پلاسٹک کو دوبارہ قابلِ استعمال بنانا انسانی صحت کے لیے نقصان دہ قرار
زہریلا مواد جگر کو نقصان پہنچا سکتا ہے، تھائیرائیڈ کی بیماری، بانجھ پن اور کینسر کا سبب بن سکتا ہے
متعدد کمپنیاں اکثر ماحول کو بچانے کی غرض سے پلاسٹک کو دوبارہ قابلِ استعمال بنا کر مصرف میں لانے پر زور دیتی ہیں لیکن یہ ماحول دوست اقدام انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔
کچھ اقسام کی پلاسٹک میں زہریلے کیمیا (جیسے کہ انسان کا بنایا ہوا بسفینول) موجود ہوتے ہیں اور دوبارہ قابلِ استعمال بنانے کے عمل کے دوران یہ خطرناک کیمیا اس مواد کا حصہ بن جاتے ہیں جو نئی بوتلیں، کارٹن یا دیگر برتن بنانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
غیر منافع بخش ادارے گرین پیس کی جانے سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق یہ زہریلا مواد جگر کو نقصان پہنچا سکتا ہے، تھائیرائیڈ کی بیماری، بانجھ پن اور کینسر کا سبب بن سکتا ہے۔
گرین پیس میں پلاسٹک پروجیکٹ کی سربراہ کیٹ میلگیز کے مطابق اس کا بہترین متبادل ایک بار استعمال کیے جانے والے پلاسٹک سے دوری اور کاغذ، شہد کی مکھیوں کے بنائے موم یا بانس سے بنی اشیاء کی جانب منتقلی ہے۔
گرین پیس کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا کہ دوبارہ استعمال کے قابل بنائے گئے پلاسٹ سے تین طریقوں سے زہر آلودگی ہوتی ہے۔
پہلا طریقہ یہ کہ آلودہ ری سائیکل پلاسٹک سے بنایا جانے والا برتن اپنے اندر زہریلا مواد رکھتا ہے۔ دوسرا طریقہ برتنوں میں زہریلے مواد (کیڑے کش ادویات، موٹر آئل وغیرہ) کا رکھا جانا ہے۔
زہر آلودگی کی تیسری صورت پلانٹ پر ری سائیکل کیے جانے والے پلاسٹک کو پگھلائے جانے کے سبب نئے زہریلے مرکبات خارج ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے۔