محبت ہو تو ایسی!

ندیم سبحان  ہفتہ 26 اپريل 2014
66 سالہ عورت معذور پوتی کو کمر پر لاد کر اسکول لے جاتی ہے۔   فوٹو : فائل

66 سالہ عورت معذور پوتی کو کمر پر لاد کر اسکول لے جاتی ہے۔ فوٹو : فائل

کہتے ہیں کہ دادا اور دادی اپنے بیٹے سے زیادہ اس کی اولاد سے پیار کرتے ہیں۔ چین کے شہر Yibin کا رہائشی عمر رسیدہ جوڑا اولاد کی اولاد سے بے پناہ محبت کی روشن مثال ہے۔

چودہ سالہ فینگ می ایک معذور لڑکی ہے۔ وہ چلنے پھرنے سے قاصر ہے اس کے باوجود وہ ایک دن بھی اسکول سے غیرحاضر نہیں ہوتی۔ اس کا اسکول گھر سے دو کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ راستہ دشوار گزار ہونے اور کوئی سواری نہ ہونے کے باوجود وہ وقت پر اسکول پہنچتی ہے، کیوں کہ فینگ کی 66 سالہ دادی روزانہ اسے کمر پر لاد کر لے جاتی ہے! جی ہاں عزم و ہمت کا پیکر یہ بوڑھی عورت اپنی عزیز از جان پوتی کو صبح سویرے کمر پر لاد کر دشوار گزار راستوں پر چلتی ہوئی دو کلومیٹر کا راستہ طے کرکے اسے اسکول پہنچاتی ہے اور پھر واپس لاتی ہے۔

فینگ می کے گھٹنوں میں پیدائشی نقص ہے جس کی وجہ سے گھٹنے اس کا بوجھ نہیں سہار سکتے۔ وہ چند منٹ سے زیادہ وقت تک اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہوسکتی۔ فینگ ابھی شیرخوار ہی تھی کہ بدقسمتی سے اس کا باپ انھیں چھوڑ کر چلا گیا۔ کچھ ہی عرصے بعد فینگ کی ماں نے بھی دوسری شادی کرلی۔ یوں اس کی پوری ذمہ داری دادا دادی کے ناتواں کاندھوں پر آگئی، مگر انھوں نے فینگ کو کبھی خود پر بوجھ نہیں سمجھا اور جان سے بھی زیادہ عزیز رکھا۔ فینگ کے دادا پیرانہ سالی کے باعث کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں۔ اس طرح اس چھوٹے سے کنبے کی تمام ضروریات کی تکمیل فینگ کی دادی کو کرنی پڑتی ہے۔

فینگ کی دادی صبح پانچ بیدار ہوتی ہیں اور دن بھر میں انجام دیے جانے والے امور کی تیاری میں جُت جاتی ہیں۔ سات بجے دادی اور پوتی کا اسکول کی جانب سفر شروع ہوتا ہے۔ دو کلومیٹر طویل سفرکے دوران وہ کم از کم پانچ بار سستانے کے لیے رکتی ہیں۔ دادی کو یہ سفر طے کرنے میں ڈیڑھ گھنٹہ لگتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ فینگ کو اسکول پہنچنے میں کبھی تاخیر نہیں ہوئی۔ دادی اسے ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے اسکول پہنچا دیتی ہیں۔ فینگ کو دادی کی کمر پر سوار ہوکر اسکول جاتے ہوئے پانچ سال ہوگئے ہیں، یعنی دادی پوتی اب تک مجموعی طور پر 4000 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرچکی ہیں۔

ایک 66 سالہ بوڑھی عورت کا روزانہ اپنی پوتی کو کمر پر لاد کر چار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا دورحاضر کا ایک حیرت انگیز واقعہ ہے۔ دشوار گزار راستے پر چالیس کلو وزن کمر پر لاد کر چار کلومیٹر تک چلنا تو نوجوانوں کے لیے بھی آسان نہیں ہوتا، کہاں یہ بوڑھی عورت روزانہ اس ناقابل یقین مشق سے گزتی ہے۔ یقینی طور پر یہ اپنی پوتی سے بے پناہ محبت ہے جو اس کے ناتواں قدموں کو رواں رکھتی ہے۔ فینگ کی دادی کا کہنا ہے کہ اسے بس یہ فکر ہے کہ ان کی موت کے بعد وہ حالات کا مقابلہ کیسے کرپائے گی۔ دادی کو ایک خواب بار بار دکھائی دیتا ہے کہ فینگ پھسل کر تالاب میں گرجاتی ہے اور وہ کوشش کے باوجود اپنی پوتی کا ہاتھ پکڑنے سے قاصر رہتی ہے۔

فینگ می کے ذہن کو علم کی روشنی سے منور کرنے کے لیے دادی جو مشقت اٹھارہی ہیں، فینگ کو بھی اس کا شدت سے احساس ہے۔ مگر وہ اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتی کہ دادی کی پیٹھ پر اس کا وزن کم سے کم پڑے۔ اس مقصد کے لیے وہ دو بانسوں کو بیساکھی کے طور پر استعمال کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ دور تک پیدل چلنے کی کوشش کرتی ہے۔ تمام ترکوشش کے باوجود وہ تھوڑی ہی دور تک چل پاتی ہے اور پھر دادی اسے پیٹھ پر لاد لیتی ہے۔

دو تصویریں بنانا فینگ می کا خواب ہے۔ ایک تصویر وہ اس راستے کی بنانا چاہتی ہے جو وہ اوراس کی دادی روز طے کرتے ہیں۔ دوسری تصویر میں وہ اپنے دادا اور دادی کو ایک خوب صورت گھر میں دکھانا چاہتی ہے۔ فینگ یہ تصویریں اپنی دادی کو بہ طور تحفہ دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔

خوش قسمتی سے اس کہانی کا اختتام خاصا خوش گوار ہے۔ ذرائع ابلاغ میں دادی کی اپنی پوتی سے بے انتہا محبت کے عملی اظہار کی کوریج ہونے کے بعد مقامی حکام نے ان کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس چھوٹے سے کنبے کے لیے اسکول کے قریب ایک خوب صورت سے گھر کا انتظام کردیا گیا ہے اور فینگ کو وہیل چیئر بھی مہیا کردی گئی ہے۔ حکام نے مقامی طبی اداروں کو ہدایت کی ہے وہ دیکھیں آیا فینگ کا علاج ممکن ہے یا نہیں۔

فینگ اور اس کی دادی ذرائع ابلاغ اور حکام کی بہت مشکور ہیں جن کی بہ دولت ان کی دشواریوں کا خاتمہ ہوا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔