی قوم کو پتھروں کے ساتھ آنسو گیس کے اذیت ناک دھوئیں کا مقابلہ کرتے ہوئے بھی چند بار حق و باطل کی جنگوں میں پوری شدت کے ساتھ مصروف پایا۔ میں ابھی اسکول بھی مکمل نہ کر پایا تھا تو ایوب خان کے ’’دس سالہ دور میں ہونے والی ترقی‘‘ کا سرکاری طور پر جشن منانے والی تقریبات کے خلاف لوگ اکتوبر 1968ء سے سڑکوں پر آنا شروع ہو گئے۔ یہ سلسلہ مارچ 1969ء تک چلتا رہا اور ایوب خان کی جگہ جنرل یحییٰ تشریف لے آئے۔ اس کے ایک سال بعد پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار بالغ رائے دہی کی بنیاد پرہمارے ہر شہری کو ووٹ دینے کا حق ملا۔ ہمارے لوگوں نے بھر پور طریقے سے اس حق کو استعمال کیا۔ مگر اکثریتی جماعت کو اقتدار نہ دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں پاکستان دو لخت ہو گیا اور بنگلہ دیش بن جانے کے بعد باقی رہ جانے والے پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت قائم ہو گئی۔ ایوب خان کی طرح جب ان کی حکومت بھی ناقابلِ تسخیر نظر آنا شروع ہو گئی تو 1977ء کے عام انتخابات ہوئے۔ ان کے نتائج کو بڑے شہروں کی ابھرتی اور سیاسی طور پر توانا ہوتی مڈل کلاس نے بدترین دھاندلی قرار دے کر رد کر دیا۔ غصے سے بپھرے ہجوم پتھر اٹھائے سڑکوں پر آگئے۔

پھر جولائی 1977ء ہو گیا۔ جنرل ضیاء کے 11 سالوں کا آغاز کرنے۔ وہ 1988ء میں ایک فضائی حادثے کی نذر ہو گئے تو محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی ’’باریاں‘‘ شروع ہو گئیں اور بالآخر 12 اکتوبر 1999ء۔ جنرل مشرف بھی جب اس دن کی بدولت 2007ء میں داخل ہونے کے بعد ناقابلِ تسخیر نظر آنے لگے تو ایک ’’چیف‘‘ نمودار ہو گیا۔ اس کے ’’جانثار بے شمار‘‘ تھے اور وہ ریاست کو ’’ماں کے جیسی‘‘ بنانے کا عہد کرتے رہے۔ ہماری ریاست ابھی تک مگر ریاست ہی بنی ہوئی ہے۔ ریاست ’’ماں کے جیسی‘‘ بن ہی نہیں سکتی کیونکہ یہ اپنی جگہ ایک مکمل اکائی نہیں ہوتی۔ اس کی قوت بہت سارے اداروں میں بٹی ہوتی ہے۔ ان اداروں کی اپنی اپنی ترجیحات اور مفادات ہوتے ہیں۔ خلقِ خدا کی روزمرہّ زندگی اور اس کے مسائل ان ترجیحات اور مفادات میں کہیں فٹ نہیں ہوتے۔ بے شمار جاں نثاروں کے چیف بالآخر جب اپنے عہدے پر بحال ہو گئے تو عدلیہ ریاست کے باقی دو ستونوں سے کہیں زیادہ بلند ہوتی ہوئی پورے انتظامی ڈھانچے کو ہلانا شروع ہو گئی۔ عدلیہ کے بلند ہوتے ہوئے ستون کے سائے تلے میڈیا نے بھی اپنا ستون الگ سے بلند کرنا شروع کر دیا۔ اب چاروں طرف ستون ہی ستون ہیں۔ ان کے اوپر کچھ کھڑا بھی ہے یا نہیں یہ کوئی دیکھنا ہی نہیں چاہتا۔

ذاتی طور پر لیکن ان دنوں میں کافی وحشت سے سمجھنا یہ چاہ رہا ہوں کہ حکمران جب ہمارے ملک میں ناقابل تسخیر نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں تو 1968ء – 1977ء اور 2007ء کیوں ہو جاتا ہے۔ اپنی پوری کوشش کے باوجود میں کچھ بھی سمجھ نہیں پایا۔ ریاستی ایوانوں میں ہونے والے فیصلوں کی مستند تاریخ آپ اس وقت تک جان ہی نہیں سکتے جب تک کابینہ یا دیگر اعلیٰ سطح اجلاسوں میں ہونے والے بحث و مباحثے کا ریکارڈ کسی قطع و برید کے بغیر آپ کو ایک شہری کے طور پر بطور حق میسر نہ ہو۔ اس ریکارڈ تک حقیقی رسائی کے بغیر آپ چند ایسے لوگوں کی آپ بیتیوں پر تکیہ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جو کسی زمانے میں اہم عہدوں پر تعینات رہے ہوتے ہیں۔ میں ایسی کتابیں بڑے شوق سے پڑھا کرتا تھا۔ جنرل ضیاء کے دور میں ایسی ہی ایک کتاب قدرت اللہ شہاب نے بھی لکھی تھی۔ ’’شہاب نامہ‘‘ کو پڑھتے ہوئے میں نے پاکستان کے پہلے باقاعدہ آمر ملک غلام محمد کو ایک بے بس مسخرے کی صورت دریافت کیا۔ ’’شہاب نامہ‘‘ میں دکھایا یہ فالج زدہ آمر کوئی فقرہ ادا کرنا چاہتا تو اس کے منہ سے تھوکوں کی پھوار کے ساتھ غوں غاں میں دبی گالیاں سنائی دیتیں۔ اس غوں غاں کو ملک غلام محمد کی ایک یورپین نژاد سیکریٹری محفل میں موجود حکام کو احکام کی صورت بیان کر دیتی۔ قدرت اللہ شہاب کے بیان کردہ ملک غلام محمد پر مجھے ہنسی کے ساتھ ساتھ اکثر ترس بھی آ جاتا۔ مگر پھر میں نے قرۃ العین حیدر کی آپ بیتی ’’کار جہاں دراز‘‘ بھی پڑھ ڈالی۔ قرۃ العین میں ہزار ہا خرابیاں ہوں گی مگر وہ جھوٹ گھڑنے کے قابل ہی نہ تھی۔ قرۃ العین نے قیام پاکستان کے فوری بعد کے چند برسوں میں حکومتِ پاکستان کے لیے وزارتِ اطلاعات کے ذیلی اداروں میں کام بھی کیا تھا۔ ان کے جمیل الدین عالی سے خاندانی مراسم تھے اور عالی جی قدرت اللہ شہاب کے چہیتوں میں شمار ہوا کرتے تھے۔

ان ہی کی ایماء پر شہاب صاحب نے ادیبوں کی سرکاری سرپرستی میں ایک تنظیم ’’رائٹرز گلڈ‘‘ بھی بنوائی تھی۔ میرے ایک مرحوم سینئر اس تنظیم کو Writers’ Guilt کہا کرتے تھے۔ بہرحال ’’کار جہاں دراز‘‘ میں قرۃ العین نے صفحہ 641  پر بیان کیا ہے کہ وہ گورنر جنرل غلام محمد کے انتقال کے چند روز بعد شہاب صاحب کے دفتر کسی کام سے گئیں تو وہ غلام محمد کے بارے میں ایک تعزیتی مضمون لکھ رہے تھے۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے قرۃ العین کو بتایا: ’’آپ کو معلوم ہے۔ مرحوم و مغفور (ملک غلام محمد) ولی اللہ تھے۔ میں نے ان کو جذب کے عالم میں دیکھا ہے۔ اپنے مضمون میں مرحوم کی شخصیت کے اسی پہلو پر روشنی ڈال رہا ہوں‘‘۔ آپ خود ہی فرمائیے کہ یہ فقرہ پڑھنے کے بعد میں ’’شہاب نامہ‘‘ میں دکھائے غلام محمد کا اعتبار کروں یا قرۃ العین کو بتائے ’’ولی اللہ‘‘ کا؟ اس طرح کے کئی واقعات لکھتے ہوئے ایک پوری کتاب مرتب کی جا سکتی ہے۔

فی الوقت تو میری خواہش ہے تو صرف اتنی کہ جنرل مشرف کے سنجیدہ اور باوقار وکیل فروغ نسیم کی درخواست پر کسی نہ کسی صورت عمل ہو جائے اور ہم مستند سرکاری ریکارڈ کے ذریعے بالآخر اس ملک میں پہلی بار ریاست سے متعلقہ ایک اہم معاملے کی حقیقت کو پوری طرح جان سکیں۔ محض ایک رپورٹر کے طور پر مجھے بذاتِ خود کم از کم اتنا علم ہے کہ 3 نومبر 2007ء کا فیصلہ ’’اچانک‘‘ نہیں ہوا تھا۔ اس انتہائی اقدام سے پہلے بے شمار لوگوں سے کئی دنوں تک طویل مشاورتی اجلاس ہوتے رہے۔ ان اجلاسوں میں کون کیا کہتا رہا اسے اب عیاں کر دینے میں حرج ہی کیا ہے!۔ سچ کو عیاں ہو جانے دیں تا کہ من گھڑت کہانیوں سے نجات ملے۔

 

 

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔