- مریضوں کی بینائی جانے کا معاملہ، پنجاب حکومت نے اویسٹن انجکشن پر پابندی لگادی
- اٹک جیل انتظامیہ نے عمران خان کو عدالت پیش کرنے سے معذوری ظاہر کردی
- عمرعطا بندیال کے فون پر جسٹس طارق مسعود ناراض ہوگئے تھے، اہم تفصیلات سامنے آگئیں
- این ای ڈی انٹری ٹیسٹ کے نتائج نے سندھ میں معیارتعلیم کی قلعی کھول دی
- کراچی میں چپ تعزیہ جلوسوں کے موقع پر متبادل روٹس کا اعلان
- اسرائیل سے تعلقات؛ قوم اور فلسطین کے مفاد کو مد نظر رکھا جائے گا، وزیرخارجہ
- بھارت نے آسٹریلیا کیخلاف ون ڈے سیریز جیت لی
- بلغاریہ کے انٹرنیشنل پارک کا ایک گوشہ فلسطین کے نام سے منسوب
- گلوبل ویٹرنز کپ میں پاکستان کی مسلسل چوتھی فتح
- بھارت نے کینیڈین شہریوں کیلئے ویزوں کا اجرا معطل کردیا
- عمران خان کے بغیر بھی انتخابات ہوسکتے ہیں، نگراں وزیراعظم
- ایران میں دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی کے الزام میں داعش کے 28 ارکان گرفتار
- ہوائی جہاز میں دوران سفر ’سورہی‘ خاتون مسافر مُردہ نکلیں
- کراچی اور لاہور میں طیاروں کو جی پی ایس سگنلز ملنے میں دشواری
- محمد آصف کی تنقید کے بعد بابراعظم کے والد کا ردعمل بھی آگیا
- سندھ میں ڈینگی کے مزید 17 کیسز رپورٹ
- ورلڈ کپ کی سیمی فائنلسٹ ٹیمیں کون ہوں گی؟ ہاشم آملہ نے بتادیا
- نواب شاہ ؛ بجلی چوری میں معاونت پر دو ایس ڈی اوز اور دو لائن مین معطل
- لوگ جسمانی صحت سے زیادہ ذہنی صحت کے لیے ورزش کرتے ہیں، سروے
- ٹِک ٹاک نے گوگل سرچ کی آزمائش شروع کر دی
لاہورمیں تجرباتی بنیادوں پر”بلیو روڈ‘‘ کا تصور متعارف

—فوٹو: ایکسپریس نیوز
لاہور: سی بی ڈی پنجاب نے لاہور شہر کی جدید تخلیق نو کے لیے ”بلیو روڈ‘‘ کا تصور متعارف کروایا ہے، کلمہ چوک انڈرپاس کی ری ماڈلنگ اورسی بی ڈی پنجاب بلیورڈ میں تجرباتی طور پر ” بلیوروڈ ” بنائی گئی ہے۔
ماہرین سمجھتے ہیں کہ سڑکوں پر نیلے رنگ کی کوٹنگ سے تپش میں 50 فیصد تک کمی لائی جاسکتی ہے۔ تاہم ماحولیات کے تحفظ کے لئے کام کرنیوالے بعض کارکنوں کا کہنا ہے یہ صرف آنکھوں کو دھوکادینے کے لئے درجہ حرارت میں کمی کا موثرحل زیادہ سے درخت لگانا ہی ہے۔
سینٹرل بزنس ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی بی ڈی ) نے لاہورکے کلمہ چوک انڈرپاس کی ری ماڈلنگ کے دوران بلیوروڈ کا تصور متعارف کروایا ہے۔ تجرباتی طور پر سڑک کی ایک لائن کو چند سومیٹر تک نیلے رنگ کا کوٹ کیا گیا ہے۔
ڈائریکٹرپراجیکٹ مینجمنٹ سی بی ڈی محمد آصف اقبال نے بتایا ”بلیو روڈ‘‘ میں نیلے اسفالٹ کا استعمال کیا گیا ہے، نیلے رنگ کو تارکول میں شامل کرکے سڑک پر کوٹنگ کی گئی ہے، یہ کوٹنگ تپش کو جذب کرنے کی بجائے حرارت کی لہروں کو واپس دھکیل دیتی ہے جس کی وجہ سے اس روڈ اورقریبی ایریا میں درجہ حرارت 10 ڈگری سینٹی گریڈ تک نیچے آسکتا ہے۔
محمد آصف اقبال کے مطابق یہ تصور پہلی بار قطر میں متعارف کرایا گیا تھا جس کا مقصد شہر کے بنیادی ڈھانچے کو جدید اور اس کے رہائشیوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانا ہے۔ بلیو روڈ نہ صرف ظاہری طور پر دلکش نظر آتا ہے بلکہ گرمی کو جذب کرنے اور فضائی آلودگی کم کرنے میں بھی مدد کرتا ہے، بلیو روڈ صوبائی دارالحکومت کے بگڑتے ایئر کوالٹی انڈیکس کو بحال کرنے میں مدد کرے گا۔
ماہرماحولیات علیم بٹ کہتے ہیں رنگوں کے استعمال سے درجہ حرارت میں کمی لائی جاسکتی ہے کیونکہ بعض رنگ حرارت کو جذب کرنے کی بجائے اسے ری فلیکٹ کرنے کی زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں، لاہور میں جو بلیوروڈ ہے یہ چونکہ پائلٹ پراجیکٹ ہے اس کی مانیٹرنگ کی جارہی ہےکہ عام سڑک کے مقابلے میں بلیو روڈ کے درجہ حرارت میں کتنا فرق پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا سی بی ڈی نے سڑک کے بہت ہی کم حصے پر یہ تجربہ کیا ہے جس سے بہترنتائج سامنے نہیں آئیں گے۔ زیادہ بہتر یہ تھا کہ ایک مکمل سڑک کو بلیوروڈ میں تبدیل کیا جاتا ہے تاکہ مانیٹرنگ اور موازنہ بہترطریقے سے کیا جاسکتا۔
لاہوربچاؤتحریک کے سرگرم رہنما اورماحولیات کے وکیل احمد رافع عالم کے نزدیک بلیو روڈ کا تصور محض آنکھوں کا دھوکا ہے، کروڑوں روپے کی لاگت سے کلمہ چوک انڈرپاس بنایا گیا جہاں سیمنٹ اوربجری کا بے دریغ استعمال کیا گیا ہے، سڑک پر صرف 700 فٹ کے ایریا پربلیو رنگ کرکے عوام کو بیوقوف بنایا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ درجہ حرارت میں کمی لانے کا موثر ذریعہ زیادہ سے درخت لگانا ہے، بلیوروڈ دیکھنے میں تو خوبصورت لگی ہے لیکن اس پرآنیوالے لاگت کئی گنا زیادہ ہوگی۔
واضع رہے کہ سی بی ڈی کے حکام بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ بلیوروڈ کی تعمیراتی لاگت عام روڈ کے مقابلے میں زیادہ ہوگی لیکن یہ کتنا فرق ہوگا اس بارے ابھی کچھ نہیں بتایا گیا
عام شہری بھی بلیوروڈ کے ذریعے درجہ حرارت میں کمی کے دعوؤں پر مطمئن دکھائی نہیں دیتے۔
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں شعبہ ماحولیات کی طالبہ عنبرین فاطمہ کہتی ہیں یہ طریقہ اگراتنا ہی فائدہ مند ہوتا تو پھرپاکستان میں بننے والی جدید طرز کی ہاؤسنگ اسکیموں میں بھی یہ تکنیک ضروراستعمال کی جاتی، انہیں تو یہ سب صرف سڑکوں کومختلف رنگوں کے ذریعے سجنے ،سنوارنے کا منصوبہ لگتا ہے۔
ایک اورطالبہ ماہین عامر نے کہا جس طرح ہم چھتوں کو تپش سے بچانے کے لئے مختلف رنگوں اورمیٹریل کی کوٹنگ کرواتے ہیں ممکن ہے اسی طریقے سے سڑکوں کی تپش کم کی جاسکے لیکن یہ بہت مہنگا کام ہوگا، پاکستان جیسے ملک میں جہاں پرانی طرزکا انفراسٹرکچر بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکارہے وہاں اس طرح کی مہنگی تکنیک کواستعمال کرنا ناممکن لگتا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔