بھارت میں اُردو کا مستقبل تابناک ہے

سید بابر علی  اتوار 27 اپريل 2014
 بھارت میں اُردو شاعروں کو اتنی داد و تحسین ملتی ہے کہ ہوہ ہندو شعرا جو کویتا کہتے تھے انہوں نے بھی غزل کہنا شروع کردی، حسن کاظمی۔ فوٹو: فائل

بھارت میں اُردو شاعروں کو اتنی داد و تحسین ملتی ہے کہ ہوہ ہندو شعرا جو کویتا کہتے تھے انہوں نے بھی غزل کہنا شروع کردی، حسن کاظمی۔ فوٹو: فائل

ہمہ جہت شخصیت کے مالک حسن کاظمی نے 7اکتوبر 1960کو کان پور کے ایک ادبی گھرانے میں جنم لیا۔ اِن کا شمار بھارت کی اُن ادبی اور صحافتی شخصیات میں کیا جاتا ہے جو ہمہ وقت بھارت میں اُردو کے فروغ اور صحافتی اقدار برقرار رکھنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔

شاعری حسن کاظمی کا عشق اور صحافت اُن کا مشن ہے۔

پُروقار شخصیت کے مالک حسن کاظمی نے ایک دہائی تک دور درشن لکھنئو کے ناظرین کو خبروں سے آگاہ کیا۔

1992میں ’’سہارا پریوار‘‘ کا حصہ بنے۔ ٹیلی ویژن نیٹ ورک ’’سہارا سمے‘‘ کے اردو نیوز چینل ’’عالمی سہارا‘‘ میں بہ حیثیت ’’چینل ہیڈ‘‘ اپنے فرائض کی بجا آوری کی۔

آج کل ریاست اتر پردیش میں ’’سہارا نیٹ ورک‘‘ کے اخبارات اور ٹی وی چینل کے معاملات دیکھ رہے ہیں۔

گذشتہ دنوں حسن کاظمی کچھ ادبی تقریبات اور عالمی مشاعرے میں شرکت کے لیے کراچی تشریف لائے۔ ایکسپریس کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں اُنہوں نے اپنی نجی اور پروفیشنل زندگی کے کچھ گوشوں سے پردہ اٹھایا۔ ان سے ہونے والی گفتگو قارئین کی دل چسپی کے لیے پیش کی جا رہی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

٭ایکسپریس: صحافت کی پُر خار وادی میں قدم رکھنے کی وجوہات؟

حسن کاظمی: صحافت بچپن میں ہی اِس طرح خون میں شامل ہوئی کہ ہمارے ماموں کان پور سے ایک ہفت روزہ رسالہ نکالتے تھے۔ گھر ہی میں اُس رسالے کی ادارت ہوا کرتی تھی۔ کچھ اُن کی صحبت، کچھ ادیبوں کی سنگت، دونوں نے مل کر ہمیں صحافی بنا دیا۔ زمانہ طالب علمی میں ہی کان پور سے نکلنے والے اخبار ’’سیاست جدید‘‘ سے بہ حیثیت ’’کلچرل رپورٹر‘‘ منسلک ہوگئے۔ ’’سیاست جدید‘‘ میں مولانا اسحاق علمی صاحب جیسی ادبی شخصیت کی زیرسرپرستی کام کرنے کا موقع ملا۔ 1982میں ہم لکھنئو چلے گئے اور وہاں سے ’’سیاست جدید‘‘ کے لیے ثقافتی اور ادبی تقریبات کی خبریں بھیجنا شروع کردیں۔ کچھ عرصے بعد رام پور سے نکلنے والے اخبار ’’قومی جنگ‘‘ سے وابستہ ہوگئے۔ 1987 تک ِاس اخبار سے وابستگی رہی۔ ’’قومی جنگ‘‘ کو خیر باد کہنے کے بعد دور درشن سے بہ حیثیت ’’انٹرویو نگار‘‘ وابستہ ہو گئے۔ اِن اخبارات کا تجربہ یہاں بہت کام آیا۔ 1990میں دور درشن میں ’’نیوز ریڈر‘‘ کے لیے آڈیشن ہوئے جس میں ہمیں منتخب کرلیا گیا۔

2000 تک دور درشن میں خبریں پڑھیں۔ دوردرشن میں خبریں پڑھنے کے دوران ہی 1992میں ’’سہارا پریوار‘‘ کے فنانس ڈیپارٹمنٹ سے بہ حیثیت برانچ مینیجر منسلک ہوگئے تھے۔ 2000میں سہارا نے دلی سے اپنا ٹی وی چینل لانچ کیا اور ہم نے بھی دور درشن کو مستقل خیر باد کہہ کر دلی میں سکونت اختیار کرلی۔ دلی گھر والوں کو نہیں بھائی اور وہ واپس لکھنؤ چلے گئے، لیکن ذریعہ معاش کے سبب ہم نے تیرہ سال گھر والوں سے دور دلی میں گزارے۔ حال ہی میں ہم نے اپنا تبادلہ واپس لکھنئو کروالیا ہے۔بطور میزبان (اینکر) متعدد ملکی اور غیر ملکی اہم شخصیات کے انٹرویو کیے۔ ’’قتیل شفائی‘‘،’’جمیل الدین عالی‘‘،’’حمایت علی شاعر‘‘،’’افتخار عارف‘‘ سے کیے گئے انٹرویوز میرا سب سے قیمتی اثاثہ ہیں۔

٭ایکسپریس: بہ حیثیت ادیب اور صحافی پاک بھارت تعلقات کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

حسن کاظمی: پاک بھارت تعلقات میں بہتری محض ایک لکیر کی دوری پر ہے، ایک ایسی ’’سیاسی لکیر‘‘ جو دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان حائل ہے۔ ان میں نفرت کا بیج بو رہی ہے۔ 1998 میں پہلی بار کیفی اعظمی اور سردار جعفری صاحب کے ساتھ پاکستان آنا ہوا۔ اُس وقت پاکستان اور پاکستانی عوام کو لے کر دل میں بہت وسوسے تھے۔ غیریت کا ایک عجیب سا احساس تھا۔ ہمارا آدھا خاندان پاکستان میں ہے، لیکن اُن سے بھی بس کبھی کبھار ہی خطوط کا تبادلہ ہوتا تھا۔ پاکستان آکر اپنوں کی محبت کا احساس ہوا۔

ہم نے امریکا، کینیڈا، یورپ اور کئی خلیجی ممالک میں ہونے والے مشاعروں میں شرکت کی۔ لیکن جو پیار اور اپنائیت پاکستانیوں سے ہمیں ملتی ہے، وہ کہیں اور سے نہیں۔ واپس جاتے سمے بہت دُکھ اور افسوس ہوتا ہے۔ اسی لیے ہم چاہتے ہیں کہ پاک بھارت تعلقات میں حائل اس ’’سیاسی لکیر‘‘ کو ختم کیا جائے۔ دونوں ملکوں کے عوام کی نالیں ایک دوسرے سے جُڑی ہوئی ہیں۔ پاکستانی اور ہندوستانی دونوں ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں۔

پاکستان بھارت کے مابین تجارتی تعلقات بھی استوار ہونے چاہییں۔ پاکستان ہمارا سب سے بڑا ہمسایہ ملک ہے۔ ہماری زبان، رسم و رواج تقریباً ایک سے ہیں۔ ’’دلیپ کمار‘‘،’’پران‘‘، ’’پریم چوپڑا‘‘ اور کئی بڑے بڑے فن کار پاکستانی سر زمین پر پیدا ہوئے۔ ہم جب پہلی بار پاکستان آئے تو ’’ لائن آف کنٹرول ‘‘ کو دیکھنے کی خواہش تھی۔ حسرت تھی کہ آخر وہ کون سی ’’لکیر‘‘ ہے جو ہمیں بانٹتی ہے۔ ہم لوگ امن کے سفیر ہیں، محبت بانٹنے اور محبت ڈھونڈنے آتے ہیں۔ ہم اس بار بذریعہ بس پاکستان آئے دوران سفر ہمارے ساتھ ’’گلزار دہلوی‘‘ (جن کا اصل نام پنڈت آنند موہن زوتشی ہے) بھی تھے۔ دوران سفر کئی بار ہماری آنکھیں چھلکیں۔

محبتوں میں حائل لائن آف کنٹرول دیکھی۔ ہمارے ساتھ کچھ شاعرات بھی تھیں۔ وہ روہانسی ہو ہو کر ہم سے کہہ رہی تھیں’’جی چاہ رہا ہے ابھی بس سے اتریں اور ان لکیروں(لائن آف کنٹرول) کو کھرچ کر ختم کردیں۔ جس نے اتنی دوریاں، نفرتیں پیدا کردی ہیں۔‘‘ ہم نے کہا کہ اگر ہم ادیبوں شاعروں کے بس میں ہوتا تو یہ لکیریں کب کی ختم ہو چکی ہوتیں۔ اس بار ہم سے مشاعرے میں شرکت کے لیے کچھ غیر مسلم شعرا کو بھی ساتھ لانے کا کہا گیا۔ ہم نے ’’گلزار دہلوی‘‘ اور بھوپال کے ایک نئے کہنے والے ’’وجے تیواڑی‘‘ کو ساتھ لے لیا۔ گلزار دہلوی اس وقت بھارت کے سب سے سینیئر شاعر ہیں۔ یہ کشمیری پنڈت اور جواہر لال نہرو خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے فیض، فراق، اور جگر کے دور کو بھی دیکھا ہے۔

ہندوستان واپس جا کر ان حضرات نے اپنی سوشل میڈیا کی آئی ڈیز پر جو اسٹیٹس ڈالا ہے وہ کچھ اس طرح ہے ’’اخبارات اور ٹی وی چینل ہمیں پاکستان کا جو عکس دکھاتے ہیں، در حقیقت پاکستان اس کے بر عکس ہے۔ پاکستان میں اتنی اپنائیت اور محبت ملی کہ ہمیں لگ ہی نہیں رہا تھا کہ ہم اِس ملک کا حصہ ہیں یا اُس ملک کا۔‘‘

٭ ایکسپریس: سہارا پریوار کے چیئر مین سُبتھ رائے پر قایم مقدمات کا پس منظر کیا ہے؟

حسن کاظمی: ’’سہارا انڈیا پریوار ‘‘ کے بانی اور چیئرمین سُبتھ رائے پر قائم مقدمات سیاسی اور انتقامی کارروائی کا نتیجہ ہیں۔ ’’سُبتھ رائے‘‘ کے ملائم سنگھ یادیو سے بہت دیرینہ اور قریبی تعلقات ہیں۔ سُبتھ رائے پر قایم مقدمے کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ ’’سُبتھ رائے‘‘ نے میوچل فنڈز طرزکی ایک اسکیم متعارف کرائی۔ ریزرو بینک آف انڈیا کو اِس اسکیم پر اعتراض ہوا اور اس اسکیم پر پابندی عاید کردی۔ بینک کی جانب سے پابندی عاید کرنے پر سہارا گروپ نے اپنے سرمایہ کاروں کو اعتماد میں لے کر یہ رقم ہائوسنگ انڈسٹری میں لگادی۔ اس رقم سے ہندوستان کے دور دراز کے شہروں میں زمینیں خرید کر تعمیرات شروع کی گئیں۔ یہاں تک سب ٹھیک چل رہا تھا، لیکن سیاسی دبائو پر ’’سی بی آئی ‘‘ اور SEBI( سیکوریٹیز اینڈ ایکسچینج بورڈ آف انڈیا) نے چھاپے مارنے شروع کردیے۔

انکوائری کرنے والےSEBI کے ایک انفورسمنٹ ڈائریکٹر کو ہمارے کسی افسر نے ڈرا دھمکا بھی دیا جس کے سبب یہ معاملہ اور بگڑ گیا۔ اُس کے بعد پورا SEBIہمارے خلاف متحد ہوگیا۔ اگلے ماہ حکومت تبدیل ہوتے ہی سب کیس ختم ہوجائیں گے، کیوں کہ اُن پر قائم کیے گئے مقدمات کے پس منظر میں سیاسی انتقام کارفرما ہے۔ ہم آپ کو یہ بھی بتا دیں کہ اگر سہارا صرف دو تین شہروں میں موجود اپنی زمینیں ہی فروخت کردے تو سب کی ادائیگی ہوجائے۔ سہارا گروپ عوام کو اُن کی رقم واپس لوٹانے کے لیے SEBI کو ساڑھے پانچ سو کروڑ روپے دے چکا ہے، لیکن انہوں نے اب تک ایک کروڑ سے زیادہ بانٹے ہی نہیں اب کوئی اُن سے پوچھے کہ آپ اس رقم کو کیوں دبا کر بیٹھے ہیں اسے بانٹیے لوگوں میں۔

سُبتھ رائے بہت نیک دل اور اچھے انسان ہیں۔ ایسا انسان صدیوں میں پیدا ہوتا ہے انہوں نے لاکھوں لوگوں کو روزگار فراہم کیا۔ سب کو بلا تعصب، رنگ و نسل ایک سوتر (دھاگے) میں باندھ کر رکھا ہوا ہے۔ اسی لیے اُنہوں نے اپنے ادارے کا نام ’’سہارا پریوار‘‘ رکھا ہے۔ وہ حقیقتاً ایک پریوار (خاندان) کے سربراہ کی طرح ہی ہمارا خیال رکھتے ہیں۔

٭ایکسپریس: آپ بھارت میں اُردو کا مستقبل کیا دیکھتے ہیں؟

حسن کاظمی: بھارت میں اُردو کا مستقبل بہت تاب ناک ہے۔ لوگوں میں اُردو بولنے کا رجحان پیدا ہو رہا ہے۔ اُردو سکھانے والے نئے ادارے کُھل رہے ہیں۔ اسکول کُھل رہے ہیں۔ جنوب کی وہ ریاستیں جہاں کبھی اُردو کا نام و نشان نہیں تھا، اب وہاں بھی مشاعرے اور ادبی تقریبات ہو رہی ہیں۔ اُردو گانوں کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ اُترپردیش تو اُردو کا گہوارہ ہے، وہاں تو اُردو زبان پر بہت بڑے پیمانے پر کام ہورہا ہے۔ بھارتی معاشرے میں اُردو شاعروں کو اتنی داد و تحسین ملتی ہے کہ ہمارے وہ ہندو شعرا جو گیت اور کویتا کہتے تھے، اب انہوں نے بھی غزل کہنا شروع کردی اس کا آغاز سب سے پہلے ’’گوپال داس نیرج ‘‘ نے کیا۔

وہ ہندی کے گیت کار کہلائے جاتے تھے، لیکن اُردو میں اُن کے فلمی نغموں کو وہ پذیرائی ملی کہ انہوں نے فلمی گیت ہی کہنا شروع کردیے۔ اب ہندی کا ایک کوی اردو فلمی گیت لکھ رہا ہے۔ ریاست اترپردیش کے سابق وزیراعلیٰ ملائم سنگھ یادیو نے بھی اُردو کے فروغ کے لیے بہت کام کیا ہے اور تا حال کر رہے ہیں۔ اُنہوں نے سرکاری دفاتر میں خط و کتابت سے لے کر افسران کے ناموں کی تختیاں تک اُردو میں لکھوا دی تھیں۔ انہوں نے ہر دفتر میں ایک اُردو مترجم کو لازمی قرار دیا۔ انہوں نے اپنے دور حکومت میں سرکاری تعلیمی اداروں میں اُردو پڑھانے کے لیے 74ہزار اساتذہ بھرتی کیے تھے۔

بھارت میں پاکستانی ادیبوں اور شاعروں کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے۔ اُن کی کتابیں ہاتھوں ہاتھ بکتی ہیں۔ ’’احمد فراز‘‘،’’فہمیدہ ریاض‘‘، ’’کشور ناہید‘‘،’’امجد اسلام امجد‘‘،’’قتیل شفائی‘‘ اور بہت سے پاکستانی ادیبوں کی کتابوں کے جتنے ایڈیشن چھاپے جائیں کم ہیں۔ پاکستانی فن کاروں کو بھارت میں بے حد عزت دی جاتی ہے، ماسوائے چند انتہا پسند تنظیموں کے۔ ’’غلام علی‘‘، ’’راحت فتح علی خان‘‘،’’مہدی حسن خان‘‘ اور ’’قتیل شفائی‘‘ صاحب کی تو وہاں لوگ پوجا کرتے ہیں۔ ان کے شوز کے منہگے سے منہگے ٹکٹ خریدتے ہیں۔ منہگے سے منہگے البم خریدتے ہیں، اور شاید ان فن کاروں کے جتنے البم بھارت میں بکتے ہیں دنیا میں کہیں نہیں۔جو زبان لوگوں کے روزگار سے منسلک ہو وہ کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔ آپ کو اگر کسی زبان کو ختم کرنا ہے تو اُسے روزگار سے الگ کردیں وہ خود ہی ختم ہوجائے گی۔ ہم آپ کو یہ بات بھی بتادیں کہ تمام تر سازشوں کا شکار ہونے کے باوجود اُردو زبان ختم نہیں ہوپائی اور نہ کبھی ختم ہو سکے گی۔

٭ایکسپریس: کیا بھارت میں اُردو کو انتہاپسند ہندوئوں کی جانب سے خطرات لاحق ہیں؟

حسن کاظمی: انتہا پسندوں کی جانب سے اکثر سنسکرت کو قومی زبان کا درجہ دینے کا واویلا کیا جاتا ہے، لیکن عملی طور پر یہ ممکن ہی نہیں۔ سنسکرت کے نفاذ کے لیے تحریک چلانے والے افراد کے اہل خانہ بھی اس زبان کی اتنی شُد بُد نہیں رکھتے جتنی دسترس اُنہیں اُردو پر حاصل ہے۔

٭ ایکسپریس: بھارت میں اُردو صحافت کا حال، مستقبل کیا ہے؟

حسن کاظمی : بھارت میں اُردو صحافت کا مستقبل بہت روشن ہے۔ بھارت میں پہلے اُردو کے دو بڑے اخبارات ہوتے تھے، ’’سیاست‘‘ اور کانگریس کا ’’قومی آواز‘‘، اب آٹھ دس بڑے اُردو اخبارات شایع ہو رہے ہیں، لیکن رسائل کی تعداد کم ہورہی ہے۔ اُردو صحافت میں انگریزی کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ صحافیوں کی اُردو زبان پر مکمل دسترس کا نہ ہونا اور اُن کی کم علمی ہے۔

کچھ پاکستانی صحافی ایسے ہیں جن کی خبروں کو بھارتی میڈیا میں بہت مستند سمجھا جاتا ہے اور ہم ’’بیپر‘‘ کے لیے انہی کو ترجیح دیتے ہیں۔ پاکستان میں پابندی کے باوجود کیبل کے ذریعے بھارتی چینلز دکھائے جا رہے ہیں۔ بھارت میں کیبل پر پاکستانی چینلز کے دکھائے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وہاں اس ضمن میں بہت سختی ہے، لیکن اگر آپ کے پاس ڈش انٹینا ہے تو آپ فریکوئنسی سیٹ کر کے پاکستانی چینلز دیکھ سکتے ہیں۔

٭ایکسپریس: بھارت میں صحافتی زبان کی مخدوش صورت حال پر آپ کیا کہیں گے؟

حسن کاظمی: 1995تک بھارتی ذرایع ابلاغ میں بہت شائستہ زبان استعمال کی جاتی تھی۔ لیکن نئے نیوز چینلز کے آنے سے مسابقت بڑھ گئی۔ ریٹنگ کے لیے سرخیوں میں گانوں اور فلمی ڈائیلاگ کا استعمال بتدریج بڑھتا گیا۔ ’’آج تک‘‘ نے بریکنگ نیوز کے لیے نیا طریقہ متعارف کروایا جس میں ایک لائن کی خبر کو15,15 منٹ بل کہ بعض اوقات ایک گھنٹے تک سنسنی خیزی کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ اُس کی دیکھا دیکھی دوسرے چینلز نے بھی یہی کام شروع کردیا۔ معاشرے میں ہونے والی غیراخلاقی اور مجرمانہ سرگرمیوں کو بے نقاب کرنے کے لیے ’’چھاپا مار‘‘ پروگراموں کی شروعات بھی ’’آج تک‘‘ نے کی۔ جب آپ ’’زرد صحافت ‘‘ کرنے والوں کو اختیارات دے دیں گے تو پھر یہی سب ہوگا۔

بھارت کے سنجیدہ اور ادبی حلقوں میں اس طرح کی صحافت کو اب بھی بہت معیوب سمجھا جاتا ہے۔ لیکن آپ کا ناظر بھی یہی سب (سنسنی خیزی) دیکھنا چاہتا ہے۔ اُس کے ہاتھ میں ریموٹ کنٹرول ہے۔ آپ نہیں دکھائیں گے تو وہ بٹن دبا کر اُس چینل پر جائے گا جہاں یہ سب دکھایا جارہا ہو۔ تو کچھ چینل اپنی بقا کے لیے نہ چاہتے ہوئے بھی یہ سب کر رہے ہیں۔ چینل چلانے کے لیے اشتہارات کی ضرورت ہوتی ہے اور اشتہارات انہی پروگراموں کو ملتے ہیں جن کی ریٹنگ زیادہ ہو۔ تو بس یوں سمجھ لیں کہ یہ سب کھیل پیسے اور ریٹنگ کا ہے۔ پاکستان میں بھی چند ایک کو چھوڑ کر سب چینل اسی بھیڑ چال کا شکار ہو گئے ہیں۔ وہی سنسنی خیزی، وہی چھاپا مار پروگرام۔ پہلے ہم ہفتے میں ایک نیوز بھی پڑھتے تھے تو لوگوں کو ایک مہینے بعد بھی ہمارا چہرہ یاد رہتا تھا، لیکن آج ہم سارا دن اسکرین پر رہتے ہیں تب بھی لوگ ہمیں نہیں پہچانتے، کیوں کہ اب درجنوں ٹی وی چینلز آگئے ہیں۔

٭ایکسپریس: بھارت میں ہونے والے انتخابات کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

٭حسن کاظمی: اس بار انتخابات میں کوئی جماعت اکثریت حاصل نہیں کر سکے گی۔ امکانات مخلوط حکومت بننے کے ہیں۔ جوڑتوڑ کی سیاست ہوگی لیکن امید ہے کہ کانگریس اکثریت میں ہوگی۔

٭ایکسپریس: عام آدمی پارٹی سے کس کا ووٹ بینک متاثر ہورہا ہے ، اور آپ عام آدمی پارٹی کو کس زاویے سے دیکھتے ہیں؟

حسن کاظمی: عام آدمی پارٹی کے اروند کیجروال نے انا ہزارے کا مشن چھوڑ سیاسی جماعت بنالی۔ ’’منیش ششودیا‘‘،’’کمار وشواس‘‘ ٹائپ کے بدعنوان اور چھچھورے لوگ انہوں نے اپنے ارد گرد جمع کر رکھے ہیں۔ کیجری وال تو اپنے اُس مشن ہی سے ہٹ گئے، جس کی بُنیاد پر کام یابی حاصل کی تھی، جس ملک میں کرپشن کی جڑیں ناسور کی طرح پھیلی ہوں وہاں آپ کچھ نہیں کر سکتے۔ بھارتی سیاست میں کرپشن کا عنصر بہت زیادہ ہے۔ عام آدمی پارٹی بدعنوانی کے خاتمے کا منشور لے کر سامنے آئی۔ لیکن جب کرپشن کا ناسور سر سے پیر تک سرایت کرچکا ہو تو آپ چند لوگوں کے ساتھ کیا کر سکتے ہیں۔ لوگ آپ کو مسل کر رکھ دیں گے۔ مثلاً میں ایک بہت بڑا افسر ہوں اور آپ میرے پاس اپنے کسی کام سے آتے ہیں لیکن جب تک آپ مجھے رشوت نہیں دیں گے تو میں کوئی نہ کوئی قانونی سقم نکال کر آپ کو دوڑاتا ہی رہوں گا۔

آپ میری کرپشن کو ثابت بھی نہیں کرسکتے، لیکن اگر آپ چور دروازے سے میرے پاس آتے ہیں تو پھر یقیناً تین دن میں ہی آپ کا کام ہوجائے گا۔ شیلا ڈکشٹ (دہلی کی سابق وزیراعلیٰ) نے دہلی کو پیرس بنا دیا ہے۔ اُس نے دہلی میں فلائی اوورز کا جال بچھا دیا، میٹرو چلائی۔ آپ (اروند کیجری وال) نے اقتدار میں آنے کے لیے جھوٹے سچے وعدے کیے کہ جی آپ کو بجلی فری دی جائے گی، پانی مفت دیا جائے گا۔ آپ (کیجری وال) تو تین مہینے بھی حکومت نہیں چلا سکے۔ آپ کے پاس اختیارات تھے۔ طاقت تھی تو پھر عوام سے کیے گئے وعدے پورے کیوں نہیں کیے، جھوٹے وعدے اور دوسروں پر تنقید بہت آسان کام ہوتا ہے۔ بی جی پی کا اپنا ایک ووٹ بینک ہے اُسے کوئی نہیں کاٹ رہا۔ ووٹ ’’کانگریس‘‘، ’’سماج وادی پارٹی‘‘، ’’جنتا دل‘‘ کے کٹ رہے ہیں۔

٭ ایکسپریس: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ نریندر مودی کا وزیراعظم بننا ملکی مفاد میں بہتر ہوگا؟

حسن کاظمی: مودی اور اُن کی جماعت کا برسراقتدار آنا ناممکن ہے، کیوں کہ تشدد کے زور پر بھارت میں کوئی جماعت اقتدار میں نہیں آسکتی۔ ہندوستان میں صرف وہی جماعت آسکتی ہے جو سب کو ساتھ لے کر چلے، یہی وجہ ہے کہ آزادی کے بعد سے زیادہ تر کانگریس ہی حکومت میں رہی ہے۔ بیچ میں دوسری جماعتیں بھی برسرِاقتدار آئیں، لیکن پھر کانگریس ہی کو آنا پڑا۔ سب سے زیادہ تجربہ کار اور باوقار لوگ کانگریس ہی میں ہیں۔

٭ایکسپریس: عام ہندوستانیوں کا پاکستان سے متعلق کیا رویہ ہے؟

شیو سینا اور آر ایس ایس (راشٹریہ سوایم سیوک سنگھ) کے لوگ ہندوستان میں ہر جگہ، ہر محکمے میں موجود ہیں۔ ان کا کام ہی پاکستان مخالف جذبات کو ہوا دینا ہے۔ جو لوگ صرف افواہوں اور پروپیگنڈے ہی پر انحصار کرتے ہیں انہیں صرف نفرتیں دکھائی دے رہی ہیں، لیکن جو رسائل، اخبارات کا مطالعہ کرتے ہیں اُن کی پاکستان کے بارے میں رائے بہت مثبت ہے۔ وہ سنی سنائی باتوں اور کسی پروپیگنڈے پر یقین کرنے کے بجائے ہر خبر کی اپنے طور پر تصدیق کرتے ہیں۔

بھارت میں مسلمانوں کے لیے تھوڑا بہت تعصب تو ہے جو ایک فطری امر ہے۔ لیکن اگر آپ قابل ہیں تو پھر آپ کے لیے ترقی کے دروازے کُھلے ہیں۔ ہندوستان کے تعلیمی ادارے ابھی تک تعصب سے پاک ہیں۔ نجی اور سرکاری دفاتر میں مسلمانوں کے ساتھ تعصب روا رکھا جاتا ہے، کیوں کہ مذہبی اور نظریاتی اختلافات تو اپنی جگہ ہیں جنہیں آپ نظر انداز نہیں کر سکتے۔

٭ایکسپریس: آئیڈیل شخصیات کون کون سی ہیں؟

حسن کاظمی: آئیڈیل شخصیات تو بہت ہیں۔ ادبی شخصیات میں تو غالب سے لے کر احمد فراز تک سب ہی آئیڈیل ہیں۔ دور حاضر میں ’’ندا فاضلی‘‘،’’پیرزادہ قاسم‘‘، ’’جمیل الدین عالی‘‘ جنون کی حد تک پسند ہیں۔

٭ایکسپریس: مسئلہ کشمیر کیا کبھی حل ہوپائے گا؟

حسن کاظمی: آپ کشمیر کو ایک الگ ریاست کا درجہ دے دیں کیوں کہ وہ نہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور نہ ہی بھارت کے ساتھ۔ ہم تو کہتے ہیں کہ غیرجانب دارانہ ریفرنڈم کرادیں، خود پتا چل جائے گا۔ مسئلہ کشمیر سیاسی دکان چمکانے کے بجائے ، سمجھ داری اور انسانی ہم دردی کی بنیاد پر ہی حل ہوسکتا ہے۔

٭ایکسپریس: ادب کی طرف کس چیز نے مائل کیا؟

حسن کاظمی: اُردو اچھی ہونے کا سبب گھر کا ادبی ماحول ہے۔ ماموں کے یہاں ادبی ماحول تھا باقاعدگی سے ادبی رسائل آتے تھے۔ ماموں اور اُن کے دوستوں کی سیر حاصل ادبی گفت گو سے بھی بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔

٭ایکسپریس: ابتدائی تعلیم کہاں حاصل کی؟

حسن کاظمی: میٹرک تک سائنس پڑھنے کے بعد مزید تعلیم کے لیے فنون لطیفہ کو منتخب کیا۔ اِس کی وجہ سائنس کے مضامین میں عدم دل چسپی تھی۔ 1982میں بی اے اور 1984میں کان پور یونیورسٹی سے اُردو ادب میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔

والد صاحب ہمیں ڈاکٹر بنانے کے خواہش مند تھے۔ نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھا دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کی خواہش پوری کرنے اور نام کے ساتھ ’’ڈاکٹر‘‘ کا سابقہ لگانے کے لیے ’’پی ایچ ڈی‘‘ میں داخلہ لیا، لیکن ادبی اور صحافتی ذمہ داریوں نے پی ایچ ڈی مکمل کرنے کا موقع نہیں دیا۔

٭ایکسپریس: کوئی خواہش جس کے پورے نہ ہونے کا ملال اب تک ہو؟

حسن کاظمی: علی گڑھ یونیورسٹی میں نہ پڑھنے کی خواہش ساتھ لے کر جائوں گا۔ اپنے نام کے ساتھ حسن کاظمی ’’علیگ‘‘ نہ لکھنے کی حسرت رہ گئی، لیکن خواہش ہے کہ میرے بچے علی گڑھ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کریں اور اپنے نام کے ساتھ ’’علیگیرین‘‘ لگائیں۔دوسری خواہش اپنا ادبی رسالہ نکالنے کی ہے، کیوں کہ پوری دنیا میں مشاعروں میں جاتے ہیں تو ممبر سازی کوئی مسئلہ نہیں۔ اب اچھے ادبی رسالوں کی تعداد بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔

٭ایکسپریس: آپ کی نظر میں خاندان کو جوڑے رکھنے اور اس کی فلاح و بہبود میں ماں کا کیا کردار ہوتا ہے؟

حسن کاظمی :  ہم نے اپنی بہت سی غزلیں ماں کے نام کیں، جن میں سے چند ایک تو ہمیں بے حد پسند ہیں،

نیل گگن پر سُنتے تو ہیں، قدرت رہتی ہے

لیکن ماں کے پائوں کے نیچے جنت رہتی ہے

روکھی سُوکھی کھا کر یوں تو کُنبہ بنتا ہے

ماں رہتی ہے جب تک گھر میں برکت رہتی ہے

ماں کی دعائیں لیتے رہنا ، ِان ہی دعائوں سے

دنیا سے ٹکر لینے کی ہمت رہتی ہے

ماں جیسی قابل قدر ہستی کے لیے ہم نے اور بہت سے اشعار بھی کہے،

باسی روٹی سینک کر جب ناشتے میں ماں نے دی

ہر امیری سے ہمیں یہ ُمفلسی اچھی لگی

٭ایکسپریس: ادبی سفر کا باقاعدہ آغاز کب ہوا؟

حسن کاظمی: ادب کا باقاعدہ سفر1978میں اُس وقت شروع ہوا جب کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کان پور تشریف لائے۔ ’’جگر اکیڈمی‘‘ کی جانب سے اُن کے اعزاز میں ایک مشاعرے کا اہتمام کیا گیا تھا، جس میں اُنہیں سپاس نامہ پیش کیا جانا تھا۔ اُسی محفل میں کنور سنگھ بیدی صاحب نے ہم سے فرمائش کی’’ بھئی وقت ہے تو کچھ سنائو‘‘ جس پر ہم نے بہت ترنم سے فیض احمد فیض کی ایک غزل جو ہمیں بہت پسند تھی ’’گلوں میں رنگ بھرے بادِنوبہار چلے‘‘ سنائی۔

یہ غزل سن کر انہوں نے کہا،’’میاں! ہم نے بھی اس زمین میں ایک غزل کہی ہے ’’ہوا جو تیرِنظر نیم کش تو کیا حاصل، مزہ تو جب ہے ہے سینے کے آرپار چلے‘‘ وہ بھی سنائیے۔‘‘ ہم نے یہ غزل ترنم سے پڑھی، جسے سُن کر بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے ’’بھئی، اس بچے میں بڑا ذوق شوق ہے۔‘‘اِس کے بعد ’’فنا نظامی‘‘، ’’شیری بھوپالی‘‘ اور ’’شارق ایرایانی‘‘ صاحب نے ہماری تربیت شروع کردی۔ ہمیں روز مصرعے دیے جاتے اگلے دن ہم اِن مصرعوں پر اُنہیں غزل سنایا کرتے تھے۔ شہر میں تسلسل کے ساتھ ادبی محافل اور مشاعرے ہوا کرتے تھے۔ اُن ہی میں جگر اکیڈمی کے توسط سے ہماری نشستوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ اِن حضرات نے ہی شاعری کی طرف راغب کیا اور شعر کہنے کی صلاحیتوں کو جلا بخشی۔

٭ایکسپریس: پہلا شعری مجموعہ کب منظر عام پر آیا؟

1990میں پہلا شعری مجموعہ ’’تیری یاد کے جگنو‘‘ منظر عام پر آیا۔ ’’تیری یاد کے جگنو‘‘ پر کیفی اعظمی صاحب کے تین، چار صفحات کے مضمون نے یوں سمجھیے کہ لکھنے کی ایک نئی اُمنگ پیدا کر دی۔

ادبی حلقوں میں بھی ’’تیری یاد کے جگنو‘‘ کو بے حد پذیرائی ملی۔ بائیس سال کے طویل وقفے کے بعد دوسرا شعری مجموعہ ’’خوب صورت ہیں آنکھیں تیری‘‘ سامنے آیا۔ اس کتاب کا عنوان ہم نے اپنی ایک مشہور غزل کے نام پر رکھا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔