وائس چانسلر کے نام پر ڈیڈ لاک/حیدر آباد میں وفاقی یونیورسٹی کا قیام خواب بن گیا

صفدر رضوی  جمعـء 26 مئ 2023
فوٹو : سوشل میڈیا

فوٹو : سوشل میڈیا

کراچی: سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں وفاقی حکومت کی جانب سے ایک نئی یونیورسٹی کا قیام خواب بن گیا ہے۔ 

“حیدرآباد انسٹی ٹیوٹ فار ٹیکنالوجی اینڈ منیجمنٹ سائنسز ” کے نام سے یونیورسٹی کے لیے 100 ایکڑ اراضی مفت فراہم کرنے کے باوجود وفاقی حکومت اس یونیورسٹی کو 8 ماہ بعد بھی فعال نہیں کرسکی ہے اس یونیورسٹی کے قیام کے لیے سندھ حکومت کی جانب سے حیدرآباد کے علاقے لطیف آباد میں 100 ایکڑ اراضی اعلی تعلیمی کمیشن اسلام کو گزشتہ برس اکتوبر میں مفت فراہم کی تھی۔

تاہم اب بتایا جارہا ہے کہ اس یونیورسٹی میں نئے اور پہلے وائس چانسلر کی تقرری پر ڈیڈلاک ہے اور سرچ کمیٹی نے جس امیدوار کے نام کی سفارش بحیثیت وائس چانسلر کی ہے ایوان صدر/چانسلر سیکریٹریٹ اس نام پر راضی نہیں ہے جبکہ خود سرچ کمیٹی نے ابتداء میں متعلقہ امیدوار کے نام کو شارٹ لسٹ کیے گئے تین موزوں ناموں سے باہر رکھا تھا۔

ازاں بعد وفاقی وزارت تعلیم کی مداخلت پر متعلقہ نام نا صرف شارٹ لسٹ کیے گئے امیدواروں کی فہرست میں شامل کیا گیا بلکہ اس نام کو صف اول پر رکھ دی گیا اور ابتداء میں فائنل کیے گئے تین ناموں میں سے ایک نام نکال دیا گیا بتایا جارہا ہے کہ اس سلسلے میں سندھ کی ایک سیاسی جماعت کا اصرار تھا کہ وہ متعلقہ نام کے علاوہ کسی دوسرے امیدوار کو اس یونیورسٹی میں وائس چانسلر کی پوزیشن پر نہیں دیکھنا چاہتے اور اس سیاسی جماعت کے اس اصرار کو وزیر اعظم میاں شہباز شریف تک پہنچایا گیا جس کے بعد وفاقی وزارت تعلیم نے سرچ کمیٹی کو اعتماد میں لے کر متعلقہ امیدوار کے نام کو شارٹ لسٹ کیے گئے امیدواروں کی فہرست میں جگہ دلوائی “ایکسپریس” نے جب وفاقی سیکریٹری تعلیم وسیم اجمل سے اس سلسلے میں دریافت کیا تو ان کا کہنا تھا کہ “ہم تو تین نام وزیر اعظم کو بھجواچکے ہیں اطلاعات کے مطابق سمری وزیر اعظم ہائوس میں ہے تاخیر کیوں ہورہی ہے اس کی وجہ نہیں جانتے”۔
علاوہ ازیں وزارت تعلیم اور سرچ کمیٹی کے ذرائع کے مطابق ابتداء میں انٹرویو کے بعد جن 3 موزوں ناموں کو شارٹ لسٹ کیا گیا تھا ان میں سابق وائس چانسلر سندھ مدرسہ یونیورسٹی ڈاکٹر محمد علی شیخ، اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے ڈاکٹر نبی بخش جمانی اور سندھ کی ٹیکنیکل یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر مدد علی شاہ کا نام شامل تھا تاہم ایک سیاسی پارٹی کی جانب سے جس امیدوار کے نام پر اصرار کیا جارہا تھا۔
ان کے پاس وائس چانسلر شپ کا تجربہ ہی نہیں تھا حد یہ ہے کہ وہ یونیورسٹی کیڈر کے گریڈ 21 کے پروفیسر تک نہیں تھے ان کے پاس کالج اور تعلیمی بورڈ کا تجربہ تھا جبکہ متعلقہ امیدوار انٹرویو پینل کو کیے گئے سوالات کے تسلی بخش جوابات تک نہ دے سکے اور یہ بھی نہ بتاسکے کہ وہ جس یونیورسٹی کے وائس چانسلر بننے کے خواہش مند ہیں اس کا ایکٹ کیا ہے تاہم وزارت تعلیم کی مداخلت پر کالج کیڈر کے مذکورہ ریٹائر پروفیسر کا نام شارٹ لسٹ امیدواروں کی فہرست میں شامل کردیا گیا۔

سیکریٹری تعلیم نے تصدیق کی کہ متعلقہ نام کے علاوہ ڈاکٹر محمد علی شیخ، اور ڈاکٹر جمانی کے نام وزیر اعظم کو بھجوائے گئے ہیں۔
یاد رہے کہ ابتداء میں طے کیا گیا تھا کہ یونیورسٹی کی مختلف عمارتوں کی تعمیر میں ابھی کئی سال لگے گے لہذا فوری طور پر یونیورسٹی شروع کرنے اور داخلوں دینے کے لیے اس یونیورسٹی کی اراضی کے قریب ہی کسی عمارت سے حیدرآباد انسٹی فار ٹیکنالوجی اینڈ منیجمنٹ سائنسز اپنا کام شروع کردے گا یونیورسٹی ایکٹ کے مطابق فی الحال “فیکلٹی آف آئی سی ٹی(آرٹس اینڈ ہیومینیٹیز)، فیکلٹی آف ڈیزائن ، میوزک اینڈ کرییوٹیو آرٹ، فیکلٹی آف نیچرل سائنسز اورفیکلٹی آف بزنس اینڈ انٹرپینیور میں داخلے دیے جانے تھے تاہم یہ سب کچھ وائس چانسلر کے عدم تقرر کے سبب التواء میں پڑگیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔