- پسند کی شادی سے متعلق چیف جسٹس کے ریمارکس پر وضاحتی بیان جاری
- بلوچستان بڑی تباہی سے بچ گیا، گاڑی سے اسلحے کی بڑی کھیپ اور دھماکا خیز مواد برآمد
- نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کی طرف سے شہریوں کے مسائل جاننے کیلیے ای کچہری کا انعقاد
- ایشین گیمز مینز اسکواش ٹورنامنٹ میں پاکستان نے بھارت کو شکست دے دی
- ورلڈکپ میں شرکت کیلئے قومی کرکٹ ٹیم بھارت پہنچ گئی
- مارکیٹ میں غیر معیاری آئی ڈراپس کی موجودگی کا انکشاف
- ریاستی ادارے عوام کے جان و مال کے تحفظ کیلئے متحد ہیں، آرمی چیف
- سرچ انجن ’گوگل‘ 25 برس کا ہوگیا
- بھیڑوں کا ریوڑ 272 کلو بھنگ چٹ کر گیا
- بیت المقدس کو ہی فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کیا جائے، سعودی عرب
- شمالی کوریا نے سیاہ فام امریکی فوجی کو پناہ دینے کے بجائے ڈیپورٹ کردیا
- گذشتہ مالی سال ڈیجیٹل ٹرانزیکشنز کی مالیت میں 81 فیصد اضافہ ہوا،اسٹیٹ بینک
- بیرون ملک میں 90 فیصد گرفتار بھکاریوں کا تعلق پاکستان سے ہے، رپورٹ
- کرکٹرز کے سینٹرل کنٹریکٹس کا اعلان: بابر، رضوان اور شاہین اے کیٹیگری میں شامل
- ہردیپ سنگھ قتل کیس میں بھارت نے کینیڈا سے تعاون پر آمادگی ظاہر کردی
- صحت کے لیے مفید برتنوں کا انتخاب کیسے کریں؟
- میٹا نے پاکستان میں عام انتخابات سے متعلق حکمت عملی کا اعلان کردیا
- کراچی سمیت سندھ بھر میں انسداد پولیو مہم کا آغاز2 اکتوبر سے ہوگا
- ڈرون حملے میں زخمی بحرینی فوج کا اہلکار چل بسا؛ تعداد 3 ہوگئی
- پاکستان ریلویز پولیس نے آفیشل ویب سائٹ لانچ کردی
لاہورمیں تجرباتی بنیادوں پر”بلیو روڈ‘‘ کا تصور متعارف

—فوٹو: ایکسپریس نیوز
لاہور: سی بی ڈی پنجاب نے لاہور شہر کی جدید تخلیق نو کے لیے ”بلیو روڈ‘‘ کا تصور متعارف کروایا ہے، کلمہ چوک انڈرپاس کی ری ماڈلنگ اورسی بی ڈی پنجاب بلیورڈ میں تجرباتی طور پر ” بلیوروڈ ” بنائی گئی ہے۔
ماہرین سمجھتے ہیں کہ سڑکوں پر نیلے رنگ کی کوٹنگ سے تپش میں 50 فیصد تک کمی لائی جاسکتی ہے۔ تاہم ماحولیات کے تحفظ کے لئے کام کرنیوالے بعض کارکنوں کا کہنا ہے یہ صرف آنکھوں کو دھوکادینے کے لئے درجہ حرارت میں کمی کا موثرحل زیادہ سے درخت لگانا ہی ہے۔
سینٹرل بزنس ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی بی ڈی ) نے لاہورکے کلمہ چوک انڈرپاس کی ری ماڈلنگ کے دوران بلیوروڈ کا تصور متعارف کروایا ہے۔ تجرباتی طور پر سڑک کی ایک لائن کو چند سومیٹر تک نیلے رنگ کا کوٹ کیا گیا ہے۔
ڈائریکٹرپراجیکٹ مینجمنٹ سی بی ڈی محمد آصف اقبال نے بتایا ”بلیو روڈ‘‘ میں نیلے اسفالٹ کا استعمال کیا گیا ہے، نیلے رنگ کو تارکول میں شامل کرکے سڑک پر کوٹنگ کی گئی ہے، یہ کوٹنگ تپش کو جذب کرنے کی بجائے حرارت کی لہروں کو واپس دھکیل دیتی ہے جس کی وجہ سے اس روڈ اورقریبی ایریا میں درجہ حرارت 10 ڈگری سینٹی گریڈ تک نیچے آسکتا ہے۔
محمد آصف اقبال کے مطابق یہ تصور پہلی بار قطر میں متعارف کرایا گیا تھا جس کا مقصد شہر کے بنیادی ڈھانچے کو جدید اور اس کے رہائشیوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانا ہے۔ بلیو روڈ نہ صرف ظاہری طور پر دلکش نظر آتا ہے بلکہ گرمی کو جذب کرنے اور فضائی آلودگی کم کرنے میں بھی مدد کرتا ہے، بلیو روڈ صوبائی دارالحکومت کے بگڑتے ایئر کوالٹی انڈیکس کو بحال کرنے میں مدد کرے گا۔
ماہرماحولیات علیم بٹ کہتے ہیں رنگوں کے استعمال سے درجہ حرارت میں کمی لائی جاسکتی ہے کیونکہ بعض رنگ حرارت کو جذب کرنے کی بجائے اسے ری فلیکٹ کرنے کی زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں، لاہور میں جو بلیوروڈ ہے یہ چونکہ پائلٹ پراجیکٹ ہے اس کی مانیٹرنگ کی جارہی ہےکہ عام سڑک کے مقابلے میں بلیو روڈ کے درجہ حرارت میں کتنا فرق پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا سی بی ڈی نے سڑک کے بہت ہی کم حصے پر یہ تجربہ کیا ہے جس سے بہترنتائج سامنے نہیں آئیں گے۔ زیادہ بہتر یہ تھا کہ ایک مکمل سڑک کو بلیوروڈ میں تبدیل کیا جاتا ہے تاکہ مانیٹرنگ اور موازنہ بہترطریقے سے کیا جاسکتا۔
لاہوربچاؤتحریک کے سرگرم رہنما اورماحولیات کے وکیل احمد رافع عالم کے نزدیک بلیو روڈ کا تصور محض آنکھوں کا دھوکا ہے، کروڑوں روپے کی لاگت سے کلمہ چوک انڈرپاس بنایا گیا جہاں سیمنٹ اوربجری کا بے دریغ استعمال کیا گیا ہے، سڑک پر صرف 700 فٹ کے ایریا پربلیو رنگ کرکے عوام کو بیوقوف بنایا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ درجہ حرارت میں کمی لانے کا موثر ذریعہ زیادہ سے درخت لگانا ہے، بلیوروڈ دیکھنے میں تو خوبصورت لگی ہے لیکن اس پرآنیوالے لاگت کئی گنا زیادہ ہوگی۔
واضع رہے کہ سی بی ڈی کے حکام بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ بلیوروڈ کی تعمیراتی لاگت عام روڈ کے مقابلے میں زیادہ ہوگی لیکن یہ کتنا فرق ہوگا اس بارے ابھی کچھ نہیں بتایا گیا
عام شہری بھی بلیوروڈ کے ذریعے درجہ حرارت میں کمی کے دعوؤں پر مطمئن دکھائی نہیں دیتے۔
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں شعبہ ماحولیات کی طالبہ عنبرین فاطمہ کہتی ہیں یہ طریقہ اگراتنا ہی فائدہ مند ہوتا تو پھرپاکستان میں بننے والی جدید طرز کی ہاؤسنگ اسکیموں میں بھی یہ تکنیک ضروراستعمال کی جاتی، انہیں تو یہ سب صرف سڑکوں کومختلف رنگوں کے ذریعے سجنے ،سنوارنے کا منصوبہ لگتا ہے۔
ایک اورطالبہ ماہین عامر نے کہا جس طرح ہم چھتوں کو تپش سے بچانے کے لئے مختلف رنگوں اورمیٹریل کی کوٹنگ کرواتے ہیں ممکن ہے اسی طریقے سے سڑکوں کی تپش کم کی جاسکے لیکن یہ بہت مہنگا کام ہوگا، پاکستان جیسے ملک میں جہاں پرانی طرزکا انفراسٹرکچر بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکارہے وہاں اس طرح کی مہنگی تکنیک کواستعمال کرنا ناممکن لگتا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔