- ریونیو جنریشن اسٹرٹیجی اور ایف بی آر کی تنظیم نو کا فیصلہ
- سائفر کیس میں عمران خان کی درخواست ضمانت سماعت کیلیے مقرر
- غریب پاکستانی سوا کروڑ اضافے سے ساڑھے 9 کروڑ ہو گئے، عالمی بینک
- ٹیم میں تبدیلیاں، انضمام اور بابر نے کرکٹ کمیٹی کی تجاویز نظرانداز کردیں
- عامر ریٹائرمنٹ واپس لے کرفرسٹ کلاس میچز کھیلیں، پرفارم کریں، انضمام الحق
- سعودی عرب سے امن معاہدے کے قریب ہیں، اسرائیل
- نسیم کے کندھے کی سرجری ہوگی، بحالی فٹنس کیلیے 4 ماہ درکار
- آزمودہ ہتھیاروں سے مشن ورلڈکپ میں سرخرو ہونے کا پلان
- 9مئی کے واقعات میں ملوث افراد کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی ہوگی، انوارالحق کاکڑ
- بھارت نے کشمیری رہنما میر واعظ عمر فاروق کو 4 سال بعد رہا کر دیا
- مسلم لیگ ن کا اجلاس، نواز شریف کی 21 اکتوبر کو وطن واپسی کا حتمی فیصلہ
- نیپرا نے بجلی کی قیمت میں 3 روپے 28 پیسے کا اضافہ کردیا
- بائیڈن نے جی 20 اجلاس میں مودی کے ساتھ کینیڈین سکھ کے قتل کا معاملہ اٹھایا تھا، عالمی میڈیا
- نواز شریف کی واپسی کا نگراں حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے، مرتضی سولنگی
- کراچی میں ڈکیتوں نے ہوٹل پر بیٹھے درجنوں شہریوں کو لوٹ لیا
- لاہور؛ ڈینگی کا لاروا برآمد ہونے پر مقدمہ درج کیا جائے گا
- باجوہ کی توسیع کی حمایت ن لیگ کا عمران خان کیخلاف سیاسی حربہ تھا، رانا ثنا اللہ
- پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کیلیے مسئلہ کشمیر کا حل ناگزیر ہے ، نگراں وزیراعظم
- برطانیہ: 8 سالہ بچی کو زندگی بھر دواؤں سے نجات دینے والا ٹرانسپلانٹ کامیاب
- کچلاک میں پولیس موبائل پر دستی بم حملہ اور فائرنگ، ایک اہلکار زخمی
تاریک راہوں میں مارے گئے…
یہ تو نظرآرہا تھا کہ خان صاحب کیا چاہتے تھے۔ آخر اتنی جلدی کس بات کی تھی؟ یہ تو خان صاحب کو ہی پتا ہوگا۔ ان کے ساتھ ان کے رفقاء جن کے مفادات مشترکہ تھے۔
ان کو ماضی میں جہاں سے مدد ملتی تھی، وہ مدد ان کو اب بھی درکار تھی، یہ سب ایک کشتی کے سوار تھے، مگر اب وہاں تبدیلی آگئی تھی، جو کچھ انھیں مطلوب تھا۔ وہ میسر نہ تھا۔ نظام انصاف سے جو ان لوگوں یا اس طبقے کو جو مدد ملی، اس نے نظام انصاف کی اخلاقی طاقت خاصا نقصان پہنچایا۔ کیونکہ اس سے پہلے کچھ کام تو یہ کرتے تھے اورکچھ اسٹبلشمنٹ، اب سارا بوجھ اٹھانا نظام انصاف کے بس سے باہر ہے۔
نو مئی کا واقعہ ایک سوچی سمجھی سازش اور منصوبہ تھا۔ میں آٹھ مئی کی رات کسی ٹاک شو میں بیٹھا تھا، میں نے کہا ’’ معاملات دو یا تین دن میں بہت خطرناک حد تک جا رہے ہیں۔‘‘ دو یا تین کیا یہاں تو ایک دن بھی نہیں گزرا۔ میں نے یہ سب کچھ تیزی سے نقطہ ابال پر پہنچنے والے بیانیے سے بھانپ لیا تھا کیونکہ میرے مشاہدے میں ایک صدی کی تاریخ ہے، اس مملکت خداداد کا وجود میں آنا اور وہ محرکات جو اس ملک کو وجود میں لائے۔
میرے والد چوبیس مارچ کی آخری شام دھان منڈی ڈھاکا میں شیخ مجیب کے ساتھ تھے، جب وہ آزادی کا اعلان کرتے ہیں۔ ابا نے ان کوکہا ’’تم انڈر گرائونڈ ہوجائو‘‘ شیخ مجیب نے کہا ’’میں نہیں ہوسکتا، میں لیڈر ہوں، مجھے گرفتاری دینی پڑے گی‘‘۔ وہ کیا تھا ! وہ بغاوت تھی۔ نو مئی کا واقعہ بھی ایک بغاوت ہے جس کی ڈورکہیں دور سے ہلائی جارہی تھی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے،خان صاحب کیوں اس مہم جوئی کا مرکزی کردار بنے؟ وہ تو دعویٰ کرتے تھے کہ وہ بہت مقبول لیڈر ہیں؟ اول دن سے ان کو جلدی تھی،اس حکومت کو ٹھہرنے ہی نہ دیا، سانس لینا دوبھرکردیا۔ پہلا معرکہ پچھلے سال پچیس مئی کو سر انجام دیا۔ اس وقت وہ اپنی پسند کا سپہ سالار چاہتے تھے، فوری عام انتخابات کا مطالبہ بھی کیا ، جو پورا نہ ہوا، تو انھوں نے پنجاب اسمبلی اور خیبر پختونخوا اسمبلی توڑی اور ملک میں آئینی بحران پیدا کیا، اس سے پہلے لانگ مارچ کی اور پھر ان کو پتہ تھا کہ القادر ٹرسٹ کا کیس آرہا ہے، پھر توشہ خانہ ، فارن فنڈنگ وغیرہ ایک بڑی دیوار تھی جو ان کے سامنے کھڑی تھی،انھوں نے نافرمانی کرنا شروع کردی، نظام انصاف میں موجود اسقام اور تعلقات کا سہارا ملتا رہا ، حکومت انتہائی کمزور نظر آئی، پی ڈی ایم حکومت بے بس ہوگئی ۔ عمران خان کے سامنے بس ایک رکاوٹ تھی، وہ تھی اسٹبلشمنٹ۔
معیشت میں خطرناک بحران پیدا ہوا، ادھر چین نے اپنا کردار ادا کرکے ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات بحال کرادیے، ایک نیا بلاک تیزی سے بنتا جا رہا تھا۔ ہم نے کوشش کی کہ ہم توازن کی پالیسی پکڑیں، مگر ادھر زلمے خلیل زاد پاکستان میں خانہ جنگی کو دعوت دے رہا تھا، وہ خود کو افغان ظاہر کرتا ہے لیکن وہ خود اور اس کے بیوی بچے امریکی شہری ہیں۔ان کی افغانستان سے کوئی محبت نہیں ہے ، بھلا پاکستان کے ساتھ کیسے ہوسکتی ہے۔
ایسے ہم کیا کرتے، ہمارے لیےsurvival کا مسئلہ تھا، چین کے سوا کوئی آپشن ہی نہ تھا۔ نو مئی کا واقعہ اس بدلتے تناظر میں۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے پاکستان کو ایٹمی پروگرام دیا، ہنری کسنجر امریکا کے وزیرخارجہ، پاکستان آئے اور بھٹوکو باورکروایا کہ اس کے بڑے سخت نتائج نکلیں گے۔ پی این اے کی تحریک چلی، عالم آشکار بات ہے، لکھنے والے لکھتے ہیں کہ ڈالر فراواں ہوگیا ۔
اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ بھٹو نے جو دوتہائی اکثریت حاصل کی، اس میں دھاندلی کا عنصر ضرور تھا، مگر سادہ اکثریت وہ فطری طور پر لے آئے تھے۔ حالات اتنے خراب کیے گئے کہ پانچ جولائی کا شب خوں آیا، بہت ڈالرآیا۔ سرد جنگ کے اس تناظر میں کئی لوگوں کے سوئس اکائونٹ میں ڈالر پائے گئے، سانحہ اوجھڑی کیمپ زیادہ پرانا ہے۔ ایوب خان کے شب خوں کا پشت پناہ بھی امریکا تھا ۔
اس ملک کے ادارے اتنے کمزور ہیں، چند لوگ ان پر حاوی ہوجاتے ہیں۔ پاکستان، ایران، سعودی عرب، چین، روس وغیرہ بھی اپنی ماہیت میں بہت مختلف ممالک ہیں۔ ان ممالک کے برعکس پاکستان میں ایک آئین ہے، پارلیمانی جمہوریت بھی ہے، بھلے کمزور ہی کیوں نہ ہو، سسٹم کے اعتبار سے مغرب سے قریب ہے، مگر سرد جنگ کے فوائد سمیٹ کر ایک ایسا طبقہ طاقتور ہوگیاجو اپنے عمل میں ماڈرن اور ویسٹرن اسٹائل کا لدادا ہے لیکن دماغ انتہاپسند نظریات سے متاثر ہوگیا، یہ طبقہ اپنے تضادات پر غور کرنے کے لیے تیار تھا نہ اس میں صلاحیت تھی ۔ خاں صاحب کی پارٹی کی اب کوئی ساکھ باقی نہیں رہی، انھوں اور ان کے پشت پناہوں نے جو منصوبہ ترتیب دیا تھا، وہ ناکام ہوگیا۔ اب یہ ملک معاشی سمت پکڑسکتا ہے۔ ہمارے لیے اس وقت صرف اور صرف معاشی چیلنجز ہی اولین ترجیحات ہیں۔
ہم سب کے لیے اس ملک کا وجود اہم ہے اور پاکستان وہ ہی ہے، جس کی تشریح آئین میں ہے اور بس وہ ہی ہے پاکستان، اس کے سوا اورکوئی تشریح پاکستان کی نہیں ہوسکتی۔ خان صاحب ہمارے آئین کو یرغمال بنا کر حکمران بنناچاہتے تھے۔ ان کے لیے صرف اپنی ذات تھی، وہ کچھ لوگوں کے ہاتھوں میں کھیلے، ان میں وہ سرمایہ دار، بیوروکریٹس اور سیاستدان شامل ہیں، جن پرورش،آمریتوں کے ادوار میں ہوئی۔
یہ شرفاء کی وہ نسل تھی جن کا کوئی نظریہ نہیں تھا نہ ہی کوئی اصول موجود تھا، خود احتسابی سے کوسوں دور اور خود پسندی کا شکار یہ طبقہ اپنی کچھاروں سے باہر نکل کر تباہی پھیلانے لگا ہے۔وہ چاہتے تھے کہ فوج ان کا ساتھ دے، انھوں نے بڑی ہوشیاری اور مکاری سے ایک بیانیہ دیا، پھر اس کے سہارے ماچس پکڑ لی، نو مئی کو۔ کچھ سمجھے بغیر، یہ کام تب کیے جاتے ہیں جب ان کی کامیابی کا سو فیصد یقین ہو۔ چھ جنوری 2021 کو ٹرمپ نے بھی ایسا ہی کیا تھا، مگر وہ انتہائی چھوٹا قدم تھا، نو مئی کے مقابلے میں۔ خان صاحب نے بانی ایم کیو ایم کی تنہائی اور کسمپرسی سے بھی کچھ نہیں سیکھا ۔ بقول بھگت کبیر۔
پریتم ، ایسی پریت نہ کریو، جیسی کرے کھجور
دھوپ لگے تو سایہ ناھی، بھوک لگے تو پھل دور
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔